بولان میڈیکل یونیورسٹی: حکومتی ٹیم سے مذاکرات کے بعد طلبا اور ملازمین کا دھرنا ختم


بولان میڈیکل یونیورسٹی احتجاج

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کے سامنے دھرنا دینے والے بولان میڈیکل یونیورسٹی کے طلبا اور ملازمین نے حکومتی ٹیم سے مذاکرات کے بعد دھرنا ختم کر دیا ہے۔

اس سے قبل بلوچستان اسمبلی کے سامنے اور جنرل پوسٹ آفس چوک پر احتجاج کرنے پر بولان میڈیکل یونیورسٹی کے سو سے زائد طلبا اور ملازمین کو پولیس نے گرفتار بھی کیا تھا جنھیں کئی گھنٹے تک حراست میں رکھنے کے بعد رہا کردیا گیا۔

گرفتاریوں کے دوران پولیس اہلکاروں اور مظاہرین کے درمیان دھکم پیل بھی ہوئی۔

واضح رہے کہ طلبا اور ملازمین گزشتہ ایک ماہ سے فیسوں میں اضافے اور بولان میڈیکل کالج کی نجکاری کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

نئی خواتین ڈاکٹر ہاسٹل میں کیوں نہیں رہ سکتیں؟

پشاور یونیورسٹی: پولیس تشدد کے بعد طلبہ کا احتجاج

قائداعظم یونیورسٹی میں پھر احتجاج، 60 سے زائد طلبہ گرفتار

بولان میڈیکل یونیورسٹی کے طلبا اور ملازمین کے مطالبات کیا؟

بولان میڈیکل یونیورسٹی کے طلبا اور ملازمین کے مطالبات اگرچہ مختلف ہیں لیکن انھوں نے مطالبات کو منوانے کے لیے مشترکہ احتجاج کا سلسلہ شروع کیا۔

طلبا و طالبات کا احتجاج فیسوں میں اضافے اور یونیورسٹی میں سیلف فنانس کی بنیاد پر نشستیں مختص کرنے کے خلاف ہے۔

بلوچ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے چیئرمین اور یونیورسٹی کے طالب علم ڈاکٹر نواب بلوچ نے بتایا یونیورسٹی کی فیسوں میں بے تحاشا اضافہ کیا گیا ہے۔

بولان میڈیکل یونیورسٹی احتجاج

ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی سے پہلے جب یہ کالج تھا تو سالانہ فیس 25 ہزار روپے تک تھی لیکن اب اس کو بڑھا کر 98 ہزار روپے کر دیا گیا ہے۔

انھوں نے یہ بھی بتایا کہ یونیورسٹی کی جانب سے سیلف فنانس کی بنیاد پر 60 نشستیں مختص کی گئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ طلبا اس کے خلاف ہیں کیونکہ یہ ایک سرکاری یونیورسٹی ہے۔ طلبا کا مطالبہ ہے کہ سیلف فنانس کی بنیاد پر ان 60 نشستوں کو نہیں ہونا چائیے بلکہ ان کو سرکاری خرچ پر کر کے تمام اضلاع پر تقیسم کیا جائے۔

ڈاکٹر نواب بلوچ کا کہنا تھا کہ طلبا کے مطالبات میں یہ بھی شامل ہے کہ بیرونی ممالک کے لیے مختص 20 نشستوں کو اوپن میرٹ کی بجائے ڈویژن کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے۔

طلبا کے ساتھ احتجاج کرنے والے ملازمین کا کہنا ہے کہ ان کی ملازمتیں غیر محفوظ ہو گئی ہیں کیونکہ جب یونیورسٹی کالج تھا تو وہ صوبائی حکومت کے ملازمین تھے لیکن اب کالج کو یونیورسٹی کا درجہ ملنے کے بعد ان کی ملازمتیں ہائیر ایجوکیشن کے پاس چلی گئی ہیں۔

بولان میڈیکل یونیورسٹی احتجاج

ملازمین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کسی یونیورسٹی کے لیے جو تقاضے ہوتے ہیں بولان میڈیکل یونیورسٹی ان تقاضوں کو بھی پورا نہیں کرتی ہے۔ ملازمین کا مطالبہ ہے کہ یونیورسٹی کو ختم کر کے واپس میڈیکل کالج کو بحال کیا جائے۔

طلبا اور ملازمین کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور رجسٹرار کو ہٹایا جائے۔

یونیورسٹی انتظامیہ کا مؤقف کیا ہے ؟

یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر نقیب اللہ اچکزئی نے طلبا اور ملازمین کے احتجاج اور ان کے مطالبات کو بلاجواز قرار دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور بلوچستان حکومت دونوں نے یہ کہا تھا کہ یونیورسٹی اپنی آمدن میں اضافہ کرے جس کے بعد فیسوں میں اضافہ کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک طالب علم کی فیس 98 ہزار روپے نہیں بلکہ 60 ہزار روپے ہے جو کہ بلوچستان میں عام یونیورسٹیوں کی فیسوں سے بھی کم ہے حالانکہ بولان میڈیکل یونیورسٹی ایک پروفیشنل یونیورسٹی ہے۔

انھوں نے سیلف فنانس کی بنیاد پر نشستوں اور فارن سیٹوں کے حوالے سے طلبا کے مطالبات کو بھی بلاجواز قرار دیا۔

وائس چانسلر کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی کے ملازمین کے خدشات بھی بے بنیاد ہیں اور ان کی ملازمتوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32503 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp