خداؤں کا پسندیدہ کھانا، خوشی کے بیج یا پانی کے کیڑوں کے انڈے


شام کے پانچ بجنے والے تھے لیکن میکسیکو سٹی کی سخت گرمی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔

جب میں شام کے وقت ازتاپالاپا نامی علاقے میں قائم ریستوران ائی لواردو پہنچی تو میں پسینے میں شرابور تھی اور بھوک سے میرے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے۔

میں نے ریستوران کا مینیو دیکھا جو کہ لگ رہا تھا کہ کافی پرانا سا ہے۔ اور اس میں میکسیکو کی وہی روایتی سوغات لکھی ہوئی نظر آئیں جو ہر جگہ ہوتی ہیں۔

’کراچی والے ٹڈی سے گھبرائیں نہیں، کھانا چاہیں تو کھا لیں‘

ٹماٹر کے مصالحے دار ساس میں بنے اینچی لاداس ، انار کی بیج اور پنیر سے بھری پوبلانو مرچیں، اور کوئلے پر تیار کیا گیا گوشت جسے ایواکاڈو کی چٹنی اور تلی ہوئی پھلیوں کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔

لیکن جب میں نے مینیو کے آخری صفحات پر نظر دوڑائی تو وہاں میرے پسندیدہ ‘ایگوا فریسکا’ یعنی پانی سے بھرے پھل موجود تھے لیکن اس کے ساتھ وہاں پر اس کے علاوہ بھی کچھ انوکھا موجود تھا۔

مینیو پر موجود تھا گراس ہوپر یعنی ٹڈا، وہ بھی ٹوسٹ کیا ہوا۔ اور اس کے ساتھ میکسیکو کی خاص روٹی جسے ٹورٹلا کہتے ہیں۔ دوسری چیز تھی خرگوش۔

میں ان دونوں چیزوں سے کچھ کچھ واقف تھی۔ ٹڈے سے بنے کھانے اور ہلکی آنچ پر تیار کیا گیا خرگوش کا گوشت وسطی اور جنوبی میکسیکو کی معروف سوغات ہیں۔

لیکن وہاں پر جو تیسری چیز تھی، گذشتہ چھ ماہ میکسیکو میں گزارنے کے باوجود میں نے اس کے بارے میں نہ کبھی سنا نہ کبھی دیکھا۔ میں نے ویٹر سے سوال کیا کہ ‘آہو واٹلے’ (ahuatle) کیا ہے؟

جواب ملا: ‘کیڑوں کے انڈے، سینوریٹا’۔ پھر اس نے مجھے سمجھایا کہ یہ انڈے مختلف اجزا کے ساتھ ملائے جاتے ہیں جس کے بعد انھیں تلا جاتا ہے اور ان پر پھر ہری مرچوں کی چٹنی یعنی سالسا ڈالا جاتا ہے۔

پھر ویٹر نے مجھ سے پوچھا: ‘یہ بہت ہی خاص سوغات ہے اور سالوں پرانی ہے۔ کیا میں آپ کے لیے آرڈر دے دوں؟’

آہو واٹلے وہ انڈے ہیں جو پانی میں تیرنے والے وہ کیڑے دیتے ہیں جنھیں مقامی لوگ عام طور پر ‘مچھر’ کہتے ہیں لیکن وہ مچھر ہوتے نہیں ہیں۔

‘آہو واٹلے’ ایک مقامی سوغات ہے جو میکسیکو میں اُس وقت سے کھائی جا رہی ہے جب یہاں پر ہسپانوی لوگ آئے بھی نہیں تھے۔ اس کا لفظی معنی ہے ‘خوشی کے بیج’، جو کہ میکسیکو میں بسنے والے ایزٹیک افراد کی زبان کا لفظ ہے۔

ان انڈوں کا سائز چنے کے دانوں کے برابر ہوتا ہے اور ایزٹیک افراد سمجھتے تھے کہ یہ خداؤں کا کھانا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ایزٹیک حکمران سمجھتے تھے کہ یہ انڈے انھیں طاقت دیں گے اور اسی وجہ سے بارشوں کے مہینے میں ہر صبح اسے کھاتے تھے۔

میکسیکو سٹی کے مقامی کہتے ہیں کہ ایزٹیک دور میں جب انسانوں کی قربانی دینے کی تقریبات کا انعقاد ہوتا تھا تو اس میں بھی آہو واٹلے کی بڑی اہمیت تھی۔

16ویں صدی کی ہسپانوی دستاویزات کے مطابق وہ انسان جنھیں قربان کیا جانا ہوتا ہے ان کے دل کو جسم سے نکال دیا جاتا ہے اور سینے میں خالی جگہ کو ان انڈوں سے بھر دیا جاتا تھا تاکہ ایزٹیک خدا کے لیے چڑھاوا بھیجا جائے۔

آہو واٹلے کو جنم دنے والے کیڑوں کا نام ‘آہ شاہ یاہ کاہٹل’ (Axayácatl) ہے۔

میکسیکو

پانی میں پیدا ہونے والے ان کیڑوں کا نام ایزٹک حکمران کے نام سے منسوب ہے اور اسے میکسیکو کی قدیم تہذیب میں نہایت اہم مقام حاصل ہے لیکن وہ اکیلے ہی اتنے معروف نہیں ہیں۔

کیڑوں پر تحقیق کرنے والی ماہر جولیٹا راموس کہتی ہیں کہ مایا تہذیب کے لوگ ٹڈوں کو ‘خدا کے مقدس پھول’ کے طور پر یاد کرتے تھے۔

اسی طرح ہوئی چول تہذیب کے لوگ بھڑوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ مرنے کے بعد انسانوں کی روح اگلے جہاں میں لے کر جاتی ہیں۔

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قدیم میکسیکو میں رہنے والی تہذیبوں میں کیڑوں کو بہت اہم حیثیت حاصل تھی مگر جب ہسپانوی افواج نے وہاں قبضہ کر لیا تو ان کی موجودگی کے بعد آہستہ آہستہ مقامی افراد میں کیڑوں کی اہمیت کم ہوتی چلی گئی۔

میری ہچکچاہٹ کو دیکھتے ہوئے ویٹر نے مجھے سے پوچھا کہ کیا آپ دیکھنا چاہیں گی کہ یہ ڈش تیار کیسے ہوتی ہے؟

میرے جواب کا انتظار کیے بغیر ہی اس نے مجھے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا اور کچن کی جانب چل پڑا۔

جب میں کچن پہنچی تو وہاں کھانا تیار کرنے والوں کی سربراہ اور ریستوران کی مالک بیٹریز آئلوارڈو نے مجھے خوش آمدید کیا۔

انھوں نے مجھے بتایا کہ اب انھیں آہو واٹلے کے زیادہ آرڈر نہیں ملتے۔

انھوں نے مجھے ایک جار دکھایا جس میں ہزاروں کی تعداد سکھائے ہوئے آہو واٹلے انڈے موجود تھے، جن کا حجم نہایت ہی چھوٹا تھا، تقریباً ریت کے دانوں جتنا۔

‘یہ ہماری دوسری ڈشوں کے مقابلے میں زیادہ مہنگا ہے اور زیادہ لوگ اس کے بارے میں جانتے بھی نہیں ہیں۔ ‘

میرے دیکھتے ہوئے بیٹریز نے کیڑوں کے انڈوں کو دودھ، انڈے، بریڈ کرمب، نفاست سے کتری ہوئی پیاز، دھنیا میں ملایا اور اس کو چھوٹی سی گیند نما شکل دے کر تلنے کے لیے ڈال دیا۔

بیٹریز نے مجھے بتایا کہ آہو واٹلے بنانے کی ترکیب انھیں ان کی ساس نے بتائی ہے۔

‘وہ کھانے پینے کی پرانی تراکیب اور اجزا کے بارے میں بہت شوق رکھتی تھیں۔ وہ انھیں اپنے گھر پر بناتی تھیں اور ہمیں ساتھ ساتھ قصے سناتیں تھیں کہ کیسے یہ سب سوغات میکسیکو کے خدا اور حکمراں کھایا کرتے تھے۔’

آہو واٹلے تیار کرتے ہوئے انھوں نے مزید بتایا کہ جب یہ ریستوران انھوں نے اپنے شوہر کے ساتھ سنبھالنا شروع کیا تو ان کی خواہش تھی کہ میکسیکو میں کھانے کی ثقافت کو قائم رکھیں جو انھیں ایزٹیک دور سے ورثے میں ملی ہے مگر یہ اتنا آسان نہیں ہے۔

آہو واٹلے کی مہنگی قیمت کی وجہ سے میکسیکو میں مقامی لوگ اسے ‘میکسیکو کاویئار’ کہتے ہیں۔ واضح رہے کہ کاویئار مچھلی کے انڈوں سے بنی ڈش ہے جو نہایت مہنگی اور نادر سمجھی جاتی ہے۔

مگر آہو واٹلے کی مہنگائی کی وجہ اس کی مقبولیت نہیں بلکہ اس کو حاصل کرنے میں دشواری کے باعث ہے۔ یہ انڈے صرف بارش کے مہینوں میں ہوتے ہیں اور اسے جمع کرنے اور حاصل کرنے والوں میں کمی کے باعث ریستوران مالکان اسے اپنے مینیو پر نہیں رکھ پا رہے۔

اسے کھانے کے شوقین افراد کو ہفتوں پہلے بکنگ کرانی پڑتی ہے۔

دوسری طرف میکسیکو میں پانی کی قلت کا بحران بھی ہے اور وہ بھی آہو واٹلے کی آبادی پر اثر انداز ہو رہا ہے اور خدشہ ہے کہ مستقبل میں وہ معدوم نہ ہو جائیں۔

آہو واٹلے تیار ہو گئے تھے اور انھیں میری پلیٹ میں ڈالتے ہوئے بیٹریز نے بتایا کہ گذشتہ 20 سالوں سے میکسیکو سٹی میں آہو واٹلے کی فراہمی کو یقینی بنانے والا صرف ایک شخص ہے جس کا نام ڈان مینئول فلوریس ہے۔

‘وہ اب ستر کی دہائی میں ہیں اور انھیں نظر بھی کم کم آتا ہے۔ وہ ہر ہفتے ہمارے علاقے میں آ کر ‘آہو واٹلے، آہو واٹلے’ کی آواز لگاتا تھا، یہ ظاہر تھا کہ ہماری طرح وہ بھی اس کا کتنا شوقین ہے اور اس قدیم ڈش کو کھونا نہیں چاہتا۔’

لیکن بیٹریز نے مجھے بتایا کہ کئی ہفتے ہو گئے ہیں اور ڈان مینئول فلوریس نے ریستوران کا چکر نہیں لگایا۔

‘وہ بیمار ہو گیا ہے اور مجھے نہیں علم کہ وہ دوبارہ واپس آئے گا یا نہیں۔’

اور کیونکہ اب ڈان مینئول فلوریس کے بچے اور اُن کے بچے ان کے شوق کو پورا کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے اور اس کا اثر بیٹریز کے ریستوران پر پڑ رہا ہے۔

‘ہمیں شاید دوسری مارکیٹوں سے یہ انڈے مل جائیں لیکن وہ مہنگے ہوں گے اور اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے علاقے کی گلیوں میں اب آہو واٹلے کی آواز نہیں گونجے گی اور یہ بہت فکر کی بات ہے کیونکہ خدشہ ہے کہ ایسا نہ ہونے سے ایک نایاب چیز کو لوگ ہمیشہ کے لیے بھول جائیں گے۔ ‘

بیٹریز آئلوارڈو نے مجھے آہو واٹلے، جنھیں پین کیک کی شکل میں بنایا گیا تھا، کھانے کو کہا۔ میں نے پہلا نوالہ لیا اور سالسا چٹنی کا ترش مگر چٹپٹا ذائقہ میرے گلے میں لگا۔ اس پین کیک میں انڈوں کے ذائقے اور موجودگی کا احساس بھی ہوا۔

اور پھر یکایک میرے منہ میں آہو واٹلے کا مخصوص ذائقہ اتر آیا، ایک ایسا ذائقہ جس نے مجھے مچھلی اور جھینگوں سے تیار کیے گئے مشرق بعید کے کھانوں کی یاد دلا دی۔

اس ذائقے کو شاید ہر کوئی پسند نہ کرے لیکن اس میں غذائیت بھرپور ہے۔ آہو واٹلے میں 63.8 فیصد پروٹین ہے اور تیاری میں بہت کم وقت اور وسائل لگتے ہیں۔ میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ مجھے یہ ذائقہ بہت پسند آیا۔

تمام تصاویر بشکریہ جیسیکا ونسنٹ۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32501 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp