آئی ایم ایف پروگرام کے اثرات


یہ ہم سب کو معلوم ہے کہ پاکستان کی معیشت ہمیشہ سے ہی آئی ایم ایف پروگرامز استعمال کرتی آ رہی ہے۔ موجودہ آئی ایم ایف پروگرام پاکستان کا اپنے 72 سالہ تاریخ میں بائیسواں پروگرام ہے مگر ہماری معیشت اس طرح خطے میں ترقی کیوں نہیں کر رہی جس طرح باقی ممالک کر رہے ہیں؟ حتی کہ ورلڈ بینک نے جو اس سال خطے میں جی ڈی پی گروتھ کے جو اعداد و شمار دیے ہیں، اس کے تحت جنگ زدہ افغانستان کی ترقی ہم سے زیادہ ہوگی اور ہم تو افغانستان سے بھی نیچے جا چکے ہیں۔

اب ہم جائزہ لیتے ہیں پی ٹی آئی حکومت کی معاشی کارکردگی کی۔ پی ٹی آئی نے جب اقتدار ملا تو تب زرمبادلہ ذخائر 18 ارب ڈالر تھے۔ جو مزید گرنے لگے۔ تب کچھ ماہرین نے کہا آئی ایم ایف پروگرام لے لینا چاہیے مگر اسد عمر نے کہا نہیں۔ اور پاکستان نے اپنے دوست ممالک سے پیسے اپنے سٹیٹ بینک میں جمع کرائے جو استعمال بھی نہیں کیے جا سکتے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے تین ارب ڈالر جبکہ قطر اور متحدہ عرب امارات نے دو دو ارب ڈالر سٹیٹ بینک میں جمع کرا دیے۔ اس کے باوجود حکومت نے آئی ایم ایف کے پاس جانے کا آپشن 8 ماہ بعد استعمال کیا۔

آئی ایم ایف کے ساتھ 39 ماہ میں 6 ارب ڈالر کا بیل آوٹ پیکج بہت مہنگا پڑ رہا ہے جس کے اثرات ہم سب کے سامنے ہیں۔ آئی ایم ایف کی سخت شرائط نے ہر طبقے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ہماری معیشت کا حجم 330 ارب ڈالر سے 284 ارب ڈالر ہو گیا ہے۔ کہا جاتا تھا کہ اسحاق ڈار نے ڈالر کو مصنوعی طریقے سے کنٹرول کیا ہوا تھا۔ تو اب حکومت کیا کر رہی ہے؟ 29 جون 2019 کو ڈالر 164 روپے کی بلند ترین سطح پر گیا۔ اب ڈالر کئی ماہ سے 155۔156 کے درمیان ہے کیونکہ سٹیٹ بینک ڈالر کی طلب اور رسد کو یقینی بنا رہا ہے۔

ہماری ترقی کی رفتار 5.8 % سے 3.3 % رہی 2019 میں اور اس سال یہ 2.1۔ 2.4 % کے درمیان رہے گی۔ گیس اور بجلی کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافوں کے باوجود بھی سرکلر ڈیبٹ بڑھ رہا ہے۔ گیس اور بجلی کے شعبوں میں نقصانات قیمتیں بڑھانے کے باوجود کیوں بڑھ رہے ہیں؟

ہماری ذراعت کا شعبہ بھی بہت بری طرح متاثر ہوا ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے مگر پچھلے مالی سال میں زرعی ترقی صرف 0.85 % تھی۔ پاکستان گندم پیداوار کا ملک ہے اور خود کفیل ہے مگر حالیہ بحران کے بعد اب گندم درآمد کی جا رہی ہے۔ اسی طرح اب چینی بھی درآمد کی جائے گی اور منافع خور اربوں روپے کمائیں گے۔ اس سال گندم کی پیداوار بھی ہدف سے کم رہے گی اور کپاس کی پیداوار بھی ہدف سے کم رہے گی۔ کھادیں مہنگی ہو رہی ہیں اور کسان گھاٹے میں جا رہے ہیں۔ یہ ایک خطرے کی گھنٹی ہے!

صنعتی شعبہ بہت بری طرح متاثر ہوا ہے۔ اس شعبے کی ترقی منفی 9.9 % تھی پچھلے مالی سال میں۔ اس سال بھی یہ منفی ہی رہے گی۔ کارخانے بند ہو رہے ہیں۔ ٹیکسٹائل اور برآمدی صنعتوں کو دی جانے والی سبسڈی بھی واپس لی جا چکی۔ اب بجلی کی فی یونٹ قیمت 20 روپے ان صنعتوں کو دینی پڑے گی۔ اس لئے ٹیکسٹائل ملز مالکان اپنا سرمایہ بنگلہ دیش منتقل کر رہے ہیں۔

بے روز گاری پاکستان میں بڑھ رہی ہے۔ اس مالی سال کے اختتام تک پاکستان میں 22 لاکھ بے روزگار ہو جائیں گے۔ بے روز گاری کی شرح بھی اب بڑھ رہی ہے۔ پیداوار میں کمی آ رہی ہے۔ مہنگائی بھی دن بدن بڑھ رہی ہے۔ پچھلے ماہ تک افراط زر 14.68 % تھا۔ یہ اعداد و شمار شماریات ڈویژن نے جاری کیے تھے۔

مالی خسارہ بلند ترین ہے۔ یہ جی ڈی پی کا 8.9 % ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومتی اخراجات آمدن سے بہت زیادہ ہیں۔ اس لئے مالی خسارہ بڑھ رہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ خسارے میں چلنے والے ادارے ہیں۔ ان کا خسارہ 1600 ارب ہو گیا جو پہلے 1300 ارب تھا۔ ان کی نجکاری ناگزیر ہے!

شرح سود 13.25 % ہے حو بہت زیادہ ہے۔ اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اور اب حکومت کو صرف سود کی ادائیگی کے لئے 1600 ارب روپے اضافی دینا ہوں گے۔ اس قدر بلند شرح سود معیشت کے لئے زہر قاتل ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری میں بھی 51 % کمی آئی ہے۔ سٹاک ایکسچینج بھی 42873 سے 28000 پر آئی اور اب واپس 40000 پر ہے۔ حکومت نے ایک سال میں 11565 ارب قرض لیا۔ اب قرضے 42000 ارب ہو چکے ہیں۔ قرض معیشت کے 78 % سے 94.3 % تک پہنچ چکے ہیں۔ کرپشن میں بھی اضافہ ہوا ہے

ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق!درآمدات ضرور کم ہوئی ہیں مگر درآمدی ٹیرفز بڑھا کر! ہماری برآمدات درآمدات پر منحصر ہیں اس لئے پیداوار کم ہو گئی ہے۔ کرنٹ اکاونٹ سرپلس ہوا ہے وہ اسی وجہ سے ہوا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی رپورٹ بھی اس ماہ آ جائے گی۔ یہ پروگرام کے لئے ہمیں سی پیک بھی آئی ایم ایف کو بتانا پڑا۔ سی پیک پر کام سست روی کا شکار ہے۔ برآمدات بھی گری ہیں!

غرض یہ ہے کہ 6 ارب ڈالر کے لئے 26 ارب ڈالر کا نقصان کیا اور اس پروگرام کے اثرات سے جلدی نکل نہیں پائیں گے۔ آئی ایم ایف کے منظور شدہ مشیر خزانہ، گورنر اور ڈپٹی گورنر سٹیٹ بینک اور چئیرمین ایف بی آر نے اس معیشت کو بھنور میں ڈال دیا ہے۔ 5500 ارب ٹیکس اکٹھا نہیں ہوگا۔ شارٹ فال رہے گا۔ تیسری قسط کے حصول کے لئے مذاکر ات جاری ہیں۔

ہمیں اپنی معیشت کو بھارت یا چین کی طرز پر بنانا ہوگا۔ اگر ہم صرف بھارت کا ہی ماڈل اپنا لیں تو ترقی کر سکتے ہیں۔ پاکستان کی معیشت کو بھی ایک ڈاکٹر منموہن سنگھ کی اشد ضرورت ہے! اب دیکھتے ہیں کون وہ شخص ہوگا جو چین یا بھارت کے معاشی اصلاحات کو یہاں نافذ کرے گا اور پاکستان کی معیشت بھی بڑی معیشتوں میں شمار کرے گی۔ اس کے لئے ابھی 25۔ 30 سال درکار ہیں۔ مگر یہ آئی ایم ایف پروگرام پاکستان کو بے پناہ نقصان کر کے جائے گا کیونکہ اب ہماری آزاد خارجہ پالیسی ودفاعی پالیسی اب آئی ایم ایف کی وجہ سے مصلحتوں اور مجبوریوں کی شکار ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments