#CoronaVirus: ’والد کی وفات کی خبر ملنے کے بعد بھرپور کوشش کی کہ کسی طرح جنازے میں پہنچ جاؤں مگر یہ ممکن نہیں ہوسکا‘


چین

چین میں پڑھنے والے میر حسن (بائیں جانب) اپنے والد حاجی مٹھو (درمیان میں) کے ہمراہ

‘جب سے چین کے شہر ووہان میں کورونا وائرس پھیلا ہے اور ہلاکتوں کی اطلاعات آنا شروع ہوئی ہیں، اس کے بعد سے میرے والد حاجی مٹھو کیانی اپنے بیٹے اور ہمارے سب سے چھوٹے بھائی میر حسن کی یاد میں بیمار پڑ گئے تھے۔ اٹھتے بیٹھتے بس یہ ہی کہتے تھے کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے، میرے بیٹے کو میرے پاس لے کر آؤ۔ اسی پریشانی میں ان کو دل کا دورہ ہوا جو جان لیوا ثابت ہوا۔’

یہ کہنا تھا ووہان میں زیر تعلیم پاکستانی طالب علم میر حسن کے بڑے بھائی میر مسعود کا جو کہ صوبہ سندھ کے شہر نواب شاہ سے تعلق رکھتے ہیں۔

میر مسعود نے بتایا کہ ان کے ان نو بہن بھائی ہیں جن میں میر حسن سب سے چھوٹے اور اپنے والد مرحوم حاجی مٹھو کیانی اور والدہ کے سب سے لاڈلے ہیں۔

کورونا وائرس کے حوالے سے مزید پڑھیے

پاکستانیوں کی چین سے واپسی پر ممانعت تنقید کی زد میں

چین سے پاکستان آنے والوں کی نگرانی کیسے کی جا رہی ہے؟

چین میں مقیم پاکستانی طلبا وطن واپسی کے خواہشمند

حاجی مٹھو کیانی علاقے کے زمیندار تھے اور ان کے پانچ بیٹے زمینداری میں اپنے والد کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ انھوں نے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے میر حسن کو پاکستان میں بھی اعلیٰ تعلیم دلائی اور پھر پی ایچ ڈی کرنے کے لیے چین بھیج دیا تھا۔

میر مسعود بتاتے ہیں کہ ان کے تمام بھائیوں نے ڈگری حاصل کرنے کے بعد اپنے والد کے ساتھ کام کرنا شروع کیا تھا۔

‘میر حسن کو پڑھنے کا شوق تھا تو والد صاحب نے اس سے کبھی بھی کوئی کام نہیں لیا بلکہ اس کو ہمشیہ یہ تلقین کی کہ وہ دل لگا کر تعلیم حاصل کریے۔’

انھوں نے بتایا کہ جب ان کے بھائی نے پی ایچ ڈی کی خواہش کا اظہار کیا تو ان کی یہ خواہش بھی پوری کی تھی۔ ‘والد صاحب میر حسن کے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے پر بہت خوش بھی تھے اور فخر بھی کرتے تھے۔’

میر مسعود نے بتایا کہ ان کے والد ہر پانچ، چھ ماہ بعد میر حسن کو کچھ دونوں کے لیے پاکستان بلا لیتے تھے۔

چین

‘تھوڑے دن پہلے میرحسن نے والد صاحب کو بتایا تھا کہ اب اس کے کچھ دن ہی باقی رہ گے ہیں جس کے بعد وہ پاکستان لوٹ آئے گا۔ اس موقع پر والد صاحب نے کہا تھا کہ جب وہ ڈاکٹر بن کر لوٹے گا تو سارے علاقے کے لوگوں کو دعوت دیں گے، بھرپور خوشی منائیں گے۔ اسی طرح کی منصوبہ بندی اور باتیں چل رہی تھیں کہ اس دوران کورونا وائرس کی اطلاعات آنا شروع ہوگئیں۔’

ان کا کہنا تھا کہ جب کورونا وائرس کی اطلاعات والد صاحب تک پہنچی تو انھوں نے میر حسن سے کہا کہ واپس آجاؤ جس پر اس نے کہا کہ جلدی واپس آجاؤں گا۔ مگر بعد میں والد صاحب تک یہ اطلاعات بھی پہچنا شروع ہوگئیں کہ ووہان سے طالب علموں کو واپس نہیں آنے دیا جارہا ہے۔

میر مسعود کا کہنا تھا کہ زندگی کے آخری چار، پانچ دونوں میں تو وہ میر حسن کے علاوہ کسی بات کا ذکر ہی نہیں کرتے تھے بس یہ ہی کہتے تھے کہ چاہیے کچھ بھی ہوجائے میر حسن کو واپس لاؤ مگر سات فروری جمعہ کے روز وفات پا گئے تھے۔

والد صاحب کے جنازے میں بھی شریک نہیں ہوسکا

دوسری جانب چینی شہر ووہان میں موجود میر حسن کا کہنا تھا کہ جب کورونا وائرس پھیلنا شروع ہوا تو اس کے بعد سے ان کے والد دن میں کئی کئی مرتبہ فون کرتے اور خیریت معلوم کرتے۔

چین

‘وہ میرے لیے اتنے زیادہ پریشان تھے کہہ بتا نہیں سکتے۔ مجھے فون پر اکثر کہتے تھے کہ میں کچھ بھی کر لوں، جتنے پیسے خرچ ہوتے ہیں وہ خرچ کروں اور فی الفور پاکستان پہنچ جاؤں جس پر میں ان کو تسلی دیتا تھا، مگر جب میڈیا پر اطلاعات چلتیں تو وہ پریشان ہوجاتے تھے۔’

‘ہر وقت گھر میں رہتے اور میری فکر کرتے تھے۔ پھر مجھے پہلے ان کے دل کے دورے اور بعد میں وفات کی اطلاع ملی۔ جس کے بعد میں نے بھرپور کوشش کی کہ کسی طرح جنازے میں پہنچ جاؤں مگر یہ ممکن نہیں ہوسکا۔’

میر حسن کہتے ہیں کہ پاکستان واپسی کے لیے انھوں نے کئی بار چین کی خارجہ امور کی وزارت سے رابطہ قائم کیا مگر انھوں نے ہمیشہ کہا کہ اگر پاکستانی سفارت خانہ خط لکھ دے تو وہ مجھے یہاں سے نکالنے کا انتظام کرسکتے ہیں۔`

جب بی بی سی نے چین میں موجود پاکستانی سفارت خانے سے رابطہ قائم کیا تو تھرڈ سیکرٹری محمد جنید اور ذوالفقار علی کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں وزارت خارجہ سے رابطہ قائم کیا جائے۔ وزارت خارجہ اسلام آباد میں ترجمان سے رابطہ قائم کرنے کے باوجود بھی کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

ووہان میں موجود پاکستانیوں اور طالب علموں کی حالت

ووہان میں مقیم طالب علموں کے اندازے کے مطابق یونیورسٹیوں میں بڑی تعداد میں پاکستانی طلبا وطالبات پڑھ رہے ہیں اور وہ تمام کے تمام اس وقت ایک طرح سے قید ہو چکے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے چند طلبہ نے بتایا کہ صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ووہان میڈیکل اینڈ سائنس یونیورسٹی کے ہاسٹلوں میں موجود طالب علموں کو یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے باقاعدہ نوٹس دیا گیا ہے کہ وہ اب یونیورسٹی کی چار دیواری کے قریب بھی نہیں جائیں گے۔

طالب علموں کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب وائرس انتہائی قریب پہنچ چکا ہے۔

‘اب تک تو ہم محفوظ ہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کہ دنیا کے کئی ممالک اپنے طلبہ کو واپس لے جا چکے ہیں، حکومت پاکستان کے لیے ہمیں واپس لے جانے میں کیا مسئلہ ہے؟’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp