سبسڈی: غریب کی مدد یا کرسی بچاؤ مہم؟


پاکستان میں مہنگائی کے خلاف احتجاج

پاکستان میں اس وقت افراطِ زر کی شرح 14 فیصد سے زیادہ ہے جبکہ اشیائے خوردونوش میں مہنگائی کی شرح 25 فیصد سے بڑھ چکی ہے۔

پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت نے مہنگائی سے تنگ عوام کو ریلیف دینے اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کو مستحکم رکھنے کے لیے سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

منگل کو وفاقی کابینہ نے جس پیکیج کی منظوری دی اس کے مطابق یوٹیلٹی سٹورز پر گندم، چینی ، چاول، دالوں، اور گھی کی قیمتوں میں کمی لانے کے لیے آئندہ پانچ ماہ تک دو ارب روپے ماہانہ سبسڈی دی جائے گی۔

یوٹیلٹی سٹورز کو ہدایت کی گئی ہے کہ عوام کو آٹے کا 20 کلو کا تھیلا 800 رپے، چینی 70 روپے کلو، گھی 175 روپے فی کلو فراہم کیا جائے جبکہ چاول اور دالوں کی قیمتوں میں 15 سے 20 روپے تک کمی کو یقینی بنایا جائے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا پاکستان میں مہنگائی کی وجہ ’کارٹلائزیشن‘ ہے؟

حکومت کا ’کمر توڑ مہنگائی کی کمر توڑنے کا فیصلہ‘

پاکستان میں آٹے کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ کیا ہے؟

خیال رہے کہ پاکستان میں اس وقت افراطِ زر کی شرح 14 فیصد سے زیادہ ہے جبکہ اشیائے خوردونوش میں مہنگائی کی شرح 25 فیصد سے بڑھ چکی ہے۔ اس صورتحال میں ماہرین اقتصادیات و معاشیات ان حکومتی اقدامات کو ناکافی اور عارضی ریلیف سمجھتے ہیں اور بعض تو اس کو ’کرسی بچاؤ مہم‘ تک قرار دے رہے ہیں۔

سبسڈی کیوں اور کہاں دی جاتی ہے؟

ماہرین کے مطابق سبسڈی مالی یا غیر مالی مد میں دی جانے والی وہ رعایت ہوتی ہے جس کا مقصد معاشی شعبے، اداروں، تجارت اور شہریوں کی معاشی اور سماجی پالسیوں کو استحکام دینا ہوتا ہے۔

یہ سبسڈی پیداواری اداروں اور صارفین دونوں کو ہی دی جاتی ہیں۔

ماہر معاشیات اشفاق تولہ کا کہنا ہے کہ اگر مہنگائی بہت بڑھ چکی ہو اور اس سے نچلا طبقہ متاثر ہو رہا ہو تو اس صورتحال میں حکومتیں سبسڈی دے کر عوام کی مشکلات میں کمی لاتی ہیں تاکہ محروم طبقے کو ریلیف دیا جا سکے۔

اس کا طریقہ عموماً یہ ہوتا ہے کہ حکومت ضروری استعمال کی اشیا کو مارکیٹ سے مہنگے داموں خرید کر سستی قیمت میں عوام کو فراہم کرتی ہے۔ اس کی مثال یوٹیلیٹی سٹورز کی ہے جہاں عام مارکیٹ سے کم قیمت میں کھانے پینے کی اشیا دستیاب ہوتی ہیں۔

https://www.youtube.com/watch?v=dm0vdljRfzY

سبسبڈی کی مختلف اقسام ہیں جن میں نقد گرانٹ، بلاسود قرضے کی فراہمی، ٹیکس کی معافی، ٹیکس میں چھوٹ، ٹیکس میں رعایت اور قرضے کی معافی شامل ہے۔

عمران خان کی حکومت نے رواں مالی سال میں مختلف مدوں میں دی جانے والی سبسڈیز میں ساڑھے چھ فیصد کا اضافہ کیا۔ گذشتہ مالی سال میں مختلف مدوں میں دو ارب 55 کروڑ کی سبسڈی دی گئی تھی جسے رواں مالی سال میں بڑھا کر دو ارب 71 کروڑ روپے کیا گیا ہے۔

سب سے زیادہ سبسڈی بجلی کی مد میں ادا کی جاتی ہے جس کی شرح 70 فیصد ہے۔ قبائلی علاقوں، کشمیر اور کراچی میں بجلی کی سستی فراہمی کے لیے حکومت اپنی جیب سے کمپنیوں کی ادائیگی کرتی ہے۔ اس کے علاوہ کھاد، زرعی ٹیوب ویلوں اور گیس کی مد میں بھی سبسڈی دی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پشاور میں روٹیاں ’بلیک‘ ہونے لگیں

آٹے کا بحران: کہیں روٹیاں پاپڑ بن گئیں تو کہیں تندور سرد

’گھی لگا کر بچوں کو روٹی دیں تو بچے بیمار ہو جاتے ہیں‘

اس کے علاوہ حکومت برآمدکنندگان اور ٹیکسٹائل کی صنعت کو بھی سبسڈی دیتی ہے تاکہ برآمدات میں اضافہ ہو اور ادائیگیوں کا توازن برقرار رہے۔

پاکستان اور دیگر ممالک

سبسبڈی نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی دی جاتی ہے۔ سندھ یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر چانڈیو رفیق کہتے ہیں یورپ میں اس کا فلسفہ یہ تھا کہ زراعت کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ آتا ہے اس کے استحکام کے لیے ابھی تک سبسڈی دی جاتی ہے۔

ان کے مطابق اسی لیے وہاں ہاؤسنگ اور دیگر شعبوں میں مہنگائی ہوتی ہے لیکن خوراک کی قیمت مستحکم رہتی ہے۔

ماہر معیشت قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں یہ طے ہے کہ حکمران گندم عوام کو سستی فروخت کریں گے، اس کا ایک نظام ہے اور بغیر نظام یا پالیسی بنانے کے سبسڈی کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچتا۔

مہنگائی یا منصوعی بحران

پاکستان میں محکمہ شماریات کا کہنا ہے کہ اس سال کے پہلے مہینے میں افراط زر کی شرح چودہ فیصد سے زائد ریکارڈ کی گئی جبکہ کھانے پینے کی اشیا میں مہنگائی کی شرح 25 فیصد کے قریب تھی جو گذشتہ نو برسوں کے دوران سب سے زیادہ ہے۔

ڈاکٹر چانڈیو رفیق کہتے ہیں کہ پاکستان میں سبسڈی جو زراعت کے اِن پُٹ یعنی کھاد وغیرہ کی مد میں دی جاتی رہی ہے تاکہ کاشت کار اپنی پیداوار اس قیمت میں مارکیٹ میں لائے جو عام لوگوں کی دسترس میں ہو۔

مہنگائی کے خلاف احتجاج

قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ بغیر نظام یا پالیسی بنانے کے سبسڈی کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچتا

’موجودہ وقت جو سبسڈی دی جارہی ہے اس میں مارکیٹ فیکٹرز کو دیکھا جارہا ہے جبکہ مارکیٹ میں اس وقت بگاڑ ہے۔ حکومت نے جو سبسڈی دی ہے اس سے پیداوار تو اسی ریٹ پر مارکیٹ میں آئی ہے لیکن اس میں سپلائی روک کر طلب بڑھائی جاتی ہے جس وجہ سے قیمت بڑھ جاتی ہے۔‘

ڈاکٹر چانڈیو کا کہنا ہے کہ اس سبسڈی کا اثر قلیل مدتی ہو گا اور کوئی زیادہ ریلیف نہیں مل سکے گا۔

یوٹیلٹی سٹور کیا غریب دوست ہیں؟

تحریکِ انصاف کی حکومت نے عوام کو ارزاں نرخوں پر کھانے پینے کی اشیا کی فراہمی کے لیے یوٹیلٹی سٹورز کا سہارا لیا ہے۔ یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک بھر میں چھوٹے بڑے پانچ ہزار سے زیادہ سٹور ہیں۔

ماہر معیشت قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ یوٹیلٹی سٹورز کی تعداد بہت کم ہے جسے بڑھانے کی ضرورت ہے اور بہت سارے سٹور تو امیر علاقوں میں قائم ہیں جہاں غریب آدمی کی پہنچ نہیں ہے۔

’اگر کوئی شخص سٹور سے ایک من چینی خرید لے تو اس کی روک تھام نہیں ہے۔ خاص طور پر ریستوران اور بیکری والے بڑی مقدار میں اشیا لے کر چلے جاتے ہیں۔ غریب آدمی بڑی مقدار میں خریداری نہیں کر سکتا۔ وہ ایک پاؤ اور کلو کے حساب سے خریداری کرتا ہے کیونکہ ان میں قوت خرید نہیں ہوتی اس صورتحال میں ایک پالیسی بنانی چاہیے کہ ہم تقسیم کس طرح سے کریں گے۔‘

آٹا

پاکستان میں گذشتہ چند ماہ میں آٹے اور چینی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے

جیب میں کچھ ہوگا تو خریدے گا

عالمی بینک کے تخیمنے کے مطابق پاکستان کی شرح نمو سال 2020 میں تین فیصد کی کمزور سطح پر رہنے کا امکان ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ گذشتہ برس جی ڈی پی نمو 3.3 فیصد تھی۔

ماہر معیشت ڈاکٹر حفیظ پاشا کا دعویٰ ہے کہ یہ شرح 1.9 فیصد تھی۔ ان کے اندازے کے مطابق گذشتہ برس 10 لاکھ افراد بےروزگار ہوئے اور رواں برس مزید 12 لاکھ افراد بے روزگار ہو سکتے ہیں۔

اشفاق تولہ کا کہنا ہے کہ اگر معیشت کا پہیہ چل ہی نہیں رہا تو سبسڈی بھی بےسود ہے کیونکہ اگر آپ کے پاس ملازمت ہی نہیں ہوگی تو آپ چیز خریدیں گے ہی کیسے چاہے وہ مہنگی ہو یا سستی۔

’جس طرح سے معیشت زبوں حالی کا شکار ہے، لوگ بیروزگار ہو چکے ہیں اور مزید ہو رہے ہیں انہیں اس سبسڈی سے کیا فائدہ ہو گا۔ ان کے پاس دو وقت کھانے کے پیسے بھی نہیں ہیں۔‘

آئی ایم ایف اور سبسڈی

پاکستان کو قرض دینے والا انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ یعنی آئی ایم ایف حکومت کی جانب سے دی جانے والی سبسڈیز کا مخالف رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ خاص طور پر بجلی اور گیس کے شعبوں سے سبسڈیز میں کمی کی جا رہی ہے۔

ماہر معیشت قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ ’موجودہ حکومت کی کوئی بھی سمت متعین نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کی ٹیمیں موجود ہیں اور معیشت چلا رہی ہیں اور یہ سبسڈی کی بات کر رہے ہیں۔ اگر سبسڈی دے رہے ہو تو یہ پالیسی پیکیج کا حصہ ہونا چاہیے آپ آخر کتنے لوگوں کو سبسڈی پر رکھیں گے۔‘

چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ اشفاق تولہ کا کہنا ہے کہ ’غربت کے خاتمے کے لیے پروگرام کا آپشن ہوتا ہے۔ اگر یہ سبسڈی نہیں دیں گے تو یہ حکومت چلی جائے گی۔ دراصل یہ سبسڈی نہیں کرسی بچاؤ مہم ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32484 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp