بات دال کی چھڑی ہے تو دور تلک جائے گی


دالیں

دال میں کالا، دال نہ گلنا، یہ منہ اور مسور کی دال، گھر کی مرغی دال برابر ۔ ۔

ان تمام محاوروں میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ یہ کہ یہ سب ایک ایسی چیز کے گرد گھومتے ہیں جو ہم سب کی پسندیدہ ہے، جس کی کئی قسمیں ہیں، جسے کھا کہ بس سکون سا آ جاتا ہے، یعنی دال۔

ہم سب نے نہ صرف یہ محاورے سن رکھے ہیں بلکہ اثر اپنی گفتگو میں استعمال بھی کر چکے ہیں، لیکن کبھی سوچا ہے کہ یہ محاورے شروع کہاں سے ہوئے اور ان سب میں قدر مشترک دال ہی کیوں ٹھہری؟

ان محاوروں کے بدلتے معانی کے ساتھ ساتھ، یہ چیز بھی بدل جاتی ہے کہ آخر دال سے ہماری مراد کیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ تاریخ میں مختلف مقامات پر مختلف محاوروں کی وجہ یہ ہو کہ اس وقت دال کی قدر و قیمت کیا تھی۔

مثلاً، ہو سکتا ہے ’یہ منہ اور مسور کی دال‘ کا محاورہ تب آیا ہو جب باقی دالوں کے مقابلے میں مسور بہت مہنگی ہو گئی ہو اور ہر کوئی اسے نہ خرید سکتا ہوں۔ یوں ان دنوں میں اگر کسی کی تضحیک مقصود ہوتی، تو لوگ کہتے کہ یہ منہ ۔ ۔ ۔

کہا جاتا ہے کہ مسور کی دال ملکہ وکٹوریہ کے پسندیدہ پکوانوں میں سے تھی اور انہیں دال کا سوپ بہت پسند تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے ملکہ مسور بھی کہا جانے لگا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ریاست اودھ میں مسور کو ایک نوابی پکوان سمجھا جاتا تھا۔ یوں اس دال اور پھر اس محاورے کو یہ معنی مل گئے۔

دالیں

سلمیٰ حسین اور وجے ٹھکرال اپنی مشترکہ انگریزی تصنیف ’پُل آف پلسِز‘ یا ’دالوں کی کشش‘ میں لکھتے ہیں کہ اودھ کے ایک بادشاہ کے دربار میں ایک تباخ کو خاص طور پر دالیں پکانے کے لیے رکھا گیا تھا۔ لیکن اس شاہی باورچی کی ایک شرط تھی اور وہ یہ کہ بادشاہ سلامت اس کی بنائی ہوئی دال فوراٌ تناول کریں گے اور اسے ٹھنڈا نہیں ہونے دیں گے۔

ایک دن بادشاہ وقت پر دال نہ کھا سکا تو تباخ کو اس قدر غصہ آیا کہ اس نے دال زمین پر انڈھیل دی اور یہ کہتے ہوئے درباہ سے نکل گیا ’یہ منہ اور مسور کی دال‘ یعنی یہ بادشاہ اس قابل نہیں کہ آئندہ اسے کوئی دال پیش کی جائے۔

تاہم ’گھر کی مرغی دال برابر‘ اس کا بالکل الٹ ہے۔

بنیادی طور پر اس محاورے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا ذاتی مال و اسباب اتنا ہی حقیر ہے جتنی کہ کوئی دال۔ لیکن اگر ہم آج کل دالوں کی قیمتیں دیکھیں تو لگتا ہے یہ محاورہ درست نہیں رہا۔ آجکل دالوں کی قیمتیں اتنی تیزی سے اوپر نیچے ہوتی رہتی ہیں کہ دکانوں پر عام لوگوں کی دال نہیں گلتی۔

دال کو اکثر غریب شخص کی خوارک سمجا جاتا رہا ہے اور مہمانوں کو دال پیش ہی نہیں کی جاتی تھی اور اگر گوشت والے پکوانوں کی بجائے دال پیش کرنا پڑ جائے تو لوگ ہچکچاتے تھے۔ لیکن اب جبکہ کچھ دالوں کی قیمتیں آئے روز بڑھ رہی ہیں، آپ کو دعوتوں میں اکثر دال بھی دکھائی دیتی ہے۔

’دالوں کی کشش‘ میں یہ ذکر بھی ملتا ہے کہ دالوں کی کاشت تہذیب کے آغاز سے ہو رہی ہے اور برصغیر میں تو یہ ہمیشہ سے لوگوں کا روز مرٌہ کا کھانا رہی ہے۔ کتاب میں خوراک کے ماہر سائسندان کے ٹی اچاریہ کی ایک کتاب کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس کے مطابق دالوں کا ذکر ہندوؤں کی ایک مقدس وید میں بھی ملتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ہندو دیوتا رام کو بھگوئی ہوئی دال بہت پسند تھی اور کئی مغل بادشاہوں کی بھی اپنی اپنی پسندیدہ دالیں تھیں۔ لیکن دالوں کے چاہنے والے صرف برصغیر میں ہی نہیں پائے جاتے بلکہ پروٹینز یا لحمیات سے بھرپور یہ خوراک سرحدوں اور تہذیبوں کی محتاج نہیں رہی ہے۔ مشرق وسطیٰ سے لیکر یورپ اور برِ اعظم امریکہ تک لوگوں نے دالوں کو اپنے اپنے مقامی کھانوں میں شامل کر لیا ہے، جس کا سہرا دالوں کی انواع و اقسام، ان میں رچی بسی مٹی کی خوشبو اور ذائقے، غذائیت، مزیدار ذائقے اور ان کی قدرے کم قیمت کے سر جاتا ہے۔

کچھڑی ہو یا، دال چاول یا دال چنا، چنے کی دال کا حلوہ، بھُنی دال، مونگ کی دال، کباب، حلیم، یا مسور کی دال کا شوربہ ۔ ۔ دالوں نے ہمیشہ اپنا لوہا منوایا ہے اور اپنے تنوع کے طفیل بوڑھوں اور بچٌوں میں یکساں مقبول رہی ہیں۔ یہ دالوں کا ہی کمال ہے کہ ہم صرف دو اجناس کو استعمال کر کے دنیا کے سادہ ترین کھانے جھٹ پٹ تیار کر لیتے ہیں، دال چاول یا دال روٹی، آپ مرضی جو کھائیں۔

جہاں تک بات ہے دالوں میں پوشیدہ غذائیت کی، تو بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے ماہرِغذائیات ڈاکٹر فرزین ملک کا کہنا تھا کہ ہمیں چھلکے والی دالیں کھانا چاہئیں کیونکہ ان کا گلائیسیمِک انڈیکس بہتر ہوتا ہے اور ان سے جسم کو فایئبر بھی زیادہ ملتا ہے۔ ان کا مشورہ ہے کہ اگر کسی شخص کا یورِک ایسڈ (پیشاب میں تیزابیت) زیادہ ہے تو اسے چنے کی دال سے پرہیز کرنا چاہیے، تاہم آپ دیگر دالیں کم مقدار میں دوسری چیزوں میں شامل کر کے کھا سکتے ہیں، مثلاً کھچڑی بنا کر یا کدّو وغیرہ میں ڈال کر۔

ڈاکٹر فرزین ملک کے مطابق دال کولسٹرول کم کرنے میں بھی مدد کرتی ہے۔ ’لوگ اکثر فرائی دال کھاتے ہیں، لیکن اگر آپ دال سے غذائیت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ایسا نہیں کرنا چاہیے کیونکہ فرائیڈ کھانے جسم میں اتنے جذب نہیں ہوتے جتنا ابلے کھانے ہوتے ہیں۔ اگر کسی کو دال پسند نہیں، تو وہ دال کو کسی اور شکل میں بھی کھا سکتا ہے، جیسے دہی بھلے یا حلیم۔ اور حلیم کے ساتھ بھی نان نہیں کھانا چاہیے کیونکہ حلیم اپنے اندر ایک پورا کھانا ہے اور اس میں گندم پہلے ہی شامل ہوتی ہے۔

دالیں

دالوں کے بارے میں ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن کے پُلمین کے علاقے میں دالوں کا ایک تہوار بھی ہوتا ہے۔ نیشنل لینٹل فسٹیول نامی اس تہوار کا آغاز سنہ 1989 میں ہوا تھا اور اس میں 25 ہزار سے زیادہ لوگ شرکت کرتے ہیں اور لوگ یہاں اپنے اپنے انداز میں دالیں پکانے کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ برطانیہ میں بھی دالوں کا تہوار ہوتا ہے جہاں ان جادوئی اجناس کی نمائش ہوتی ہے۔ اس کا آغاز 2018 میں برسٹل سے ہوا اور اگلے ہی سال ملک بھر میں پھیل گیا۔

لالہ موسیٰ کے قریب، جی ٹی روڈ کے کنارے واقع ’میاں جی ریسٹورنٹ‘ جو اپنی چنے کی دال اور پراٹھے کے لیے مشہور ہے، اس کے مالکان کی تیسری نسل سے تعلق رکھنے والے میاں عبید کہتے ہیں کہ اس کاروبار کی بنیاد اس وقت پڑ گئی تھی جب ان کے دادا نے گزر بسر کے لیے دیسی گھی کے ساتھ دال بنانا اپنی والدہ سے سیکھا تھا۔ تب ہی ان کے دادا نے، آج سے 52 برس پہلے لالہ موسیٰ شہر میں سڑک کے کنارے ایک چھوٹا سا ہوٹل کھولا تھا۔ لوگ ان کی دال کی طرف کھینچے چلے آئے اور یہ روایت ابھی تک قائم ہے۔

’جب میرے خاندان والوں کا گزارا بہت مشکل ہو گیا تھا تو میرے دادا کی والدہ نے انہیں سکھایا کہ دیسی گھی میں چنے کی دال کیسے بنتی ہے اور پھر دادا نے یہ دال فروخت کرنا شروع کر دی۔ اب جو دال ہم بناتے ہیں وہ ماش، مسر (مسور) اور چنے کی دال کو ملا کر بنتی ہے۔‘

میاں عبید کے خاندان والوں نے دال کا انتحاب اس لیے کیا کہ دال آسانی سے مل جاتی تھی سستی تھی اور اسے بنانا آسان تھا۔

اب اشیائے خورد و نوش کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے عبید بھی پریشان ہیں اور خریدار بھی۔ عبید کے بقول جوں ہی گاہکوں کو معلوم ہوتا ہے کہ دال کی پلیٹ کی قیمت بڑھ گئی ہے ان کا رویہ بدل جاتا ہے۔ ’تاہم ہماری بِکری میں کوئی خاص کمی نہیں ہوئی۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ دال سب سے سستا کھانا ہے، یہ آسانی سے مل جاتی اور ہر وقت دستیاب ہوتی ہے۔ لوگ اکثر کہتے ہیں ’دو وقت کی دال روٹی چل رہی ہے۔‘ اسی لیے جب انہیں پتہ چلتا ہے کہ دال کی ایک پلیٹ کے لیے انہیں دو سو روپے سے زیادہ ادا کرنے پڑیں گے، تو وہ ناراض ہو جاتے ہیں، لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ ہماری دال میں تین قسم کی دالیں شامل ہوتی ہیں۔‘

میاں عبید کہتے ہیں کہ دال میں وہی اجزاء اور غذاییت ہوتی ہے جو گوشت میں ہوتی ہے۔ ’جو بھی گوشت کھانے کی دسترس نہیں رکھتا، وہ دال کھا سکتا ہے کیونکہ دال بھی جسم کی غذائی ضروریات کو اسی طرح پورا کرتی ہے۔‘

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32499 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp