اللہ میاں تھلے آ


زندگی کے نشیب و فراز میں دُکھ اور سُکھ کا امتزاج ایسے ہی لازم و ملزوم ہے جیسے زندہ رہنے کے لئے سانس کا اندر اور باہر جانا ضروری ہے۔ مثبت منفی ’دکھ سکھ‘ خوشی غمی ’یہ سب ساتھ ساتھ چلتے ہیں تا کہ مثبت‘ سکھ اور خوشی کی اہمیت کا احساس باقی رہے اور اس سے بھی زیادہ ضروری کہ منفی ’دکھ اور غم میں ہم کسی ایسی طرف رُخ کر سکیں جہاں سے بھلے ان کا فوراً مداوا نہ ہو لیکن وہاں سے ہمیں امید‘ حوصلہ اور امکان کی اک نئی طرح مل جائے اور اس وقتی سانحے سے گزرنے کا ساماں ہو سکے۔

انسان اپنی خلقت میں بذاتِ خود اک عجب شاہکار ہے۔ کبھی کبھار کوئی بہت بڑا غم بھی آسانی سے سہہ جاتا ہے اور کبھی کسی دوسرے کو ایک وقت کے کھانے سے محروم دیکھ کر خود پہروں بھوکا رہتا ہے۔ یہ انسانی سرشست میں شامل ہے کہ اس کے گرد ہونے والے واقعات و حادثات اس پہ جذباتی ’روحانی‘ نفسیاتی ’اور استعاراتی اثر چھوڑتے ہیں اور انہی اثرات کے زیرِ اثر اس کے اندر مدد‘ تعاون ’خدمت‘ حمایت ’برداشت اور اس طرح کے دیگر روئیے پیدا ہوتے ہیں جو اس کے لائحہ عمل کا حصہ بن بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی۔

فی زمانہ حالات کی دگرگوں حالت اور روزگار کے کم ہوتے ہوئے وسائل نے سفید پوشی کا بھرم رکھنا دوبھر کر دیا ہے ’کہنے کو اور دیکھنے کو بہت کچھ مل جاتا ہے لیکن دو واقعات ایسے ہیں جنہوں نے زباں گنگ کر دی۔ ایک 60 سال کی عمر کے ٹیکسی ڈرائیور کے کپکپاتے ہونٹ‘ وہ بہت کچھ بولنا چاہ رہے ہوں گے لیکن اپنی سفید پوشی ’طرح داری‘ کسی نئے مسئلے میں نہ الجھ جانے کے ڈر کے باعث وہ اپنا آپ کھول نہ پائے لیکن کپکپاتے ہونٹوں نے وہ سب کہہ دیا جو شاید آنسو بھی نہ کہہ پاتے۔

لاہورکے ایک ہسپتال میں مریضوں کے لواحقین کے لئے کسی رحمدل نے کینٹین پہ کھانے کا مفت انتظام کر رکھا ہے۔ چونکہ انتظام محدود پیمانے پہ کیا جاتا ہے لہذا کھانا باہر لے جانے کی اجازت نہیں ’لیکن اب تو عام شہری اور اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے والے بھی وہاں جانے پہ مجبور ہوتے دیکھے گئے‘ توکینٹین والے بھی کیسے منع کریں اور کلیجہ منہ کو تب آیا جب آنے والے نے تھوڑا سا کھایا اور باقی ایک پلاسٹک کے تھیلے میں ڈالنے لگا کہ بچوں کے لئے بھی لے جا سکے ’اس منظر سے ہر رحمدل آنکھ پرنم ہو گئی اور انتظامیہ کو اعلان کرنا پڑا کہ خود بھی کھا لیں اور بچوں کا بھی لے جائیں۔

بابافرید نے روٹی کو چھٹا رکن قرار دیا تھا اور احادیث میں آتا ہے کہ ’قریب ہے کہ غریبی کفر تک پہنچا دے گی‘ ۔ یہ واقعات محض واقعات ہی نہیں ہیں یہ سانحات ہیں ’کہ ہم کہاں سے چلے تھے اور کہاں کو جا رہے ہیں۔ ہم نے اپنے بنیادی عقائد اور بنیادی حقوق العباد کو پسِ پُشت ڈالا تو معاشرے کی کیسی خوفناک تصویر ابھر رہی ہے۔ یہ کیسا نظام ہے کہ جس میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ ہمیں واپس اسی معاشرے کی بنیاد نئے سرے سے رکھنے کی ضرورت ہے جس میں کوئی ہمسایہ بھوکا نہ سوئے اور ایسے حکمرانوں کی ضرورت ہے جن کو دجلہ کے کنارے مرنے والے کتے کے بارے بازپرس کا ڈر بھی ہو۔

یہ سب کتابی باتیں ہیں ’آج کے اس نابغہ روزگار دور اور کارپوریٹ کلچر میں یہ باتیں دیوانے کا خواب کہلاتی ہیں‘ لیکن کیا کیا جائے ’بقول ابنِ انشاء جی کے

دیوانوں کی سی نہ بات کرے ’تو اور کرے دیوانہ کیا۔

ہم انفرادی طور پہ اس ذات کی طرف تو پلٹ ہی سکتے ہیں جس کے ’کُن‘ کے آگے صرف ’فیکون‘ ہی ہے۔ ہم سب اُسی کے حضور عرض کرسکتے ہیں ’اپنا مدعا وہیں بیان کر سکتے ہیں‘ اپنی حاجتیں اور محتاجیاں اسی کے آگے آشکار کر سکتے ہیں ’حالانکہ وہ ان سب سے بخوبی واقف بھی ہے لیکن پروٹوکول کا تقاضا ہے کہ درخواست تو پیش کی جائے

کہ

اللہ میاں تھلّے آ

اپنی دنیا ویہندا جا

یا اسمانوں رزق ورہا

یا فِر کر جا مُک مُکا

اللہ میاں تھلّے آ

ملّاں قاضی ڈھِڈوں کھوٹے

وڈھی کھا کھا ہو گئے موٹے

سچ آکھاں تے مارن سوٹے

مگروں دیندے فتویٰ لا

اللہ میاں تھلّے آ

پِنڈاں دے پنڈ خالی ہو گئے

لکھاں ہتھ سوالی ہو گئے

کاں باغاں دے مالی ہو گئے

بُلبل لئی نیں پنجرے پا

اللہ میاں تھلّے آ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments