مصر: سنہ 2020 میں سیاحوں کو قاہرہ کیوں جانا چاہیے؟


969 سنِ عیسوی میں دریافت کیا جانے والا جدید قاہرہ دریائے نیل کے پار واقع 4500 سال پرانے اہرامِ مصر کے مقابلے میں شاید کافی نیا لگتا ہے۔ لیکن اس شہر نے اپنے حصے کی تاریخ، جس میں سلطنتِ عثمانیہ اور برطانیہ کا عروج اور کئی انقلاب سمیت بہت سے تاریخی ادوار دیکھے جس دوران ان کے ملک کی سمت تبدیل ہوئی۔

قاہرہ اور اس کے آس پاس کے علاقے کی نئی اور پرانی تاریخ جلد ہی ’گرینڈ ایجپشن میوزیم‘ میں نمائش کے لیے پیش کی جائے گی۔ کسی ایک تہذیب کی نمائش کرنے والا یہ دنیا کا سب سے بڑا عجائب گھر ہو گا۔

سنہ 2020 کے اختتام پر کھلنے والا یہ عجائب گھر اہرامِ مصر سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور یہاں مقامی افراد اپنے علاقے کی تاریخ دیکھ پائیں گے اور قدیم مصری تہذیب کے خزانوں کو نئے آنے والے سیاحوں کے ساتھ بھی بانٹ سکیں گے۔

قاہرہ میں اوئسس ٹوئرز نامی کمپنی کے لیے مقامی گائیڈ کی حیثیت سے کام کرنے والے سید عبدالرزاق کہتے ہیں ‘میں جانتا ہوں کہ میں زندگی میں پہلی مرتبہ کچھ اعلیٰ شاہکار دیکھوں گا کیونکہ کئی ایسی چیزوں کو نمائش پر رکھا جائے گا جو پہلے سنبھال کر رکھی گئی تھیں۔‘

‘میرے جیسے کئی اور شہری بھی اس میوزیم کے افتتاح کا انتظار کر رہے ہیں کیونکہ اس سے سیاحت کو فروغ ملے گا جس کی وجہ سے مصری معیشت کو فائدہ ہو گا۔’

عبدالرزاق اور دیگر مقامی افراد میوزیم کے افتتاح کو اس موقع کی طرح دیکھ رہے ہیں جو حسنی مبارک کا تختہ الٹنے کے بعد سیاحت میں آنے والی کمی سے نمٹنے میں مدد کرے گا اور دنیا کو قاہرہ سے دوبارہ متعارف کروائے گا۔

میوزیم کے علاوہ رہائشی سیاحوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ وہ مصر میں رہنا کیوں پسند کرتے ہیں اور سیاحوں کو مصر کیوں آنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیے

قدیم مصریوں کی ختنے میں دلچسپی

فرعون کے دور کا عبادت خانہ جسے بچایا گیا

اہرام مصر کی تعمیر کی پیچیدہ ترین گتھی حل؟

تین ہزار سال پرانی ممی کی آواز دوبارہ سن لی گئی

لوگوں کو قاہرہ کیوں پسند ہے؟

سنہ 2010 سے قاہرہ میں رہنے والی امریکی مصنف لارن کے کلارک کے مطابق 20 ملین سے زائد لوگوں کے مسکن، قاہرہ کے میٹرو علاقے کی ‘ایک زندہ دل’ شہر ہے۔

لارن شہر کی اس زندہ دلی کو انواح و اقسام کی ثقافتوں، سماجی طبقوں اور قدرتی ماحول سے منسوب کرتی ہے۔ ان کے خیال میں شہر کے ہر حصے کا اپنا تاثر اور ثقافت ہے جہاں سب پہلو نمایاں ہوتے ہیں۔

ڈسکوور ڈِس کمفرٹ نامی بلاگ چلانے والی آسٹریلوی تارکینِ وطن دانا ہوش مند اقرار کرتی ہیں کہ قاہرہ میں ایک نایاب قسم کی دلچسپ رونق ہے۔

‘قاہرہ میں گھر سے نکلتے ہی چیونٹیوں کی مانند رینگتی 1000 گاڑیاں اچانک سے آپ کو خوش آمدید کہتی ہیں، سینکڑوں ہارن بجنے کی آواز، سر پر ٹوکریاں اٹھائے افراد ماہرانہ انداز میں ٹریفک کے بیچ روٹی جیسے سنیکس بیچتے نظر آتے ہیں اور کچرا اکٹھا کرنے والے گدھا گاڑیوں پر کچرا لاد کر لے جا رہے ہوتے ہیں۔’

وہ کہتی ہیں ‘یہ سب ایک وقت میں بہت سے جذبات ابھارتا ہے لیکن آپ زندہ محسوس کرتے ہیں۔’

‘ایک طرف جدید، پررونق کلبوں والا علاقہ ہے۔ دوسری جانب دیہی علاقہ ہے جہاں آپ کو سرسبز لہلہاتے کھیت نظر آئیں گے اور پھر ایک اور سمت نظر گھمائیں تو آپ کو لگے گا کہ آپ پرانے وقتوں میں آ گئے ہیں۔’

ان کے مطابق قاہرہ کی حیران کُن بات یہ ہے کہ یہ سب مختلف علاقے اپنی اصل حالت میں محفوظ رکھے گئے ہیں۔ یہی شہر کا جادو اور کمال ہے۔’

سنہ 2011 کے بعد سے کھانے کی جگہوں نے بھی اپنی نوعیت کا انقلاب دیکھا ہے اور اب کئی نئے ریستوران کھل چکے ہیں۔

عابد الرزاق کہتے ہیں ‘کچھ ریستوران عالمی کھانوں سے متاثر ہو کر کھولے گئے ہیں جبکہ کچھ کی جڑیں روایتی کھانوں سے جا ملتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ کسی کو بھی کشری کے کم از کم کچھ پیالے کھائے بغیر مصر سے نہیں جانا چاہیے۔

کشری مصر کی قومی غذا ہے جس میں مصالحے دار دالیں، نمکین چاول، چنے، بھنی ہوئی پیاز اور میکرونی شامل ہوتی ہے جس کے اوپر سرکہ والا ٹماٹو ساس ڈالا جاتا ہے۔

لارن تجویز کرتی ہیں کہ سیاحوں کو معادی، قاہرہ کے جنوبی مضافات میں واقع روڈ 9 ضرور جانا چاہیے۔ اس سڑک کے دونوں اطراف واقع ریستورانوں میں آپ کو سوشی سے لے کر مصری سٹریٹ فوڈ تک ملے گا۔

ان کے مطابق یہ سڑک ‘کھانے پکانے کے خواب کی سڑک’ ہے۔

قاہرہ میں رہنا کیسا تجربہ ہے؟

رہائشی کہتے ہیں کہ قاہرہ میں رہائش اختیار کرنے کی نیت سے آنے والے خواتین و حضرات بڑے شہر کی رونق کے لیے تیار ہو کر آئیں۔ شہر بھر میں پھیلے نئے انفراسٹرکچر کی تعمیر اور ترقیاتی منصوبوں کے پیشِ نظر ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں وقت لگ سکتا ہے۔ تاہم شہر میں گھومنے پھرنے کے لیے ذرائع آمد و رفت کی کمی نہیں ہے۔

کلارک کا کہنا ہے ‘مجھے ذرائع آمد و رفت کی دستیابی بہت زیادہ پسند ہے۔ مجھے اچھا لگتا ہے کہ میں اپنا ہاتھ باہر نکال کر ٹیکسی بلا سکتی ہوں یا بس، ٹُک ٹُک، ریل گاڑی یا اوبر لے سکتی ہوں۔’

آنے جانے میں زیادہ پیسے بھی نہیں لگتے اور قیمتوں کا موازنہ کرنے والی سائیٹ ایکسپیٹستان کے مطابق نقل و حمل کا ماہانہ خرچہ لندن سے 250 فیصد کم ہے۔

ضروری نہیں ہے کہ قاہرہ میں چیزیں ہمیشہ پلان کے مطابق ہوں اس لیے رہائشی تجویز کرتے ہیں کہ زندگی کو لے کر رویہ پُر سکون ہونا چاہیے۔

کلارک کہتی ہیں ‘اگر آپ طے شدہ شیڈول یا ادارے میں مخصوص نظم و ضبط جیسی سوچ لے کر چل رہے ہیں تو آپ کو بہت مایوسی ہو گی۔ قاہرہ آپ کو زندگی کی لہر کے ساتھ بہنے کا درس دیتا ہے۔’

نئے آنے والے لوگوں کو اگر مصری عربی آتی ہو تو انھیں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں مدد ملتی ہے۔ دانا کہتی ہیں ‘قاہرہ کوسموپولیٹِن ہے اور انگریزی آتی ہو آپ کا گزارہ چل سکتا ہے۔ لیکن اگر آپ کو عربی آتی ہو آپ کو بہت مزا آئے گا۔’

مقامی افراد 972 سنِ عیسوی میں بنائی جانے والی الاظہر مسجد، رومن مینار اور ابتدائی زمانے کے مسیحی فن سے سجے گرجا گھر جیسی مشہور قدیم ماضی کی یادوں پر فخر تو محسوس کرتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ وہ اپنے حال کے لیے بھی مشہور ہونا چاہتے ہیں۔

کلارک کے مطابق مصر کے لوگ دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ مقابلہ کر سکتے ہیں اور ان میں اپنے پاؤں پر واپس کھڑے ہونے کی اہلیت ہے۔

نئی حکومت نے قاہرہ کے 45 کلومیٹر مشرق میں دارالحکومت دوبارہ سے بنانے کا بلند نظر پلان بھی جاری کر دیا ہے۔

اس پلان کے تحت ایک ایسی سمارٹ سٹی بنے گی جہاں نقل و حمل کے ذرائع استعمال کرنے کے لیے نقد پیسوں کی ضرورت نہیں ہو گی، جہاں ہرے بھرے پارک ہوں گے اور سبزہ 700 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہو گا۔

فنڈنگ کی کمی کی وجہ سے یہ پراجیکٹ مکمل نہیں ہو پا رہا۔

آپ اور کیا پتا ہونا چاہیے؟

سنہ 2011 کے بعد سے معیشت کو اضافی چیلینجز کا سامنا ہے۔ 2010 میں ایک امریکی ڈالر 5.7 مصری پاؤنڈ کا تھا مگر 2018 میں یہ قیمت بڑھ کر 17.8 ہو گئی۔ حالات میں بہتری آنے کے بعد اب ایک امریکی ڈالر 16 مصری پاؤنڈ کا ہو گیا ہے۔

معیشت میں بہتری کے باوجود خواتین کا ہراس قاہرہ کا بڑا مسئلہ ہے۔ سنہ 2013 کی اقوامِ متحدہ کی ریسرچ کے مطابق 99.3 فیصد مصری خواتین نے کسی نہ کسی قسم کے ہراس کا سامنا کیا ہے۔

ہوش مند کہتی ہیں کہ ’مصر پہلے سے ہی مشرق وسطیٰ میں ہراس کو لے کر بدترین جگہ تھی اور اب بھی ہے۔’

لیکن شہر میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں نے ہراس میپ جیسے ذرائع بنائے ہیں۔ یہ میپ خواتین کو ہراس کے واقعات رپورٹ کرنے اور کسی واقع کی صورت میں مدد کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے تاکہ رپورٹ کرنے کے ساتھ جڑی رسوائی کا خاتمہ ہو اور ہراس کرنے والوں کی جواب دہی ہو۔

ہوش مند کہتی ہیں کہ رہائشی ملک کو درپیش چیلینجز کے بارے میں سچ بولتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ ملک بدل سکتا ہے۔

‘ان کو لگتا ہے کہ مستقبل روشن ہو سکتا ہے اور اگر نظام میں تبدیلی آئے تو مصر ماضی سے زیادہ بڑی بلندیوں کو چھو سکتا ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp