کیا یہ موضوعِ بحث ہے؟


ویلنٹائن ڈے کیا ہے؟ اس کا آغاز کب کہاں سے ہوا، یہ عیسائی تہوار ہے یا رومی تہوار، یہ قومی تہوار ہے یا مذہبی۔ اس دن کِس نے کِس کو کیا دیا، پھول پیش کیے گئے یا پھولوں کو مسخ دیا گیا، تحائف کا تبادلہ ہوا یا نہیں، یہ حقیقت ہے یا افسانہ۔ اس دن کے حوالے سے کون سے روایت صحیح اور کون سی غلط، سوشل میڈیا کے اِس زمانے میں ہر سال ایک نئی کہانی پیش کر دی جاتی ہے۔

کیا ہمارے اپنے مسائل نہیں جن پر بحث کی جا سکے؟ ہم دوسری قوموں کے تہوار کو منانے یا نہ منانے کے مسئلے میں الجھے ہوئے ہیں۔ ہر مذہب اور قوم کے اپنے تہوار، کلچر، ثقافت ہوتی، اسلام میں دو تہوار عید الفطر، اور عید الضحٰی نمایاں ہیں۔ کیا کبھی غیر مسلم ممالک میں اِن تہواروں پر بحث مباحثہ ہوا؟

اقوام عالم نے ہمارے اسلاف کی انگشت پکڑ کر چلنا سیکھا، بعدازاں وقت پلٹا مغربی اغیار ہماری سائنسی تحقیقی مشاہدے اور ترقی کے راز لے گئے، پہلے چاند اور اب مریخ پر قدم رکھ رہے اور ہمیں ورثے میں کیا دیا؟

غلامی کی سوچ جس سے آج تک چھٹکارا نہ پاسکے۔

مسلمان سائنسدانوں کی علمی اور ادبی خدمات پورے عالم میں جب اُفق کو چھو رہی تھیں۔ تاریخ گواہ ہے پورا یورپ جہالت کی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا، مغربی بادشاہوں کا طرز حکمرانی جاہلانہ، نہانے پر لوگوں کو قتل کر ڈالتے پورے یورپ پر نہانے میں پابندی عائد تھی۔

بعدازاں مسلمانوں کا طرز زندگی اپنایا، قرآن پاک ان کی لیبارٹریز کا حصہ بن گیا جبکہ ہم بحث مباحثہ میں پڑ گئے۔ قرآن پاک کو اُونچی آواز میں پڑھیں یا آہستہ، ہم 14 سو سال پہلے کی باتوں میں لگے رہے، صحابہ کرامؓ کا مسلک کیا تھا، کون سی حدیث صحیح ہے اور کون سی ضعیف۔ مذہبی وبا سے ہی مسلمانوں کی سیاسی، علمی، اور سائنسی قوتیں مفلوج کر دی گئیں تھیں۔ ہم علمی اور تحقیقی زوال کا شکار ہیں، صرف اس بات کو سمجھنے کے لئے ہمیں دنوں کی نہیں بلکہ برسوں کی ضرورت ہے، اور جس دن مسلم اُمہ اپنے کھوئے ہوئے ورثے کو پہچان گئی اُس دن ایک نیا انقلاب برپا ہوگا۔

مسلمان مغرب زدہ ہو کر رہ گئے، ہمارے اسلاف کی خدمات اُن کی تعلیمی نصاب، اور اُن کے افسانے ہماری تعلیمی نصاب کا حصہ بن گئے۔ ہم اُن کی تہذیب اور کلچر پر فخر کرنے لگے جبکہ وہ ہمارے طرز زندگی، طرز حکمرانی کو اپنا گئے، اور ہم احساس کمتری کا شکار ہو گئے۔

امریکہ میں ہر سال تقریباً 70000 لوگ اسلام قبول کرتے ہیں، جن میں 73 فیصد خواتین شامل ہیں، جو عزت اور مقام عورت کو اسلام نے دیا وہ کسی دوسرے مذہب میں نہیں، مغربی دنیا میں عورت کی آزادی یہی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کسی کے ساتھ بھی جنسی تعلقات قائم کر سکتی، دیگر اُمور میں اُسے مرد کیطرح مشقت کرنی پڑتی ہے، ہم مغربی دنیا کی دیکھا دیکھی میں عورت کو آزادی کے نام پر باہر سڑکوں پر لے آئے، تو عورت گھر کی چار دیواری سے نکل کر سڑکوں پر ”ہمارا جسم ہماری مرضی“ کی بات کرنے لگی، عورت اپنے آپ کو جوتے پالش کرنے والا، بستر گرم کرنے والا سمجھنے لگی، تو مشرقی عورت مغربی عورت کیطرح اپنی آزادی تو نہیں اپنے تک رسائی کے راستے ہموار کرنے لگی۔

عورت جس کو اسلام نے گھر کی ملکہ بنا دیا، فرش سے اٹھا کر تخت پر بیٹھا دیا، آج ہمارے معاشرے میں عورت مکمل آزاد تو ہے لیکن شاید عورت اُس طرح مضبوط نہیں جس طرح معاشرے میں عورت کو مضبوط ہونا چائیے۔

ہر سال ویلنٹائن ڈے پر بہت لکھا اور بولا جاتا، کیونکہ ویلنٹائن کا تصور نوجوان نسل میں غلط قائم کر دیا گیا، اس تہوار میں اگر کوئی مثبت پہلو ہو بھی تو ہماری روایت نہیں ہم مثبت لیں۔ کسی ایسے کلچر جس سے معاشرتی وبا کے پھیلنے کا خدشہ ہو اُس کے لئے راہ ہموار کرنا ہمارے لئے کسی بھی طرح سودمند نہیں۔ ہمارے معاشرے میں پہلے ہی بہت سی برائیاں جنم لے چکی، صحیح سمت کا تعین کرنا ہوگا؟ کل نہیں آج سوچنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments