ہزارہ- اب ’خوب است‘ کہنے والا کوئی بچا


پانی تقسیم چوک سے آرچرڈ ہاؤس کی طرف جانے والی سڑک پہ مڑیں تو پہاڑی کے دامن میں ڈھیروں چمکتے جگنو سامنے آ جاتے ہیں۔ کچھ تو اس قدر نزدیک کہ ہاتھ بڑھا کر مٹھی میں قید کیے جا سکیں۔ کوئٹہ میں یہ تمام جگنو ہزارہ کے نام سے جانے جاتی ہیں۔ دبیز قالینوں میں دبے گھر ان لوگوں کی درویش صفتی کے عکاس ہیں، نہ مکینوں کو کسی کی باتیں چبھتی ہیں نہ ہی گھر میں کوئی نوکدار چیز ملتی ہے۔ رات کی روٹی اسی دسترخوان میں لپیٹ کر سو جاتے ہیں اور صبح اسی سے ناشتہ کر کے نکل جاتے ہیں۔ ایک ایسے شہر میں جہاں سے 1935 ء کا زلزلہ ابھی تک گیا نہیں، ہزارہ لوگ وہ جگنو ہیں جو اپنے مخصوص ”خوب است۔ خوب است“ سے پورے شہر کو اجالتے پھرتے ہیں۔

ہزارہ کے بارے میں پورے یقین سے کچھ کہنا تو ممکن نہیں مگر ہو سکتا ہے یہ لوگ 740 ء میں خلیفہ وقت کے ہاتھوں شہید ہونے والے حضرت زید کی اولاد میں سے ہوں، جو مزید استحصال سے بچنے کے لئے جارجیا تک منتشر ہوئے اور پھر مختلف مسلمان حملہ آوروں کے ہمراہ یہاں پہنچے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ سیاہ پوش خانمیں، ایرانی تاریخ سے کسی نکتہ اعتراض کی مانند خارج ہوئی ہوں، قاف لیگ میں شامل نہ ہوئی ہوں اور پھر اس شہر میں قافلوں نے پڑاؤ ڈال لئے ہوں۔ یہ بھی گمان کیا جا سکتا ہے کہ وسط ایشیا میں جب آل رسول پہ قافیہ تنگ ہوا تو ان لوگوں نے یہاں ہجرت کی۔ ان تمام باتوں سے بے نیاز، کوئٹہ بہرحال تقریباً ایک ڈیڑھ صدی سے ان کا مسکن ہے۔

جذبوں میں حلاوت اور محبتوں میں مسابقت کے یہ اصحاب کہف اب کوئٹہ کے ایک غار میں مقید ہو کر رہ گئے ہیں۔ اس غار کا نام ہزارہ ہاؤسنگ سوسائٹی ہے۔ آج سے چھ سال ادھر ایک شادی کی تقریب میں شرکت کا موقع ملا تو مجھے ان کی وسعت قلبی کا احساس ہوا۔ نہ دولہے کی والدہ کو خیال آیا کہ میں پنجابی ہوں اور نہ ہی دلہن کی ماں کو میرا اہلسنت و الجماعت کا مسنون طریقہ نظر آیا۔ طرفین نے میری بھر پور پذیرائی کی۔ مہندی پہ فارسی کے گیت ایک طرف اور پنجابی کے ٹپے دوسری طرف دم بدم چلتے رہے۔

اس وقت مہذب دنیا میں ثقافتی حساسیت اتنی عام نہیں ہوئی تھی اور کچھ بوری بند لاشوں کا رجحان بھی نہیں تھا، لہذا میں نے دولہے کی بابت دریافت کیا۔ پتہ چلا کہ سویڈن میں برسرروزگار ہے۔ پھر دولہے کے ایک دوست کا پوچھا تو معلوم ہوا کہ یہ جرمنی میں ہے۔ تھوڑی دیر میں مجھے لگا کہ یہ کوئٹہ نہیں شاید سیالکوٹ کا کوئی نواحی قصبہ ہے جس میں ہر شخص بالواسطہ یا بلاواسطہ پردیس سے منسلک ہے۔ گفتگو ذرا آگے بڑھی تو پتا چلا کہ یہ ہجرت کسی سنت کا اتباع نہیں اور نہ ہی اللہ کے فضل کی جستجو ہے! مرد مومن مرد حق نے 1980 ء کے عشرے میں جو پنیری لگائی تھی آج وہ بہار دکھا رہی ہے۔ آج کے یہ اصحاب کہف کسی رومی سپاہی سے نہیں بلکہ اپنے ہی نبی اور ان کے صحابہ کے سپاہیوں سے خوفزدہ ہیں۔

جاتے وقت دلہن کی سہیلیوں نے میرے دائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی پہ مہندی لگا کر ایک چھوٹی سی پگڑی جما دی۔ میں نے جواباً کہا۔ ”میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں“ اور سارے میں ’خوب است۔ خوب است‘ کی پس پردہ موسیقی پھیل گئی۔

پہلے محرم کے جلوس پہ بم پھٹے پھر چہلم پہ نا معلوم افراد کی فائرنگ کی خبریں آنا شروع ہوئیں۔ اور اب ہر روز کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی ہزارہ زندگی کی جنگ ہار جاتا ہے۔ یہ سفر لگ بھگ پانچ سات برسوں کی کہانی ہے۔ مگر یہ بم دھماکے اور فرقہ واریت اتنی تکلیف دہ نہیں جتنی وہ بے حسی جس کا مظاہرہ ہم تمام لوگ بحیثیت قوم کر رہے ہیں۔ اپنے آسودہ گھروں میں بیٹھ کر اس واقعہ کو بیرونی ہاتھ سے جوڑ دینا آسان ہے مگر انتہا پسندی کے جن کو بوتل میں بند کرنا مشکل۔ شادی کی اس تقریب کا جواب آج پوری ہزارہ قوم کا سوال ہے۔ ”میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں“ ۔ مگر شاید اب ’خوب است‘ کہنے والا کوئی بچا۔
جنوری 2016۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments