مذہب، سائنس اور پرویز ہود بھائی کے مغالطے


نیوکلئیر فزیسٹ، قائد اعظم یونیورسٹی کے سابق پروفیسر پرویز ہود بھائی ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ سائنس کے شعبے میں ان کی خدمات اپنی جگہ اہم ہیں۔ مگر وہ مسلمانوں کی سائنسی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ مذہب کو سمجھتے ہیں۔ اسلامک آئیڈیالوجی ان کے نزدیک ہماری ترقی میں روکاٹ ہے۔ سوشل میڈیا پر ان کا ایک کلپ سامنے آیا۔ جس میں پرویز ہود بھائی سے سوال کیا گیا کہ ہمارے ایجوکیشن سسٹم کی تباہی کی بنیادی وجہ کیا ہے؟

ہود بھائی نے جو جواب دیا اس کا خلاصہ یہاں بیان کیا جا رہا ہے۔ ”انہوں نے کہا کہ ہمارے تعلیمی نظام کا سب سے بڑا مسئلہ“ اطاعت ”یے۔ یعنی مانو مانو اور مانو۔ سوال مت کرو۔ بچے کی تخلیقی صلاحیت کو ابتدا ہی میں کچل دو۔ تاکہ وہ سوالات نہ پوچھ سکے۔ اگر وہ سوالات پوچھے گا تو وہ blasphemy میں چلا جائے گا۔ اس لیے بچے کو شروع ہی میں سولات پوچھنے سے روک دیا جاتا ہے۔ آخر میں انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ ہم چودہ سو سال پہلے والا تعلیمی نظام چاہتے ہیں۔ تو ٹھیک ہے مدینہ کی ریاست بن جائے گی“۔

اتنا بڑا ذہن رکھنے والا انسان اگر اتنی سطحی باتیں کرے تو پھر ہم کس کا رونا روئیں۔ یہاں پرویز ہود بھائی نے دو چیزوں کو خلط ملط کر دیا۔ اگر آپ ان کی گفتگو مکمل سنیں تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ سائنسی ترقی کی راہ میں اسلام اور مذہب ہی اصل روکاٹ ہے۔ حالانکہ دو الگ چیزیں ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ 1857 کے بعد تعلیمی نظام دو حصوں میں منقسم ہوا۔ دینی تعلیم اور دنیاوی تعلیم۔ دینی تعلیم کے لیے الگ ادارے قائم ہوئے جنہیں مدارس کہا جاتا یے جبکہ دنیاوی تعلیم کے لیے سکول اور کالجز قائم ہوئے۔

سائنسی تعلیم کا تعلق مدارس کے ساتھ نہیں بلکہ سکول اور کالجز کے ساتھ یے۔ اگر ہم آج سائنس میں پیچھے ہیں تو ہمیں عصری تعلیمی اداروں کو ہدف تنقید بنانا چاہیے نہ کہ مذہب کو۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ کالجز اور یونیورسٹیز میں علماء نہیں پڑھاتے اور نہ ہی وہاں علماء کا اثر و رسوخ ہے۔ بلکہ اکثر بڑی یونیورسٹیز میں اساتذہ باہر سے تعلیم حاصل کر کے آتے ہیں۔ تو کیسے مذہب سائنس کے راستے میں رکاوٹ ہوا۔

دوسری بات یہ ہے کہ ہمارا مذہب ترقی اور تجدد کے خلاف نہیں۔ اسلام ہی وہ مذہب یے جو کائنات میں فکر و جستجو کی ترغیب دیتا ہے۔ ہر مثبت جدت کا حامی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پرویز ہود بھائی نے اسلام کو سمجھا ہی نہیں۔ سائنس کے بارے میں ہزار سولات پوچھیں۔ کیونکہ سائنس تو ہے ہی reasoning کا علم۔ سائنس میں ایک لفظ اگر نکال دیا جائے تو سائنس ہی ختم ہو جائے وہ لفظ یے how؟ تو کس مولوی صاحب نے سائنسی سوالات پوچھنے سے منع فرمایا ہے۔

یا قرآن و حدیث میں کہاں آیا یے کہ سائنس کا طالبعلم سائنسی سوالات نہیں پوچھ سکتا۔ کس محدث یا فقیہ نے منع کیا ہے سوالات پوچھنے سے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں تعلیمی نظام تین حصوں میں تقسیم ہے۔ مدارس، سرکاری اور ایلیٹ کلاس کے سکول۔ مدارس کا تعلق دینی تعلیم سے ہے۔ دیگر دو میں تو صرف دنیاوی تعلیم یافتہ طبقہ ہی درس و تدریس کے فرائض سر انجام دے رہا ہے۔ تو گلہ آپ اپنے ہی قبیل کے لوگوں سے کریں۔ شکوہ آپ اپنے ہی لوگوں سے کریں۔ اپنی غلطی کا نزلہ آپ دینی طبقے اور مذہب پر کیوں گراتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments