کتاب میلہ اور ہمارا تجربہ


کتاب میلہ یا لاہور بک فئیر اختتام پذیر ہوا۔ کتاب سے محبت کرنے والوں کے لئے بک فئیر کسی نعمت سے کم نہیں۔ کتاب کی طرح کتاب میلے سے عشق بھی پرانا ہے۔ بہت سال پہلے جب یہ میلہ فورٹریس سٹیڈیم میں لگا کرتا تھا، تب بھی جا کر اپنی جیب کی گنجائش سے بہت زیادہ کتب خرید لیا کرتے تھے۔ اس زمانے میں موٹر سائیکل پر کتابوں کے تھیلے بھر کر لایا کرتے تھے۔ پھر یہ میلہ ایکسپو میں سجنا شروع ہوا تو بہت آسانی ہو گئی۔ کتاب میلے میں لوگوں کا جوش و خروش عروج پر ہوتا ہے۔ لگتا نہیں کہ یہ قوم کتاب نہیں پڑھتی۔

گذشتہ چند سالوں سے اگرچہ کتاب میلے میں کتب کا معیار کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے۔ بہت سے نامور پبلشرز اب اس میلے میں شریک نہیں ہوتے۔ مجھے یاد ہے جب یہ میلہ ایکسپو میں سجنا شروع ہوا تو پہلے پہل دو ہالز میں سٹالز لگے ہوتے تھے۔ انڈین پبلشرز بھی شریک ہوتے تھے۔ اب نہ تو دیگر ممالک سے پبلشرز شریک ہوتے ہیں، بلکہ کئی پاکستانی پبلشرز بھی نہیں سٹال لگاتے۔ اگر یاد کروں تو ماورا اور جمہوری پبلشرز جیسے ادارے اس میں لازماً شامل ہوتے تھے۔

اسی بہانے خالد شریف اور فرخ سہیل گوئندی ایسے لوگوں سے ملاقات بھی ہو جاتی تھی۔ اور سیکھنے کو بہت کچھ ملتا تھا۔ گذشتہ چند سالوں سے پبلشرز کی تعداد میں نمایاں کمی آئی ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس اور ریڈنگز جیسے بڑے ادارے بہت کم تعداد میں کتب لاتے ہیں۔ خاص طور پر آکسفورڈ جو بلا مبالغہ لاکھوں نہیں تو ہزاروں کی تعداد میں کتب لاتے تھے انہوں نے تعداد کم کر دی۔ امسال آکسفورڈ کے سٹال سے ایک بھی کتاب نہیں خریدی۔

وجہ سیدھی سادی، کہ کتابیں بہت کم تھیں، اور جو تھیں ان کا اسی فیصد سے زائد نصابی کتب پر مبنی تھا۔ چند سال پہلے تک ہر سال پانچ دس کتابیں آکسفورڈ کے سٹال سے خریدی جاتی تھیں۔ اسی طرح زیادہ طرح پبلشرز وہ کتابیں لاتے ہیں جو سال کے عام دنوں میں زیادہ نہیں بکتیں اور انہی کتابوں پر زیادہ ڈسکاؤنٹ دیا جاتا ہے۔ کاروباری نکتہ نظر سے شاید درست ہو، لیکن کتب بینوں کو زیادہ ورائٹی میسر نہیں آتی۔

دیگر مقامی پبلشرز پر میسر کتابوں کی غالب تعداد غیر معیاری تراجم پر مشتمل ہوتی ہے۔ پاکستان میں ترجمہ کیسا ہوتا ہے، یہ شاید کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اب کسی بھی سٹال پر چلے جائیے، 100 میں سے ساٹھ ستر کتابیں ترجموں کی ہوں گی۔ اور ترجمہ ایسا کہ لکھنے والے کی روح کانپ جائے۔ اصل متن اور ترجمے میں بعد مشرقین عام سی بات ہے۔ اب کسی کتاب یا پبلشر کا نام کیا لینا۔ صرف ایک چھوٹی سی مثال دیکھ لیں۔ بیگم عابدہ حسین پاکستانی سیاست میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ مختلف وزارتوں سے لے کر امریکہ میں پاکستان کے سفیر کے طور پر مختلف اہم ادوار میں فائز رہیں۔ بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے خاتمے میں اہم کردار تھا۔ انہوں نے اپنی آپ بیتی لکھی جسے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے چھاپا۔ کتاب کا نام تھا پاور فیلیر (POWER FAILURE) ، جس کا بنیادی تصور اقتدار اور اس کی غلام گردشوں میں ہونے والی سازشوں کا ذکر ہے۔ کسی ستم ظریف نے اس کتاب کا ترجمہ کیا اور نام رکھا ”اور بجلی کٹ گئی“۔

اب بل کی عدم ادائیگی کی وجہ سے بجلی کے کنکشن کٹ جانے کا عابدہ حسین کی کتاب سے کیا واسطہ۔ اسی طرح اوریانا فلاسی کی ایک کتاب ہے جس میں انہوں نے مشہور زمانہ شخصیات کے انٹرویو شائع کیے۔ اس کتاب کا ترجمہ پڑھنے کا اتفاق ہوا اور خدا جھوٹ نہ بلوائے، آئندہ کے لئے ترجمہ پڑھنے سے توبہ کر لی۔ یہ مترجم حضرات کون ہوتے ہیں؟ مشاہدے کی بات ہے کہ پبلشرز جلد سے جلد اور زیادہ سے زیادہ کتابیں کم سے کم قیمت پر چھاپنے کے لئے سٹوڈنٹس سے ترجمہ کرواتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ انارکلی کے بغل میں بیٹھے ”اعلیٰ تعلیم یافتہ“ حضرات سے۔ اب ترجمے کا جو حشر ہوتا ہے خدا کی پناہ۔ ان تراجم کی وجہ سے کتب کے معیار میں زوال اور تعداد میں اسی تناسب سے عروج کا سلسلہ جاری ہے، خدا جانے کہاں جا کر تھمے یہ سلسلہ۔

سو قصہ مختصر، ہم ایسے کتاب کے رسیا جو چند سال پہلے تک، اپنی بساط سے بہت زیادہ کتابیں خرید لاتے تھے، یعنی چالیس پچاس کتابیں، اب یہ تعداد کم ہوتے ہوتے، کوئی بیس کتابوں تک آ گئی ہے۔ ترقی معکوس کا یہ سفر جاری رہا تو اگلے سال یہ تعداد اور بھی کم ہو گی۔ کتاب میلے کی انتظامیہ کو اس بابت نوٹس لینا چاہیے اور پبلشرز کی تعداد اور کتب کے معیار کو بہتر بنانے کی کوشش کی جانی چاہیے۔

اسی طرح ایک اور اہم ایشو کتب کی قیمت کا بھی تھا۔ اب کاپی رائٹ وغیرہ تو اجنبی سے معاملات لگتے ہیں اس دیس میں۔ ایک کتاب اپنے پبلشر کے سٹال پر پندرہ فیصد ڈسکاؤنٹ کے ساتھ دستیاب ہے، تو وہی کتاب اسی پرنٹنگ میں ایک دوسرے پبلشر کے سٹال پر تیس فیصد ڈسکاؤنٹ کے ساتھ۔ کاپی رائٹ کا معاملہ تو اپنی جگہ، لیکن ہم یہ جگ بیتی نہیں بلکہ ہڈ بیتی سنا رہے ہیں۔ کہ ایک کتاب ریڈنگز کے سٹال سے پندرہ فیصد ڈسکاؤنٹ پر خریدی، بعد میں وہی کتاب ایک اور پبلشر (غالباً مکتبہ جدید) کے سٹال پر تیس فیصد ڈسکاؤنٹ کے ساتھ دستیاب تھی۔ ہم پر جو بیتی سو بیتی، بک فئیر کی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ پبلشرز کو اس بات کا پابند بنائے کہ وہ کسی ایسے پبلشر کی کتاب نہ فروخت کر سکیں جس کا اپنا سٹال بک فئیر میں موجود ہو۔

خاکسار کے لئے کتاب دیکھنا، خریدنا اور پڑھنا ایک خالصتاً نجی معاملہ ہے۔ احباب کے ساتھ جانے اور کسی کو بتا کر جانے کی سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ لوگ مفت کتاب کی فرمائش کرتے ہیں۔ البتہ اس دفعہ کوشش تھی کہ کچھ سینئر قلمکاروں سے ملاقات ہو جائے۔ کچھ ملاقاتیں ہوئیں بھی۔ ہمارے استاد اور براردِ عزیز عامر ہاشم خاکوانی کی کتاب شائع ہوئی تھی، ان سے رابطہ کر کے ملاقات بھی کی، اور باقاعدہ کتاب خرید کر دستخط بھی کروائے۔ ”ہم سب“ کے مدیر عدنان خان کاکڑ سے رابطہ کیا، اور عدنان بھائی نے ملاقات کی حامی بھی بھری، لیکن عدنان بھائی کے دیر سے پہنچنے کے سبب ملاقات ہو نہیں سکی۔

کتاب میلے میں لوگوں کا جوش و خروش ہر سال پہلے کی نسبت زیادہ نظر آتا ہے۔ بچوں کی بڑی تعداد کتاب میلے میں شریک ہوتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انتظامات کا دائرہ وسیع کیا جائے، زیادہ سے زیادہ پبلشرز کو موقع دیا جائے یعنی سٹالز کی قیمت میں کمی کی جائے۔ غیر ملکی پبلشرز کو بھی دعوت دی جائے اور پبلشرز حضرات غیر معیاری تراجم کی بجائے اچھی کتب لائیں تا کہ لوگوں کی کتاب دوستی کی مناسب آبیاری ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments