کشمیر کی آواز


جالب نے کہا تھا

حسیں آنکھوں مُدھر گیتوں کی دیش کو کھو کر

میں ہوں حیراں وہ ذکرِ وادی کشمیر کرتے ہیں

علاجِ غم نہیں کرتے مگر تقریر کرتے ہیں

مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ ہوئے کتنا وقت گزر گیا اگر آپ جاننا چاہیں تو سرینا ہوٹل کے سامنے لگی گھڑی آپ کو ہر پل کا حساب بتائے گی۔ اسلام آباد میں شاہراہِ دستور اور اردگر کی شاہراہوں پر بڑے بڑے پوسٹر آویزاں ہیں جو کشمیریوں کے دُکھ درد بیان کرنے کے ساتھ ساتھ کشمیری رہنماؤں کی جدوجہد کو خراجِ عقیدت پیش کر رہے ہیں۔ یومِ یکجہتی کے سلسلے میں نیا ں غمہ بھی جاری کیا گیا ہے۔ یہاں کئی سوالات ہیں کہ جن کا جنم لینا فطرتی امر ہے۔

سب سے پہلا سوال تو یہ ہے پانچ فروری کی تاریخی حیثیت کیا ہے؟ اِس روز کیا ہوا تھا جو ہمیں یومِ یکجہتیِ کشمیر منانے کی سوجھی۔ بظاہر پانچ فروری کو ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا جس کی یاد میں یومِ یکجہتی اِسی تاریخ کو منایا جائے۔ یار لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ یہ کسی سیاسی جماعت کی طرف سے شہید مقبول بٹ کے یومِ شہادت جو 11 فروری کو ہے کی اہمیت کم کرنے کے لیے شروع کیا گیا تھا۔ ہمیں اگر حکومتی سطح پر ہی یومِ یکجہتی منانا تھا پھر تحریکِ آزادی کشمیر کے سب سے بڑے رہنما کی یومِ شہادت کا انتخاب کیوں نہیں کیا گیا۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ یومِ یکجہتی منانے سے حاصل کیا ہو گا؟ اِس سے کشمیریوں کی کیا مدد ہو گی؟ یومِ یکجہتی منانے سے اگر تو کشمیر کی آزادی کی منزل قریب آتی ہے تو ہر روز منائیں۔ احتجاجی تحریک تب فائدہ مند ہو اگر یہ کشمیر کے اندر چلے (جو کہ چل بھی رہی یے مگر عالمی ضمیر سو رہا ہے ) ۔ یہ پوسٹر اگر تو سرینگر کے لال چوک میں لگیں، یہ ریلیاں اگر سرینگر سے جموں تک نکل رہی ہوں۔ یہ نغمے اگر وادی سے لداخ تک گونجیں تو شاید تحریکِ آزادیِ کشمیر کے لیے سود مند ہو۔ مقبوضہ کشمیر سے باہر یہ سب کرنے سے کیا حاصل ہو گا؟

کشمیر بھی فلسطین کے غزہ کی طرح ایک بڑی جیل میں تبدیل کیا جا چکا ہے جہاں سے خبریں تک باہر نہیں آ رہی ہیں۔ عالمی ضمیر کل بھی سویا ہوا تھا اور آج بھی جاگنے سے قاصر ہے۔ ہم تقریریں کر کے، یومِ یکجہتی منا کر اپنے حصے کا کردار ادا کر چکے ہیں۔ دوسری طرف ہمارے وزیراعظم اسلامی ممالک کو کشمیر کے مسئلے پر اجلاس تک بلانے پر راضی نہ کر سکنے کا کہہ کر اپنی ناکامی کا اعتراف کر رہے ہیں۔ یہ حکومت دنیا کا نواں عجوبہ ثابت ہو رہی ہے۔

وزیراعظم کو شاید خبر نہیں کہ اُن کی حکومت میں بے تحاشا ٹیکسز کی بھر مار نے مہنگائی کرنے میں اپنا کردار خوب ادا کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں مہنگائی مافیاز نے کر رکھی ہے۔ کوئی پوچھے میاں مافیاز کو کیا شیر شاہ سوری آ کر لگام ڈالے گا۔ کشمیر کے حوالے سے پارلیمان میں بات کرتے ہوئے ایسا ہی بیان ڈاکٹر شیریں مزاری صاحبہ نے دیا۔ فرماتی ہیں اداروں بشمول محکمہ خارجہ نے ساتھ نہیں دیا ورنہ وزیراعظم نے کشمیر کے لئے بہت کچھ کیا ( یعنی محکمہ خارجہ ساتھ دیتا وہ اپنہ تقریر کے ذریعے آزاد کروا کے دم لیتے ) ۔ کوئی تو پوچھتا کہ ڈاکٹر صاحبہ وزارتِ خارجہ وزیراعظم کے ماتحت ہے یا اپوزیشن کی کسی پارٹی کے؟

ہندوستان کا فاشسٹ حکمران اپنے وعدے ایک ایک کر کے پورے کر رہا ہے اور ہم یُو ٹرن کی برکات گِنوانے میں مصروف ہیں۔ پہلے اُس نے آرٹیکل 370 ختم کیا اور اب شہریت کے قانون میں ایسی ترمیم کی کہ ہندوستانی مسلمان اپنے دیس میں اجنبی بن بیٹھے۔ ہندوستانی مسلمان تو اپنا مسئلہ خود حل کر لیں گے اور انہوں ہمیں اُن کے معاملات پر نہ بولنے کا مشورہ دیا ہے البتہ کشمیر پر ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کشمیر پر بھارتی قبضہ مکمل ہو چکا ہے مگر ہم کہتے ہیں اگر آزاد کشمیر پر حملہ کیا گیا تو منہ توڑ جواب دیں گے۔

تو کیا ہم نے تسلیم کر لیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر پر قبضے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تحریکِ آزادیِ کشمیر کو تقویت بخشنے کے لیے ہمیں یومِ یکجہتی منانے کی بجائے آزاد کشمیر بشمول گلگت بلتستان کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دینے چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے پاس موجود ریاست کے حصوں کو ایسی مکمل خودمختاری دیں کہ جس سے وہاں کے عوام میں یہ تاثر نہ جائے کہ مسئلے کے تصفیے سے پہلے ہی ہم اُن پر مسلط ہو گئے ہیں۔ پاکستان اپنے پاس صرف دفاع خارجہ کے محکمے رکھے یا جیسے حامد میر صاحب کے پروگرام میں ماہرین نے کہا کہ کشمیر کو اقوامِ متحدہ کے زیرِ انتظام کر دیا جائے تاکہ وعدہ شدہ ریفرنڈم کا انعقاد ہو اور ہندوستان بھی یہ کرنے پر مجبور ہو جائے۔

اِس سے فائدہ یہ ہو گا کہ دنیا ہمارے پاس موجود کشمیر کے حصوں کو آزادیِ کشمیر کے بیس کیمپ کے طور پر ماننے پر مجبور ہو جائے گی۔ اگرہمیں یہ نہیں کرنا تو پھر بزورِ بازو کشمیر ہندوستان سے چھین لیں۔ اِس کا جواب اگر یہ کہ خطہ جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا تو پھر برائے مہربانی شہ رگ کا رونا رونا چھوڑ دیں اور یومِ یکجہتی منانے کی بجائے یومِ خاموشی منائیں کہ ہندوستان کبھی بھی اپنا ناجائز قبضہ نہیں چھوڑے گا۔ جالب نے فلسطین کے بارے میں کہا تھا جو آج کشمیر اور فلسطین دونوں ہر صادق آتا ہے۔

کروڑوں ہو کر کیوں نہیں لڑتے فلسطیں کے لئے

صرف دعاؤں سے نہیں کٹتی کبھی زنجیر مولانا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments