اپنے مذہب سے پیار بچے کا فطری عمل ہے


ایک ماں اپنے بچے کو پرورش میں ہی تربیت کے ساتھ اپنے مذہب کی طرف راغب کرنے کی لوری اسے بچپن سے ہی سناتی آتی ہے۔ جوں جوں بچہ بڑا ہوتا جاتا ہے اپنی اماں ابا کی اپنے مذہب کی طرف عقائد، اس کی رسومات اور روایات کو دل سے اپنانے کی روش دیکھ کر بچے کہ دل میں اسی مذہب کے لیے عقیدہ پختہ ہوجاتا ہے اور بچہ اس مذہب کے بارے میں بغیر کچھ جانے اس کو دل سے اپنا لیتا ہے کیونکہ اسے اپنے والدین سے محبت ہوتی ہے۔ وہ اپنی پہلی درسگاہ ماں کی گود سے ہی یہ چیزیں سیکھتا ہے۔ پھر وہ بچہ چاہے مسلمان ہو یا ہندو، کرسچن ہو یہودی، یا کوئی سکھ اپنے مذہب سے اختلاف رکھنا، مذہب تبدیل کرنے کا خیال آنا، یہ سب کچھ نابالغ عمر میں ہوپانا مشکل ہی نہیں ناممکن دکھائی دیتا ہے۔

دوسرے مذاہب سے لگاؤ تب ہی ہوتا ہے، جب اس کی تعلیمات سے کوئی لڑکا یا لڑکی متاثر ہو۔ اس لیے مذہب تبدیل کرنے کے لیے بلاشبہ اس کی عمر بھی اتنی ہی ہونی چاہیے جیسے وہ اپنے عقل کی پرکھ پہ فیصلہ کر سکے ورنہ جیسے چھوٹا بچہ بغیر کچھ جانے یہ میٹھی باتیں کرتا ہے کہ میں تو بڑا ہوکر ڈاکٹر بنوں گا، میں بڑا ہوکر سائنسدان بنوں گا اور چاند پر جاؤں گا حالانکہ وہ بچہ ان پیشوں سے بالکل لاعلم ہوتا ہے پر ایسی ہی یہ باتیں کہہ کر مزے لیتا رہتا ہے۔

بالکل اسی طرح مذہب سے لاعلم کوئی بھی بچہ اپنی چھوٹی عمر میں اسے تبدیل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا، کیونکہ چھوٹی عمر میں اسے ماں باپ کے ساتھ ساتھ ان کے اختیار کیے ہوئے مذہب سے بھی دلی لگاؤ اور پیار ہوتا ہے تو پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ نابالغ ہندو بچیاں چھوٹی سی عمر میں، جس میں انہیں قانونی طور پہ شادی کی بھی اجازت نہیں، وہ اتنا بھاری مذہبی مطالعہ بھی نہیں رکھتیں، گڈے گڑیوں کی شادی کرنے والی بچیاں، کس طرح سے مذہب کی تبدیلی اختیار کر کہ کسی لڑکے سے شادی پر آمادہ ہوجاتی ہیں، ؟

یہ بات کس طرح سے عقل اور عقیدے کو منظور ہوگی کہ جب ایک لڑکی ابھی خود کو سنبھال نہیں سکتی، ابھی اس کا بچپنا اسے کے چہرے سے اور باتوں سے ٹپکتا ہے، وہ اتنا سنجیدہ قدم کیسے اٹھا سکتی ہے اور کیسے یہ کہہ سکتی ہے کہ اب باقی کی زندگی میں اپنے مذہب اور والدین سے دور ایک ایسے شخص کے ساتھ گزاروں گی جس کو میں صرف ایک دو برس یا چند ماہ سے جانتی ہوں۔ یہ بات دل اور دماغ دونوں کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہر لڑکے لڑکی کو اپنی پسند کی شادی کرنے کا پورا حق ہے پر یہ عشق وشق کا چکر بھی تو تب شروع ہوتا ہے جب کوئی بالغ ہو اور اسے اتنی سمجھ ہو کہ میں اپنی پسند کی شادی کر کہ گھر بساؤں۔

پر جو بچیاں ابھی اعلی تعلیم یافتہ بھی نہیں وہ کس بنا پر دوسرے مذہب کی طرف راغب ہوں گی جس کے بارے میں ان کو کوئی سمجھ ہی نہیں، جو مذہب ان کے لیے ابھی اجنبی ہے اور اس مذہب سے کیسے علیحدگی اختیار کرنا چاہیں گی جو ان کو جنم دن سے ہی سمجھایا جا رہا ہے اور جس کے تہوار وہ اپنے بچپن سے ہی مناتی آرہی ہے۔ جب وہ تہواروں پہ اپنے والدین بہن بھائیوں کو سجتا سنورتا اور خوش دیکھتی ہیں تو وہ بہت خوش ہوتی ہیں۔ اس تہوار سے ان کا لگاؤ اور بھی بڑھ جاتا ہے اور اس تہوار کا بڑی بے صبری سے انتظار کرتی ہیں کہ وہ دن آئے اور وہ اپنے والدین کو ہنستا کھلتا دیکھیں۔

جیکب آباد سے تعلق رکھتی مہک کماری، جس کا نام علیزہ رکھ دیا گیا، اس کہ لیے بھی یہی الفاظ دہرائے گئے کہ وہ ایک مسلمان لڑکے سے پیار کر کے اور اسلام سے متاثر ہو کر اپنا مذہب تبدیل کرنے پر آمادہ ہوئی، پر جب اسے الگ سے جج صاحب نے بلوایا تو کہنے لگی مجھے اپنے والدین کے پاس جانا ہے۔

یہ کس قدر بے رحم معاشرہ اور بڑھتی مذہبی انتہاپسندی ہے کہ ہم جبری طور پر نابالغ معصوم بچیوں کو ڈرا دھمکا کر ان کی زندگیاں تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ہمارا مذہب اسلام بھی یہی درس دیتا ہے کہ اسلام میں کسی کو بھی تلوار کی دھار پہ نہیں، رضامند کر کے لے آؤ تو پھر یہ کون سا اور کن کا اسلام متعارف کروایا جا رہا ہے جہاں صرف ہندو بچیوں کو جبری طور پہ مسلمان کرنے کا کام جاری ہے۔

جب کہ سندھ اسمبلی کی پاس کردہ قرارداد کہ بعد قانون کا حصہ بننے والے ایکٹ کا یہ متن تھا کہ شادی کی قانونی عمر اٹھارہ سال ہوگی اور جو اس سے کم عمر میں شادی کروائی جائے گی ان کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی۔ پر یہاں تو جبری مذہب تبدیل کروا کر شادیاں رچائی جا رہی ہیں جس کی اسلام قطئی طور پہ اجازت نہیں دیتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments