اب حکومت جاگ گئی


اگر معاملات حکومت اہل اقتدار سے بہ احسن طریق نہیں چل پا رہے تو انہیں سوچنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہے؟

فقط یہ کہنا کہ پچھلی حکومتوں نے حالات خراب کیے یا مافیاز طاقتور ہونے کی بنا پر اسے آگے نہیں بڑھنے دے رہے اور عوام کے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں تو جائز نہیں کیونکہ وہ برسراقتدار ہے اس کے پاس اختیارات ہیں جنہیں وہ استعمال میں لا کر مطلوبہ نتائج حاصل کر سکتی ہے مگر شاید اس میں حوصلہ نہیں یا پھراسے ایسا کرنا ہی نہیں آتا ہو سکتا ہے وہ یہ سوچ رہی ہو کہ اگر وہ کڑے فیصلے کرتی ہے تو اسے حکمرانی ہی سے ہاتھ دھونا پڑ سکتے ہیں لہٰذا ہتھ ہولا رکھا جائے۔

مگر عوام کے مسائل میں خوفناک حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور عین ممکن ہے لوگ سڑکوں پر بھی آجائیں پھر ایک انارکی کا منظر ابھر آئے لہٰذا ضروری ہو گیا ہے کہ حکومت انقلابی اقدامات کی طرف بڑھے اور پریشان حال لوگوں کو ریلیف دے مگر وہ نجانے اس طرف آنے سے کیوں ہچکچا رہی ہے۔ لگتا ہے کہ اسے عوام سے کوئی ہمدردی نہیں اسے صرف اپنی کرسی بچانا ہے سو اس کے لیے تگ و دو کرتی نظر آتی ہے۔

جی ہاں! اُس کے اتحادی پچھلے دو تین ماہ سے اس سے نا خوش ہیں اُن کے مطابق حکومت اُنہیں نظر انداز کر رہی ہے جس کی بنا پر لوگ جن کا تعلق اُن سے ہے وہ سخت تنقید کر رہے ہیں کہ ان کے علاقوں میں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہو رہا۔ تھانے اور پٹوار خانے اندھیر مچائے ہوئے ہیں دیگر سرکاری ادارے بھی نہیں سننے وغیرہ وغیرہ

چند روز پہلے تو چودھری برادران کے حوالے سے ایسی باتیں بھی کی جانے لگیں کہ بس وہ (ن) لیگ کے ساتھ مل چکے ہیں کچھ چیزیں اُن کے مابین طے پا چکی ہیں یعنی چودھری پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ پنجاب اور شہباز شریف وزیراعظم پاکستان ہوں گے؟

اس طرح کی اور بھی درفنطنیاں چھوڑی گئیں اس میں میڈیا کا کردار صحت مند نہیں دیکھا گیا وہ اب بھی (بعض اینکرز اور لکھاری) کہہ رہے ہیں کہ یہ جو صلح ہوئی ہے عارضی ہے۔ ماہ دو ماہ بعد اتحادی دوبارہ ناراض ہو جائیں گے اور پکے پکے ہوں گے جبکہ حکومت نے ان کے بیشتر مطالبات مان لیے ہیں اور وہ ساتھ چلنے کا عزم ظاہر کر رہے ہیں بلکہ آئندہ مل کر عام انتخابات میں حصہ لینے کا پیمان بھی کر رہے ہیں!

بہرحال ہمارے ہاں کی سیاست گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی ہے صبح کچھ بات کی جاتی ہے دوپہر کی کچھ اور شام کو کچھ پھر ہماری سیاست آزاد نہیں با بہ زنجیر ہے کبھی اسے عالمی مالیاتی اداروں کی ماننا پڑتی ہے اور کبھی کسی اور سیانے کی لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ سیاست کے روپ کئی ہیں لہٰذا کسی پرانے اور منجھے ہوئے سیاستدان سے اخلاقی پہلوؤں کی توقع کرنا سادگی ہے۔ یہاں بہتر برس عوامی احساسات اور جذبات سے کھیلا گیا ہے آئندہ بھی کھیلا جائے گا۔ اس وقت بھی وہ کھیل جاری ہے اور وہ بے چارے تماشا بنے ہوئے ہیں اور کسی بہت بڑے قدم کی امید کر رہے ہیں مگر ان تلوں میں تیل نہیں اس کی ایک وجہ بھی ہے اور وہ ہے آئی ایم ایف کے احکامات۔

میں نے پچھلے کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ آئی ایم ایف نے ہاتھ سخت کر رکھا ہے وہ سخت ترین شرائط عائد کر رہا ہے کہ اس کی اقساط تسلسل سے جاری رہیں اور اس کا خزانہ بھرتا رہے لہٰذا حکومت ٹیکس پے ٹیکس لگائے جا رہی ہے۔

جب میں یہ سطور رقم کر رہا ہوں اس کا مطالبہ ہے کہ وہ بجلی مہنگے لہٰذا اٹھانوے پیسے فی یونٹ بجلی مہنگی کی جا رہی ہے ہو سکتا ہے اس میں تھوڑی سی کمی لائی جائے مگر مہنگی کی ضرور جا رہی ہے اب اگر عوام غم وغصے میں آ کر حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں تو اس میں قصور وار کون ہو گا؟

عوام تو بری طرح سے ٹیکسوں اور مہنگائی کے جال میں الجھے ہوئے ہیں اوپر سے تازہ نیا ٹیکس اُن کی ہڈیاں نہیں چبائے گا تو اور کیا کرے گا۔

ستم کی رات ہے کہ ڈھلتی ہی نہیں حکمرانوں میں جرأت نہیں کہ وہ آئی ایم ایف سے صاف صاف کہہ دیں کہ وہ جو چاہتا ہے نہیں ہو گا ان کے عوام دہائی دینے لگے ہیں ان سے وہ شدید نفرت کر رہے ہیں جو ملک کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اب تو صدر پاکستان نے بھی کہہ دیا کہ حکومت ہمت دکھائے بظاہر یہ مافیاز کے حوالے سے بات ہے مگر آئی ایم ایف کی طرف بھی اشارہ ہے کیونکہ وہ خون کی گردش روک دینے والی شرائط سامنے رکھ رہا ہے جس سے عوام کا کچومر نکلاجارہا ہے اور حکومت بدنام ہو رہی ہے لہٰذا وہ (حکومت) بھیگی بلی نہ بنے سینہ تان کر کھڑی ہو کیونکہ یہ مالیاتی ادارے کسی کے سگے نہیں ہوتے!

صدر پاکستان کی طرف سے یہ بھی کیا گیا ہے کہ بحران جنم دینے والوں کی چھٹی ہونی چاہیے کیونکہ مہنگائی سے میں بھی پریشان ہوں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کیا کرتی ہے آگے بڑھ کر یو کا چھکا لگاتی ہے یا پھر؟

بہرکیف جناب وزیراعظم کو دکھا اور بتا دیا گیا ہے کہ لوگوں کی حالت انتہائی خراب ہو رہی ہے وہ پکڑو پکڑو اور نہیں چھوڑوں کا راگ نہ الاپیں کچھ کریں شاید اسی لیے انہیں کہنا پڑا کہ اگر ہم عوام کی خدمت نہیں کر سکتے تو ہمیں حکمرانی کا بھی کوئی حق نہیں اور شاید اسی لیے ہی ان کے اتحادی ترقیاتی فنڈز پر راضی ہو گئے ہیں کیونکہ انہیں اگلا پڑاؤ واضح دکھائی دے گیا کہ جہاں دھند بھی ہے اورکانٹے بھی؟

لہٰذا اب جبکہ حکومت کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں اس کے اتحادی اس کے ہمقدم ہونے کی یقین دہانی کرا چکے ہیں تو وہ عوام کو کچھ دے اسے آئی ایم ایف سمیت خوفناک مافیاز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا ہے آئی ایم ایف کے کاریگروں کو تو وہ بتائے کہ اگر عوام پر مزید بوجھ ڈالا گیاتو وہ اپنے ہاتھ کھڑے کر دیں گے جو اس کے لیے سود مند نہیں ہو گا لہٰذا کی سکت کو سامنے رکھے ہوئے پالیسیاں وضع کی جائیں۔ ۔ ۔ !

مجھے کچھ کچھ تک رہی کہ اہل اختیار لازمی کوئی بات کریں گے کیونکہ جب کسی کام کی اخیر ہوجائے تو لب خود بخود بول اٹھتے ہیں ہمارے ہر دل عزیز وزیراعلیٰ عثمان بزدار بھی تو بول اٹھے ہیں کہ مہنگائی پر قابو پانے کے لیے انتظامیہ کو متحرک کر دیا ہے۔ اس سے یہ تاثر بھی ابھرا ہے کہ اب تک انہوں نے انتظامیہ کو متحرک نہیں کیا تھا بس انہیں کہا تھا کہ اسے متحرک ہونا ہے۔

خیر آنے والے چند دنوں میں معلوم ہو جائے گا بلکہ کچھ علم ہو بھی رہا ہے کہ چینی کی ہزاروں بوریاں ذخیرہ اندوروں سے گوداموں سے برآمد کر لی گئی ہیں۔ اسی طرح آٹا بھی برآمد کیا جا رہا ہے کاش حکومت پہلے یہ سب کر لیتی مگر اسے بھی جگانا پڑتا ہے لہٰذا اب وہ جاگ گئی ہے توقع ہے وہ جاگتی رہے گی کیونکہ اس کے سونے سے بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہو چکی ہیں جنہیں اب ختم کرنا ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments