ماڈل ٹاؤن واقعہ: سپریم کورٹ نے ماڈل ٹاؤن پر ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل، دوسری جے آئی ٹی کو کام کرنے کی اجازت


ماڈل ٹاؤن

ماڈل ٹاؤن واقعے میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین ماضی میں احتجاج کرتے رہے ہیں

پاکستان کی سپریم کورٹ نے ماڈل ٹاؤن واقعہ سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے صوبائی حکومت کی طرف سے بنائی گئی دوسری مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو کام کرنے کی اجازت دے دی ہے۔

لاہور ہائی کورٹ نے گزشتہ برس مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو کام کرنے سے روک دیا تھا۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں ایک تین رکنی بینچ نے منگل کے روز لاہور ہائی کورٹ کے حکم امتناعی کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت کی۔

17 مئی 2014 کو سابق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے دور میں لاہور کے علاقے ماڈل ٹاون میں واقع ادارے منہاج القران کی عمارت کے باہر مبینہ طور پر پولیس اہلکاروں کی فائرنگ کے نتیجے میں 10 افراد ہلاک اور 66 زخمی ہوئے تھے۔

اس واقعے کا مقدمہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور اس وقت کے وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کے علاوہ اس وقت کے صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ سمیت متعدد پولیس اہلکاروں کے خلاف درج کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

سانحۂ ماڈل ٹاؤن: انکوائری رپورٹ منظرِ عام پر لائی جائے

سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس سے متعلق پانچ حقائق

رانا ثنا اللہ: ماڈل ٹاؤن رپورٹ نقائص سے بھرپور

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ پنجاب حکومت نے دوسری جے آئی ٹی بنانے کی ذمہ داری لی تھی تو اس کا کیا بنا؟

جس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ صوبائی حکومت کی طرف سے تشکیل دی جانے والی نئی جے آئی ٹی 80 فیصد کام مکمل کرچکی تھی کہ اپریل 2019 میں لاہورہائیکورٹ نے نئی جے آئی ٹی کو کام سے روک دیا۔

بینچ میں موجود جسٹس سجاد علی شاہ نے ایڈووکیٹ جنرل پر واضح کیا کہ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے دور میں جب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں آیا تھا تو اس وقت کے پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل احمد اویس نے عدالت عظمی کو یقین دہانی کروائی تھی کہ صوبائی حکومت ماڈل ٹاون واقعے کے بارے میں تحققیات کے لیے ازسرنو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے گی۔

انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے نئی جے آئی ٹی بنانے پر کوئی حکم نہیں دیا تھا۔

ماڈل ٹاؤن احتجاج

اس واقعے سے متاثر ہونے والے افراد کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ یہ واقعہ 17 مئی 2014 کو پیش آیا اور اس واقعہ میں 10 افراد ہلاک اور 66 زخمی ہوئے تھے

بینچ کے سربراہ نے پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل سے اس واقعے کی تفصیلات پوچھیں جس پر اس واقعے سے متاثر ہونے والے افراد کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ یہ واقعہ 17 مئی 2014 کو پیش آیا اور اس واقعہ میں 10 افراد ہلاک اور 66 زخمی ہوئے تھے۔

بینچ میں موجود جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسارکیا کہ کیا اس مرحلے میں دوسری جے آئی ٹی بنانے میں کوئی قانون رکاوٹ ہے؟

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ دوسری جے آئی ٹی بنانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے جبکہ متاثرین کے وکیل نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا کہ سابق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے دور میں اس واقعے سے متعلق جو جے آئی ٹی بنائی گئی تھی وہ متنازعہ تھی اور ان کے بقول سابق جے آئی ٹی نے متاثرین سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی تھی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ حکومت نئی جے آئی ٹی سے اضافی تحقیقات کروانا چاہتی ہے تو کروا لے۔

سماعت مکمل ہونے کے بعد عدالت نے دوسری جے آئی ٹی کو کام کرنے سے روکنے سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کردیا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس مقدمے کی عدالتی کارروائی بھی دیگر فوجداری مقدمات کی طرح چلائی جائے۔

اس درخواست کی سماعت 13 فروری تک ملتوی کردی گئی ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp