راجستھان میں کشمیری نوجوان غلام محی الدین خان عرف باسط کی ہلاکت پر کشمیری برہم


انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سرحدی ضلعے کپواڑہ کے کُنن پوشپورا گاؤں میں سڑک کے دونوں طرف غلام محی الدین خان عرف باسط کی تصویروں والے بینرز لگے ہوئے ہیں۔ اس پر لکھا ہے: ’شہید باسط چوک‘۔

اتوار کی صبح درجنوں افراد کُنن پوشپورا میں 17 سالہ غلام محی الدین خان عرف باسط کے ایک منزلہ مکان پر ماتم کے لیے آئے تھے۔

باسط کو مبینہ طور پر راجستھان میں کچھ لڑکوں نے پیٹا تھا جس کے بعد ان کی موت ہوگئی۔

ان کی ہلاکت کی خبر سے ان کے آبائی گاؤں اور مقامی لوگوں میں غصہ ہے۔ وہ نریندر مودی حکومت پر کشمیریوں کے قتل کا الزام عائد کر رہے ہیں۔

باسط کی والدہ حفیظہ رو رہی تھیں اور خود کو سنبھال نہیں پا رہی تھیں۔ وہ چیخ رہی تھیں ‘میں ان یتیموں کا کیا کروں؟ میرے بچے، تم نے مجھے دھوکہ دیا۔‘

باسط کے بعد ان کے گھر میں چار چھوٹی بہنیں، ایک چھوٹا بھائی اور اس کی ماں ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

زائرہ وسیم: ’آخر کب تک سہتے رہیں گے کشمیری؟‘

کشمیر میں ’نئی سیاست‘ کا انڈین منصوبہ کامیاب ہوگا؟

کشمیریوں کے دل و دماغ پر چھائی مایوسی کی چادر

‘بیٹے کا انتظار تھا، اس کی لاش کا نہیں’

باسط نے سرینگر کے آرمی کے گڈ وِل سکول میں تعلیم حاصل کی۔ ان کا گاؤں سرینگر سے 107 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

ان کے والد خورشید کا قدرتی وجوہات کی بنا پر 2012 میں انتقال ہو گیا تھا۔ وہ ہندوستانی فوج کے جے کے ایل آئی ریجمنٹ میں تھے۔

گاؤں میں رہنے والے ثاقب احمد نے کہا ‘ہم نے اپنے گاؤں کے چوک کا نام تبدیل کر دیا ہے۔ پہلے اس کو گماندار چوک کہا جاتا تھا لیکن اب یہ باسط چوک ہے۔ نام تبدیل کرنے سے ہم اپنے گاؤں کے بیٹے کے بہیمانہ قتل کو یاد رکھیں گے اور یہ ہمیں مرنے تک انصاف کے لیے لڑتے رہنے کی تحریک دے گا۔’

پرنم آنکھوں سے باسط کی والدہ نے کہا ‘میں اپنے بیٹے کا انتظار کر رہی تھی نہ کہ اس کی لاش کی۔ مجھے توقع نہیں تھی کہ میرے بیٹے کی لاش لائی جائے گی۔ جب باسط گھر سے گیا تھا تو اس نے کہا کہ میں جلد ہی واپس آؤں گا۔ لیکن اب میں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں کر سکتی۔ وہ تین ماہ قبل ہی گھر سے گیا تھا۔ میں انصاف چاہتی ہوں اور میرے بیٹے کے قاتلوں کو میرے حوالے کیا جانا چاہیے۔’

فردوس احمد ڈار باسط کے کزن ہیں اور ان کے ساتھ کام بھی کرتے تھے۔ وہ اس وقت راجستھان میں تھے جب باسط کو پیٹا گیا تھا۔

انھوں نے بتایا ‘واقعے سے ڈیڑھ گھنٹہ قبل خان (باسط) نے مجھے فون کیا اور کہا کہ میرا فون چارج کرنا شروع کر دو تاکہ میں چیٹ کروں۔ میں نے کہا کہ آپ آؤ، میں فون چارجنگ پر لگا دوں گا۔ اس کے فوراً بعد ہی وہ گھر آیا۔ وہ دونوں ہاتھوں سے سر تھامے ہوئے تھا۔’

‘باسط کی موت کشمیریوں سے نفرت کا نتیجہ’

ڈار نے کہا ‘ہمیں نہیں معلوم تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ اس نے بتایا کہ اسے سر درد ہو رہا ہے۔ ہم نے اسے دوا دی۔ ہم نے سوچا کہ آٹو سے آیا ہے تو سردی کی وجہ سے سر درد ہو رہا ہوگا۔ پھر وہ باہر گیا۔ ہمارا ایک دوست طاہر اس کے پیچھے گیا اور پوچھا کہ کیا ہوا ہے۔ طاہر اندر آیا اور کہا کہ خان کے ساتھ کچھ ہوا ہے۔ ہم نے خان سے کہا کہ ڈاکٹر کے پاس چلو۔ پہلے اس نے انکار کیا پھر وہ راضی ہوگیا۔ جب میں نے اس کی آنکھوں کو دیکھا تو کچھ سوجن تھی۔ اس نے قے شروع کر دی۔ ہم نے فوراً ہی ٹیکسی بک کی اور اسے ہسپتال لے گئے۔’

ڈار کا کہنا ہے کہ جب باسط کو ہسپتال لے جایا گیا تو ڈاکٹروں کو سمجھ میں نہیں آیا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے۔

وہ بتاتے ہیں ‘جب ہم ہسپتال پہنچے تو ڈاکٹروں نے کہا کہ شاید اس نے ڈرگز لی ہے۔ پھر کہا کہ فوڈ پوائزننگ ہوئی ہے۔ ڈاکٹروں کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ خان کی حالت کیوں خراب ہورہی ہے۔ پھر ہم نے اس کے چچا اور ساحل نامی لڑکے کو صورتحال کے بارے میں بتایا تبھی ساحل نے ہمیں بتایا کہ پارٹی کے دوران کچھ لڑکوں نے خان کو پیٹا تھا۔‘

ساحل کو سفیان نامی ایک عینی شاہد نے اس لڑائی کے بارے میں بتایا تھا۔

ڈار نے کہا ‘جب ہم نے ڈاکٹر کو پوری بات بتائی تو انھوں نے کہا کہ سر میں اندرونی چوٹیں ہیں۔ اس کے بعد خان کو آئی سی یو میں شفٹ کر دیا گیا اور اگلے دن اس کا آپریشن ہوا۔ زخموں کی وجہ سے رات نو بجے وہ دم توڑ گیا۔‘

ڈار کا کہنا ہے کہ ’انڈیا میں کشمیریوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور خان کی موت بھی اسی نفرت کا نتیجہ ہے۔‘

انھوں نے کہا ‘نریندر مودی نے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے بعد کہا تھا کہ ہندوستان میں کسی بھی کشمیری کو کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ لیکن میں ان سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ ہندوستان میں کیا ہو رہا ہے؟ 370 کے خاتمے کے بعد ہم ہندوستان جانا چاہتے ہیں لیکن ہمارے لوگوں کے ساتھ یہ ناانصافی کیوں کی جارہی ہے؟’

ڈار کا کہنا ہے کہ خان کی موت کے بعد وہ بھی خوفزدہ ہیں۔

اس رات کیا ہوا؟

جب سنیچر کو باسط کی لاش اس کے گاؤں پہنچی تو مقامی لوگوں نے بڑے پیمانے پر اس کے قتل کے خلاف مظاہرہ کیا۔ باسط راجستھان کے جے پور کے علاقے حسن پورہ میں اپنے کچھ کشمیری دوستوں کے ساتھ کیٹرنگ کا کام کرتا تھا۔

واقعے کے وقت وہاں موجود ایک دوسرے کشمیری شخص سوفیان نے جے پور سے بی بی سی کو فون پر بتایا کہ باسط کو کچھ لڑکوں نے بری طرح مارا پیٹا تھا جس کی وجہ سے اس کی موت ہوگئی۔

‘اس رات ہم نے 12 بجے کام ختم کیا اور گاڑی کے پاس گئے۔ اس کا اگلا دروازہ کھلا تھا اور ڈرائیور سو رہا تھا۔ خان نے پچھلے دروازے پر دستک دی اور ڈرائیور کو کھولنے کو کہا۔ ممبئی کا رہائشی آدتیہ نامی لڑکا سامنے والی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے خان کو آواز دی کہ وہ دروازہ نہیں کھٹکھٹائے، وہ ڈسٹرب ہو رہا ہے، خان نے آدتیہ سے کہا کہ وہ گاڑی کے اندر آرام کرنا چاہتا ہے۔ آدتیہ نے اس کا کالر پکڑ لیا، دو اور لڑکے آئے اور انھوں نے خان کے ہاتھ پکڑ لیے۔’

سفیان کے مطابق ‘پانچ افراد آئے اور انھوں نے خان کو پکڑ لیا۔ دو خان کو پکڑے ہوئے تھے اور آدتیہ اس کے سر پر مارے جارہا تھا۔ میں نے خان کو بچانے کی کوشش کی لیکن مجھے روک دیا گیا۔ میں یہ سب دیکھ رہا تھا۔ وہ میرے سامنے خان کو مار رہے تھے۔ خان نے بعد میں مجھے بتایا کہ ان لوگوں نے اس کے سر پر کسی چیز سے مارا ہے۔‘

سفیان کا الزام ہے کہ بعد میں ان کے باس نے انھیں دھمکی دی اور کہا کہ ’اگر ایف آئی آر واپس نہیں لی تو آپ کو بھی کوما میں اپنے دوست کے پاس بھیج دیا جائے گا۔‘

‘ہم دوبارہ وہاں نہیں جائیں گے۔۔۔’

وہ کہتے ہیں ‘میں نے پولیس رپورٹ میں اس کا تذکرہ نہیں کیا کیونکہ مجھے ڈر تھا کہ میں واحد عینی شاہد ہوں۔ خان کو زدوکوب کرنے والے یہ کہہ رہے تھے کہ کشمیریوں کو خان کی طرح باہر نکال دیا جائے گا۔’

سفیان کا خیال ہے کہ خان کو اس لیے مارا پیٹا گیا کیونکہ وہ کشمیری تھا۔

خان کے ایک دوست طاہر احمد بھی ان کے ساتھ راجستھان گئے تھے۔ انہوں نے ڈار اور سفیان کے بیان سے اتفاق کیا۔ انھوں نے کہا ‘وہاں ہم پر شبہ کیا جاتا ہے۔ جب ہم وہاں گئے تو مقامی لوگوں نے ایک مختلف نظر سے ہماری طرف دیکھا۔ وہ بہت بےرخی سے پیش آتے تھے۔’

کیٹرنگ کے لیے خان کے ساتھ راجستھان جانے والے ساحل نے کہا ‘کشمیریوں کو وہاں بہت پریشان کیا جاتا ہے۔ خان کو اس لیے مارا گیا کہ وہ کشمیری تھا۔ ہم پھر وہاں نہیں جائیں گے۔ ہم خوفزدہ ہیں۔’

کُنن پوش پورا کے ایک رہائشی حبیب اللہ نے پوچھا کہ ’کشمیریوں کو اس طرح سے ناانصافی کا سامنا کیوں ہے؟‘

انھوں نے کہا ‘دوسرے لوگ بھی وہاں رہ رہے ہیں لیکن کشمیریوں کے ساتھ ہی امتیازی سلوک کیوں کیا جارہا ہے۔ میں مودی کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آپ نے ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی کی ہے۔ لیکن ہم آپ کو کشمیر میں ایسا کرنے نہیں دیں گے۔ آج تک آپ نے کشمیر میں جو ناانصافی کی ہے ہم اس کا بدلہ لیں گے۔‘

حبیب نے کہا ‘کشمیریوں کا کیا جرم ہے؟ یہ لڑکے مزدوری کے لیے راجستھان گئے تھے اور انھیں نشانہ بنایا گیا۔ ایک عام کشمیری کشمیر سے باہر بات نہیں کر سکتا کیونکہ وہ کشمیری ہے۔ کتنے کشمیریوں کو قتل کیا جائے گا؟ کل جب خان کی لاش گاؤں پہنچی تو ایک پر امن جلوس نکالا گیا۔ لیکن سکیورٹی فورسز نے اس جلوس پر آنسو گیس کا استعمال کیا۔’

لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی ان الزامات کو یکسر مسترد کرتی ہے۔

انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں بی جے پی کے سینیئر رہنما اور ریاستی ترجمان الطاف ٹھاکر نے بی بی سی سے گفتگو کے دوران کہا ‘بی جے پی کو اس طرح کے واقعات کا ذمہ دار ٹھہرانا غلط ہے۔ راجستھان میں کانگریس کی حکومت ہے اور بی جے پی پر الزام لگانے والوں کو کانگریس کے وزیر اعلیٰ سے پوچھنا چاہیے کہ لڑکا کیسے مارا گیا۔ ہمیں مرنے والے کے ساتھ پوری ہمدردی ہے۔ مودی جی کا نعرہ ‘سب کا ساتھ سب کا وکاس’ ہے۔’

جموں وکشمیر پولیس نے سات فروری کو اپنے ایک بیان مین کہا کہ غلام محی الدین خان عرف باسط کی ہلاکت کے بارے میں پھیلائی جانے والی خبریں درست نہیں ہیں اور پولیس اس کی تردید کرتی ہے۔ پولیس کے مطابق باسط کی موت ’لِنچنگ‘ کی وجہ سے نہیں ہوئی۔

پولیس کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’باسط جے پور میں کیٹرر کی حیثیت سے کام کرتا تھا اور اس کے ساتھ کام کرنے والے کچھ لوگوں سے اس کی لڑائی ہوئی تھی جس میں وہ زخمی ہو گیا تھا۔ پولیس کے مطابق باسط کی موت دوسرے شخص سے لڑائی کی وجہ سے ہوئی ہے اور اس معاملے میں ایک شخص کو گرفتار کیا گیا ہے‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32495 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp