پاکستان: سوشل میڈیا کے نئے قواعد اور مستقبل


سوشل میڈیا

پاکستان کی وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن نے سوشل میڈیا کمپنیوں کے لیے پاکستان میں نئے قوانین وضح کیے ہیں جن کے تحت ان کمپنیوں کو ملک کے اندر اپنے مستقل دفاتر اور ڈیٹا بیس سرور قائم کرنا پڑیں گے۔

21 جنوری کی تاریخ سے جاری کردہ حکومتی نوٹیفیکیشن کے مطابق حکومتِ پاکستان ایک نیشنل کورڈینیٹر کا دفتر بھی قائم کرے گی جو کہ سوشل میڈیا کمپنیوں کے سامنے حکومت کی نمائندگی کرے گا۔

یہ بھی پڑھیے

سوشل میڈیا اکاؤنٹس معطلی: پاکستان کی تشویش

پاکستان میں ’سوشل میڈیا پر فوج کے خلاف مہم‘ پر پہلی گرفتاری

سوشل میڈیا: کیا گھمسان کا رن پڑا ہے؟

سوشل میڈیا پر پابندی مسئلے کا حل نہیں: وزارت داخلہ

آپ کا ذاتی سوشل میڈیا اکاؤنٹ کتنا ذاتی ہے؟

سوشل میڈیا کمپنیاں کون سی ہیں اور نئے قوانین کیا ہیں؟

ان قوانین میں سوشل میڈیا کمپنی کی تعریف میں کسی بھی ایسے مواصلاتی چینل کو شامل کیا گیا ہے جس میں کمیونٹی ان پُٹ، انٹرایکشن، اور مواد کو شیئر کرنے کا نظام ہو۔ نوٹیفیکیشن میں فیس بک، ٹوئٹر، گوگل پلس، یوٹیوب، ڈیلی موشن، انسٹاگرام، سنیپ چیٹ، پنٹرسٹ، لنکڈ ان، ریڈٹ، اور ٹک ٹاک بطور سوشل میڈیا کمپنیوں کی مثال پیش کیا گیا ہے۔

ان قوانین کے تحت حکومت نے سوشل میڈیا کمپنیوں پر جو ذمہ داریاں لاگو کی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:

  1. کسی بھی آن لائن مواد کو اگر مجاذ حکام پاکستان کے قوانین کے مخالف پائیں تو سوشل میڈیا کمپنی پر لازمی ہوگا کہ وہ 24 گھنٹوں میں اس کو حذف کریں۔ ہنگامی صورتحال میں سوشل میڈیا کمپنی کو ایسا چھ گھنٹوں میں کرنا ہوگا۔ نیشنل کورڈینیٹر ہی اس بات کا تعین کرے گا کہ ہنگامی صورتحال ہے یا نہیں۔

  2. کسی بھی آن لائن مواد کے حوالے سے نیشنل کورڈینیٹر کی ہدایات کو سوشل میڈیا کمپنی کے اپنے قوانین پر ترجیح ہوگی۔

  3. سوشل میڈیا کمپنیاں پاکستان کی مذہبی، ثقافتی، نسلی، اور قومی سیکیورٹی کی حساسیات کو سمجھے گی

  4. سوشل میڈیا کمپنیاں ایسا نظام بنائیں گی جس کے ذریعے کسی بھی لائیو سٹریمنگ کے دوران کوئی ایسا مواد نشر نہ کر دیا جائے جو کہ پاکستان کے کسی قانون کے خلاف ہو

  5. سوشل میڈیا کمپنیاں پاکستان میں اپنا دفتر بنائیں جس کا مستقل اندراج شدہ پتا ہو۔

  6. سوشل میڈیا کمپنیاں ان قوانین کے اطلاق سے بارہ ماہ کے اندر اندر پاکستان میں اپنے سرورز بنائیں جو کہ پاکستانی حدود میں صارفین کی معلومات اور ڈیٹا سٹور کریں۔

  7. سوشل میڈیا کمپنیاں ایسا تمام آن لائن مواد کو حذف یا آن لائن اکاؤنٹ کو معطل کر دیں گے جو کہ پاکستانی شہری چاہے وہ پاکستان سے باہر سے چلا رہے ہوں اور ان میں فیک نیوز، ہتکِ عزت، یا پاکستان کی مذہبی، ثقافتی، نسلی، اور قومی سیکیورٹی کی حساسیات کے خلاف کوئی بات ہو۔

  8. پاکستان کے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کی شق 29 کے تحت بنائی گئی کسی بھی تفتیشی اتھارٹی کو سوشل میڈیا کمپنی تمام قسم کی معلومات ایک واضح فارمیٹ میں فراہم کریں گے

  9. اگر ان قوانین کی سوشل میڈیا کمپنی پاسداری نہیں کرتی تو نیشنل کورڈینیٹر کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو ملک میں مکمل طور بند کر دیں۔

کیا ان قوانین پر عملدرآمد ممکن بھی ہے؟

ڈیجٹل حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ‘ڈیجٹیل رائٹس فاؤنڈیشن’ کی ایگزيکٹِو ڈائریکٹر، نگہت داد کہتی ہیں کہ ’میرے خیال میں سوشل میڈیا کمپنیاں ان قوانین کو نہیں مانیں گی۔ عالمی سطح پر ایسے قوانین کے بارے میں ان کا رویہ دیکھتے ہوئے میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ میرا نہیں خیال کہ وہ ان قوانین سے اتفاق کریں گے۔ میرا نہیں خیال کہ وہ کبھی اس بات پر مانیں گے کہ وہ پاکستان میں اپنے سرور رکھیں، تمام پاکستانی صارفین کا ڈیٹا ان پر موجود ہو اور وہ حکام کو ان تک رسائی دیں گے۔ یہ سب ان کے اپنے سٹینڈرڈز کے خلاف ہے اور وہ ایسا نہیں کریں گے۔‘

’پاکستان میں جو قانون کی بالادستی کی صورتحال ہے یا خاص طور پر انٹرنیٹ کو ریگولیٹ کرنے کی بار بار جو کوششیں ہوتی ہیں اس کے تحت اس طرح کے قوانین بنانا اور جن کا آپ جواز پیش کر رہے ہیں پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز اور پی ٹی اے کے تحت، ایسے میں یہ ایک ناممکن سی بات لگتی ہے کہ سوشل میڈیا کمپنیاں یہاں پر اپنے دفاتر کھولیں گی۔‘

’پھر آپ ان سے کہہ رہے ہیں کہ آپ ہمیں رسائی دیں گے اس تمام مواد تک جو پاکستان کے کسی بھی قانون کے تحت غیر قانون گردانہ جائے گا اور آپ کو ہمیں وہ تفصیلات دینی پڑیں گی۔ وہ صارفین کی معلومات بھی ہو سکتی ہیں اور وہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ عام طور پر سوشل میڈیا کمپنیاں ایسی معلومات پوری دنیا میں حکومتوں کو نہیں دیتیں۔‘

تو پھر جب کمپنیاں مانیں گی نہیں تو پاکستان میں سوشل میڈیا کمپنیوں کا مستقبل کیا ہے؟

’ان نئے قوانین کو غور سے پڑھیں تو وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر کمپنیاں ہماری بات نہیں مانیں گی تو ہم اس پلیٹ فارم کو پاکستان میں بند کر دیں گے۔ تو پھر جب کمپنیاں ان کی بات نہیں مانیں گی تو وہ ایسا ہی کریں گے جیسے انھوں نے یوٹیوب کتنے سال پاکستان میں بند رکھی۔‘

ان قوانین میں مسئلہ کیا ہے؟

ڈیجیٹل حقوق پر کام کرنے والے کارکن اسد بیگ کہتے ہیں کہ ’ایک جو رجحان میں نے دیکھا ہے خاص کر ڈیجیٹل پالیسیوں کے حوالے سے پی ٹی آئی کی حکومت ناقابلِ عمل پالیسیاں بنا رہے ہیں۔ اسی طرح کی ایک پالیسی چند روز پہلے بھی او ٹی ٹی اور ویب ٹی وی کے حوالے سے ایک پالیسی آئی جسے سینیٹ کی ہیومن رائٹس کمیٹی نے روکا۔ اور اس پالیسی میں بھی کوئی منطق نہیں ہے۔‘

’ان قوانین میں اس قسم کی چیزیں ہیں کہ سوشل میڈیا کمپنیز اس بات کو یقینی بنائیں کہ لائیو سٹریم کے دوران بھی کوئی فیک نیوز نہ ہو یا کوئی ایسی بات ہو جو قومی سلامتی کے خلاف ہو۔ آپ سوشل میڈیا کمپنیوں پر لازم کر رہے ہیں کہ وہ لائیو سٹریم کو چیک کریں۔ ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ یہ تکنیکی طور پر ناممکن ہے۔‘

’دوسرا فرض کریں کہ ٹوئٹر یا فیس بک پاکستان میں اپنے آپریشنز ختم کر دے تو ہماری ڈیجیٹل معیشت کو کتنا نقصان ہوگا، تو مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ان کے دماغ میں چل کیا رہا ہے۔ ایک طرف ڈیجیٹل پاکستان کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف یہ۔ پی ٹی آئی تو وہ واحد پارٹی تھی جس نے انتخابات جیتنے سے پہلے ہی ایک آئی ٹی پالیسی دی تھی۔‘

’مگر مجھے لگتا ہے کہ اب ان کی سوچ یہ چل رہی ہے کہ ٹیکس لگا کر یا آن لائن مواد کو ریگولیٹ کر کے قلیل المدتی تناظر میں جتنے پیسے کھینچ سکتے ہیں، کھینچ لیں۔ مگر ان کو پتا بھی ہے کہ طویل المدتی تناظر میں انھوں نے پاکستان میں ٹیکنالوجی اور انوویشن کے حوالے سے کتنا بڑا نقصان کر دیا ہے۔ بالکل واضح ہے کہ یہ لوگ غیر پیشہ وارانہ طرز کی پالیسی سازی کرتے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp