اجناس بحران کے خلاف آپریشن کی ضرورت


15 ارب روپے یوٹیلٹی اسٹورز کو سبسڈی دینے کے فیصلے پر عمل درآمد سے قبل ہی اشیا خوردنو نوش کی قیمتوں میں ردوبدل کی خبرعوام کے لئے دکھ کا باعث بنی۔ یوٹیلٹی اسٹورز نے سبسڈی نوٹیفیکشن سے قبل ہی چینی دو روپے اور گھی کی قیمت میں فی کلو پانچ روپے مہنگا کردیا (جس کی بعد میں تردید کردی گئی) ۔

متعدد حلقوں کی جانب سے یوٹیلٹی اسٹورز کو سبسڈی دینے کا فیصلہ درست نہیں سمجھا گیا، ملک بھر میں صرف چار ہزار یوٹیلٹی اسٹورز کو سبسٹڈی دینے سے گندم، آٹا، چینی، گھی و دیگر اشیاخوردنوش کی قیمتوں میں کمی سے عوام کو فائدہ پہنچنے کے بجائے حسب روایت ذخیرہ اندوزں کے خزانوں میں جانے کے خدشات ہیں۔

دوم حیران کن اہم امَر کہ حکومت کا خزانہ خالی ہے، یہ رقم ”احساس“ ’پروگرام سے کٹوتی کرکے دی جانے کی اطلاعات ہیں، غریب عوام کے فنڈسے کٹوتی پر حکومت کو وضاحت دینی چاہے۔ عوام بخوبی آگاہ ہیں کہ یوٹیلٹی اسٹورز پہلے ہی غبن، خرد برد اور اشیا صرف منظور ِ نظر افراد کو دینے کے اسکینڈل میں ملوث رہے ہیں۔

یوٹیلٹی اسٹورز کی وجہ سے عام عوام کو کبھی خاص ریلیف نہیں ملا، دید وشنید ہے کہ یوٹیلٹی اسٹورز میں جن اشیا صَرف کی قیمت کم کی جاتی ہے، وہ عوام کے گھروں تک پہنچنے کے بجائے ذخیرہ اندوزوں کے گودا م پہنچ جاتی ہے۔ یاد رہے کہ وزیر اعظم جنوری میں بھی یوٹیلٹی اسٹورز 70 ارب روپے سبسڈی دے چکے ہیں، لیکن اس کے ثمرات عوام کو نہیں مل سکے۔ اس کے باوجود دوبارہ، دس ارب روپے (دو ارب ماہانہ) پانچ ماہ کے لئے اور رمضان المبارک کے لئے پانچ ارب روپے مختص کردیئے گئے۔

اس قسم کے نام نہاد ریلیف پیکجز سے لوٹ مار و مہنگائی کے عفریت کو کنٹرول نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ اجناس بحران میں خود حکومت میں موجود مافیا ملوث ہوتے ہیں، یوٹیلٹی اسٹورز صرف عوام کی آنکھ میں دھول جھونکنے کے مترادف ہیں، مخصوص عناصر ہمیشہ کی طرح فائدہ اٹھاتے ہیں، سبسڈی کے نام پر دی جانے والی رقم بالواسطہ طور پر گراں فروش مافیا کی جیب میں چلی جاتی ہیں۔

ان اسٹورز میں رعایت دی جانے والی شیا ناپید ہوجاتی ہیں، گداگروں کی طرح لائنوں میں کھڑے ہوکر اشیا خوردنوش خریدنے کے لئے جب گھنٹوں بعد باری آتی ہے تو علم ہوتا ہے کہ آٹا ہے تو چینی نہیں، چینی میسر ہے تو گھی یا آٹا ناپید، بیشتر اسٹور ایک ایسا پیکچ بنادیتے ہیں کہ جس میں ایسی اشیا کو بھی شامل کردیا جاتا ہے جو صارف خریدنا نہیں چاہتے، لیکن پیکج میں شامل کرکے اُسے جبراً خریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے یا پھر اس کی مقدار اتنی کم دی جاتی ہے کہ تنگ آکر صارف پرچون فروش سے ہی اشیا خوردو نوش خریدتا ہے جہاں انہیں ہول سیلر و مافیا کی وجہ سے گراں قیمتوں پر اشیا خوردونوش دستیاب ہوتی ہیں۔

حکومت اعلانات میں بڑے بلند بانگ دعوے کرتے نظر آتی ہے لیکن زمینی حقائق اس کے بالکل برخلاف ہوتے ہیں۔ یوٹیلیٹی اسٹورز میں اشیا صَرف پر عموماًقیمتیں ومعیاد چسپاں نہیں ہوتیں یا بے ترتیب ہوتی ہیں، غیر معیاری و ناقص زائد المدت مال بھی، اسٹورز کی ملی بھگت سے فروخت کیا جاتا ہے، صرف یہی نہیں بلکہ وزن میں کمی کی شکایات زدعام رہی ہیں۔

ایسے اِن گنت واقعات سامنے آچکے ہیں، جب اسٹورز پر چھاپے مارے جانے کے بعد عوامی شکایات کا انبار لگ جاتا ہے۔ کرپشن زدہ ماحول و ضمیر فروشوں کی موجودگی میں مخصوص عناصر کو سبسڈی دینا، مزید نوازنے کے مترادف کہلاتا ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان کی تاریخ میں آج تک کوئی حکومت گراں فروشوں و ذخیرہ اندوزں کا کڑا احتساب کرکے عوام کو ان سے نجات دلانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ گیس اور بجلی کی بڑھتے نرخ متوسط طبقے کی چیخیں نکال رہا ہے، بے روزگاری کا اژدھا عوام کو عفریت کی طرح جکڑے جارہا ہے۔

رمضان المبارک سے کئی ماہ قبل ہی ذخیرہ اندوز اشیا ضرورت کو مارکیٹ سے اٹھالیتے ہیں، رمضان المبارک میں ضمیر فروش کسی اسلامی و انسانی اقدار کا خیال کیے بغیر صرف منافع خوری پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں، آخرت کا ڈر ان کے دلوں میں نہیں ہوتا، دنیاوی مفاد کے خاطر آخرت کا سودا کرلیتے ہیں۔ اس وقت اہم ضرورت اس اَمر کی ہے کہ ذخیرہ اندوزوں کے خلاف بھرپور کریک ڈاؤن کیا جائے، بڑی بڑی غلہ منڈیوں اور گوداموں میں چھپائے ہوئے اشیا خوردونوش کو حکومتی تحویل میں لے کر گراں فروشوں و منافع خوروں کی کمر توڑی جائے۔

سبسڈی دینے کا عمل پہلے بھی کبھی کامیاب نہیں رہا، عوامی مفاد عامہ کے تمام منصوبے ہمیشہ خسارے میں رہتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ مخصوص عناصر کا سبسڈی سے فروعی فائدہ اٹھانا رہا ہے۔ حکومت کو اُن کالی بھیڑوں کو تلاش کرنا چاہے جو مہنگائی بحران کا سبب بن رہے ہیں۔

یوٹیلٹی اسٹو کارپوریشن ایک سرکاری ادارہ ہے، جس کا کام عوام کو ارزاں قیمتوں پر اشیا ضرورت فراہم کرنا تھا، لیکن بدقسمتی سے دیگر سرکاری اداروں کے طرح اس ادارے میں بھی کرپشن کا عفریت سرایت کرچکا، عوام کا اعتماد اس جیسے اداروں پر کبھی قائم نہیں رہا۔ حکومت کو معاشی ریلیف دینے کے لئے بنیادی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، جس میں سب سے پہلے عام مزدور کی قوت خرید کو بڑھانا ضروری ہے۔ احتساب کسی ٹھیلے والے یا پتھار دار تک محدود رکھنے کے بجائے اوپر سے شروع کیا جائے، شوگر و فلور ملز کے طلب و رسد کی سمت درست کرنا اہم کام ہے۔

کاشت کاری کے لئے ترجیحات کو اپنانے کی ضرورت ہے، کپاس کی جگہ گنے کی کاشت سے ملک کو اہم صنعت کے لئے اب کپاس درآمد کرنا پڑتی ہے، اسمگلنگ کی حوصلہ شکنی ممکن بنانا چاہیے۔ حکومت کو اگر سبسڈی دینی ہی ہے تو ایسی اشیا ضرورت سے غیر ضروری ٹیکس ختم کرے، جس سے اشیا ضرورت کی قیمتیں از خود کم ہوجائیں گی۔ طلب و رسد کی مسابقت کو قابو میں رکھنے کے لئے بنیادی اشیا صَرف پر شفاف نگرانی و مافیا کے خلاف کارروائی حکومتی ترجیح ہونا چاہے۔

جب عوام کی قوت خرید اُن کی استطاعت کے مطابق ہوگی تو کسی بھی قسم کا بحران قانون کی رٹ قائم کرنے سے ختم کیا جاسکتا ہے۔ حکومت قانون نافذ کرنے والے اداروں و حساس اداروں سے اس حوالے سے تعاون حاصل کرسکتی ہے کہ ذخیرہ اندوزوں نے اشیا ضرورت کو کہاں و کن کن جگہوں پر چھپا کر رکھا ہوا ہے۔ یہ بڑے بڑے گودام کسی تجوری میں بند نہیں ہیں کہ دکھائی نہ دے۔ صرف ایک ہفتے ”آپریشن رد الا اجناس بحران“ سے عوام کو ذخیرہ اندوزوں و منافع خوروں سے نجات مل سکتی ہے۔ یوٹیلٹی اسٹورز کو سبسڈی دینے کے نام پر گراں فروشوں کو مراعات دینے سے گریز کرنا سب کے حق میں بہتر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments