سپریم لیڈر: ایران کے آئین میں ’رہبرِ اعلیٰ کا کردار


رہبر اختیارات

اسلامی جمہوریہ ایران کے پہلے رہبر، آیت اللہ خمینی۔

ایران کے رہبر آیت اللہ سید علی خامنہ ای اس وقت ایران کی سب سے زیادہ طاقتور شخصیت ہیں۔ آئینی لحاظ سے ‘رہبرِ ایران’ ہونے کی وجہ سے ایران کے ہر بڑے عہدے پر تقرری اور تنزلی کے اختیارات یا تو براہِ راست یا بالوسطہ طور پر ان کے ہاتھ میں ہیں۔ اس کے علاوہ ایران میں اربوں ڈالر کا حجم رکھنے والی کئی ایک فاؤنڈیشن اور اوقاف بھی ان ہی کی زیرِ نگرانی کام کرتے ہیں۔

ایران کے آئین کے آرٹیکل 57 کے مطابق ‘اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کے تین ادارے ہیں، مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ۔ اور یہ تینوں ادارے ولایت امر اور امت کی رہبریت کی نگرانی میں آئین کی مختلف شقوں کے مطابق کام کریں گے۔’

تاریخی پس منظر

ایران کے آئین میں رہبر کا عہدہ سنہ 1979 کا انقلابِ اسلامی آیت اللہ خمینی کی قیادت میں کامیاب ہوا تھا۔ جب آیت اللہ خمینی نے ایران کو اسلامی جمہوریہ قرار دیا تو اس کی توثیق ایک ریفرنڈم کے ذریعے عوام سے کرائی گئی تھی جس میں اس وقت 98.2 فیصد ایرانی ووٹروں نے آیت اللہ خمینی کے اعلان کی تائید کی تھی۔

آیت اللہ خمینی کی قیادت میں شاہ ایران کی طاقت کو چیلینج کرنے والی کامیاب تحریک کا آغاز سنہ 1978 میں قم سے ہوا۔ اس ’اسلامی انقلاب‘ میں اگرچہ کئی طبقوں نے حصہ لیا تھا لیکن اس میں مرکزی حیثیت آیت اللہ خمینی کی رہی۔ ایران کے دائیں اور بائیں بازو اور ایران میں لبرل اصلاحات لانے والے گروہوں نے بھی آیت اللہ خمینی کی قیادت کی حمایت کی۔ اس مرکزی کردار اور انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کرانے کی وجہ سے ان کی شخصیت نے ایران کی آئین سازی میں بھی ایک غالب کردار ادا کیا۔

رہبر اختیارات

ایران کے موجودہ رہبر آیت اللہ سید علی خامنہ ای۔

رہبرِ اعلیٰ کا تصور

ایران میں رہبر اعلیٰ یا ‘رہبرِ ایران’ ملک کے آئین کے لحاظ سے سب سے زیادہ طاقتور عہدہ ہے۔ اگرچہ ایران کی سیاست میں تنوّع ہے لیکن ملکی سلامتی اور انقلاب اسلامی کے وجود کو پہلے دن ہی سے مبینہ خطرات کے خدشات کی وجہ سے رہبراعلیٰ کا منسب عوامی اور سیاسی تحریکوں کا محور بنا رہا ہے۔

حالانکہ آئین میں رہبر کی بھی نگرانی کی گنجائش موجود ہے اور اختلافِ رائے بھی کیا جا سکتا ہے، لیکن رہبر کو انقلاب اسلامی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور اس کی مخالفت کو انقلاب سے بغاوت تصور کیا جاتا ہے۔

رہبر اعلیٰ کی مرکزیت

ایران کے موجودہ رہبراعلیٰ آیت للہ خامنہ ای ہیں جو آئین کے آرٹیکل 91 کے تحت ‘شوریٰ نگہبان’ کے 12 ارکان میں سے 6 کو نامزد کرتے ہیں اور آرٹیکل 157 کے تحت چیف جسٹس کا تقرر بھی رہبر کرتے ہیں۔

آرٹیکل 110 انہیں اختیار دیتا ہے کہ وہ ’مجمع تشخیص مصلحت نظام‘ سے مشاورت کر کے ایران کی عمومی حکمت عملی تشکیل دے۔ اس کے علاوہ حکومت کے پورے نظام کی نگرانی کرے۔ ریفرنڈم کرانے کا اختیار بھی رہبر کے پاس ہے۔ وہی پاسدارانِ انقلاب سمیت ایران کی تمام مسلح افواج کے سربراہوں کی تقرری کرتا ہے اور صرف رہبر ہی اعلان جنگ کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔

صدر مملکت کے انتخابات کے بعد کامیاب امیدوار کا تقررنامہ بھی رہبر کی جانب سے جاری کیا جاتا ہے۔ رہبر کے پاس صدر کو برطرف کرنے کا بھی اختیار ہے لیکن یہ تبھی ممکن ہے اگر چیف جسٹس صدر کو کسی جرم کا مرتکب پائے یا پارلیمان نے صدر کو آرٹیکل 89 کے مطابق نا اہل قرار دے دیا ہو۔

اگر حکومت کے مختلف اداروں کے درمیان اختلاف پیدا ہوجائے تو رہبر سے رجوع کیا جاتا ہے۔ تاہم آئین کی تشریح کے لیے ’شورایٰ نگہبان‘ سے رجوع کیا جاتا ہے۔ ایران کے سرکاری براڈکاسٹنگ کے ادارے کا سربراہ بنانے کا اختیار بھی ان کے پاس ہے۔ رہبر عدلیہ سے سزا پانے والوں کو معاف کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ رہبر اپنے اختیارات کسی اور کو بھی تفویض کر سکتا ہے۔

رہبر اختیارات

ایرانی آئین کے مطابق رہبر کے بعد سب بڑا عہدہ صدر کا ہے

آئین کے آرٹیکل 60 کے مطابق، انتظامیہ کے تمام اختیارات صدر اپنے وزارا کی مدد کے ساتھ استعمال کرنے کا حق رکھتا ہے سوائے ان انتظامی اختیارات کے جو آئین نے رہبر کے لیے مخصوص کیے ہیں۔ تاہم عملاً ایسا ہوتا رہا ہے کہ رہبر مسلح افواج کے سپریم کمانڈر کے اختیارات صدر کو تفویض کردیتا ہے۔

انقلاب کے بعد پہلی بڑی اصلاحات

آیت اللہ خمینی کی زندگی کے دوران ہی ایرانی سیاست میدان اور ریاستی اداروں میں موجود کئی اہم شخصیات نے یہ تسلیم کرلیا تھا کہ ان کے آئین میں کچھ ایسے بنیادی مسائل ہیں جن کی وجہ سے طاقت کی تقسیم غیر واضح ہے اور مسائل جنم دے رہی ہے۔ اس وقت زیادہ تر اختلافات صدر اور وزرِ اعظم کے درمیان پیدا ہوتے تھے۔

رہبر اختیارات

انقلاب اسلامی ایران کو پہلے ریفرنڈم میں 98.2 فیصد عوام کی تائید حاصل ہوئی تھی

اس پر سنہ 1988 میں آیت اللہ خمینی نے ‘مجمعِ تشخیص مصلحتِ نظام’ کے نام سے ایک کونسل تشکیل دی جس نے آئین میں کئی ساری ترامیم تجویز کیں اور وزیراعظم کا عہدہ ختم کردیا۔

سنہ 1989 میں آیت اللہ خمینی کے انتقال کے بعد جب آیت اللہ خامنہ ای کو رہبر منتخب کرلیا گیا تو ان کی جگہ حجۃ الاسلام علی اکبر ہاشمی رفسنجانی ایران کے صدر منتخب ہوئے۔ اب کیونکہ آیت اللہ خامنہ ای اپنے پیش رو آیت اللہ خمینی کی طرح نہ طاقتور تھے اور نہ بے انتہا مقبول، تو صدر رفسنجانی کو کھل کر صدارتی اختیارات استعمال کرنے کا موقعہ ملا۔

تاہم رہبر اعلیٰ اور صدر کے درمیان اختلافات اس وقت منظرِ عام پر سامنے آنا شروع ہوئے جب رفسنجانی کے بعد محمد خاتمی اس وقت کے قدامت پسند صدارتی امیدوار علی اکبر ناطق نوری کو بری طرح شکست دے کر ریکارڈ ووٹوں کے ساتھ صدر منتخب ہوگئے۔

خاتمی اصلاحات کے ایجنڈا لے کر آئے تھے اس لیے انھوں نے آزائِ اظہارِ رائے اور اختلافِ رائے کی آزادی سمیت لبرل پالیسیاں تشکیل دینے کی کوششیں کیں۔ لیکن ان کی راہ میں اس وقت کھل کر جو ادارے رکاوٹ بنے ان میں اس وقت کی پارلیمان تھی جس میں قدامت پسندوں کی بھاری اکثریت تھی۔ اس کے علاوہ شوریٰ نگہبان نے بھی ان کی مخالفت کی۔ لہٰذا انھوں نے رہبراعلیٰ کی کہیں بھی کھل کر مخالفت نہیں کی۔

رہبر اختیارات

احمدی نژاد بحیثیت صدر، رہبر کے سامنے بہت کمزور تھے

تاہم محد خاتمی نے اپنے زمانے کے حالات کے لحاظ سے خارجہ امور میں ایسے اقدامات کیے جن کو رہبر کی حمایت تو حاصل نہیں تھی لیکن یا تو انھوں نے مخالفت نہیں کی یا وہ مخالفت کر نہیں سکے۔ ان میں خاتمی کی مغربی ممالک سے ‘تہذیبوں کے مکالمہ’ کے نام سے کی گئی روابط کی کوشش تھی اور جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے آئی اے ای اے سے ایرانی جوہری تنصیبات کی اضافی نگرانی کے لیے رضا مندی تھی۔

محمد خاتمی کے بعد محمود احمدی نژاد ایران کے صدر منتخب ہوئے۔ کیونکہ احمدی نژاد ایرانی سیاست کے ایوانِ اقتدار میں ایک نئے شخص تھے اس لیے ابتدا میں ان کے رہبر سے اچھے تعلقات رہے۔ لیکن ان کے پارلیمان سے اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔

رہبر اختیارات

ایران کے دوسرے منتخب صدر محمد علی رجائی بم دھماکے میں ہلاک ہو گئے تھے۔

حسن روحانی سنہ 2013 میں پہلی مرتبہ صدر منتخب ہوئے۔ انھوں نے ایران کا عالمی سطح پر اقتصادی بائیکاٹ کرانے کے لیے پانچ عالمی طاقتوں اور جرمنی کے ساتھ ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کا معاہدہ سنہ 2015 میں کیا جو ‘جے سی پی او اے’ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایران کے رہبر آیت اللہ خامنہ ای اس معاہدے کے مخالف تھے، ان کا موقف تھا کہ امریکہ ناقابلِ اعتبار ہے۔

رہبر اعلیٰ کی مخالفت کے باوجود بھی ایرانی عوام نے معاہدے کی حمایت کی تھی۔ اور جب حسن روحانی دوبارہ صدارتی انتخاب لڑے تو انھیں عوام نے بھاری اکثریت سے منتخب کیا۔ لیکن جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ‘جے سے پی او اے’ سے یکطرفہ طور پر علحیدگی کا اعلان کرتے ہوئے ایران پر دوبارہ اقتصادی پابندیاں عائد کیں تو ایرانی عوام کی نظر میں رہبر کا موقف درست ثابت ہوا۔ مصبرین کے مطابق، اس طرح رہبر اعلیٰ سیاسی طور پر پھر سے زیادہ مضبوط ہو گئے۔

رہبر اختیارات

جب اسلامی جمہوریہ کے صدر خامنہ ای کو آیت اللہ خمینی کے انتقال کے بعد رہبر منتخب کرلیا گیا تھا تو سپیکر پارلیمان رفسنجانی انتخاب لڑنے کے بعد صدر منتخب ہوئے۔

رہبر اعلیٰ اور صدر کے اختیارات

ماضی میں اور، بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق حال میں بھی، رہبر اعلیٰ اور ایرانی صدر کے درمیان تعلقات میں کشیدگی رہی ہے جس کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام پیدا ہوتا رہا ہے۔ پہلی مرتبہ رہبر اور صدر کے درمیان اختلافات خود انقلاب کے بانی آیت اللہ خمینی اور اسلامیہ جمہوریہ ایران کے پہلے منتخب صدر ابوالحسن بنی صدر کے درمیان پیدا ہوئے تھے۔

آیت اللہ خمینی نے کچھ امور پر شکایات موصول ہونے کے بعد بنی صدر کو افواجِ ایران کے کمانڈر ان چیف کے دیے گئے اختیارات واپس لے لیے تھے۔ یہ سیاسی بحران اتنا زیادہ بڑھ گیا تھا کہ کچھ عرصے بعد بنی صدر ملک چھوڑ کر چلے گئے اور آج تک فرانس میں خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

آیت اللہ خمینی اگلے آنے والے صدور کی تقرری کے بعد انھیں مسلح افواج کا سپریم کمانڈر بناتے رہے۔ اس لحاظ سے ایران کی مسلح افواج کے سپریم کمانڈر تو رہبر اعلیٰ ہیں لیکن روایت یہ رہی ہے کہ وہ منتخب صدر کو یہ اخیارات تفویض کردیتے ہیں۔

بعد میں منتخب ہونے والے صدر محمد علی رجائی اپنے وزیرِ اعظم جواد باہُنر سمیت دہشت گردی کے ایک حملے میں ہلاک ہو گئے۔ تاہم رجائی کے صدر منتخب ہونے سے پہلے ابوالحسن بنی صدر کے وزیرِ اعظم رہے تھے۔ چند مبصرین کا کہنا ہے کہ بنی صدر نے رجائی کو زیادہ اہمیت نہیں دی تھی۔

سنہ 1981 میں محمد علی رجائی کی بم دھماکے میں ہلاکت کے بعد موجودہ رہبر آیت اللہ خامنہ ای صدر منتخب ہوئے۔ خامنہ ای کے آیت اللہ خمینی سے اختلافات پیدا نہیں ہوئے کیونکہ خامنہ ای ان کے قابلِ اعتماد اور اہم شاگردوں میں سے تھے۔

ایرانی آئین میں درجہ بندی کے لحاظ سے رہبر کے بعد سب سے اعلیٰ عہدہ صدر کا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 113 کے مطابق حکومت کا چیف ایگزیکٹو صدر ہے سوائے ان معاملات کے جو آئین نے خاص طور پر رہبر کو دیے ہوئے ہیں۔ صدر چار برس کے لیے منتخب ہوتا ہے، تاہم ایرانی صدر مسلسل دوسری مرتبہ بھی انتخاب لڑ سکتا ہے، لیکن مسلسل تیسری مرتبہ انتخاب لڑنے پر پابندی ہے۔ تمام صدارتی امیدواروں کی اہلیت کو جانچنے کا کام مجلسِ شورایٰ نگہبان کرتی ہے۔

اگرچہ صدر عوامی ووٹوں سے منتخب ہوتا ہے اور اسے جہموریہ اسلامی کے صدر کی حیثیت سے تمام پروٹوکول ملتا ہے، لیکن اس کے اختیارات کو آئین نے کم کر دیا ہے۔ شاید ایران واحد ملک ہے جہاں مسلح افواج کا کنٹرول انتظامیہ کے پاس نہیں ہے۔

رہبر اعلیٰ اور ایران کی مسلح افواج

ایران کی مسلح افواج میں سپاہِ پاسداران انقلاب، اور اس کے بری، بحری اور فضائیہ کے دستوں کے علاوہ القدس نامی سٹریٹجک فورس بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ ایران کی روایتی مسلح افواج بھی جنھیں ‘ارتشِ ایران’ (مسلح افواجِ ایران) کہا جاتا ہے وہ بھی ایران کی کی کل فوجی طاقت کا حصہ ہیں۔ ان تمام مسلح افواج کے سپریم کمانڈر رہبرِ اعلیٰ ہیں اور وہی ان کے سربراہو ں کا تقرر کرتے ہیں۔

رہبر اختیارات

انقلاب کے فوراً بعد آت اللہ خمینی نے رضا کاروں پر مشتمل ایک تنظیم بنانے کا اعلان کیا تھا جس کے آج ایک کروڑ سے زیادہ ارکان ہیں

کہا جاتا ہے کہ ایران میں رضاکاروں کی تعداد ایک کروڑ سے بھی زیادہ ہے جسے ’بسیج‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے قیام کا اعلان آیت اللہ خمینی نے کیا تھا اور اس کا مقصد ’انقلابِ اسلامی کو محفوظ بنانا تھا‘۔ یہ ‘نیروی مقاومت بسیج’ کے نام سے بھی جانی جاتی ہے لیکن اس کا سرکاری نام ‘سازمان بسیج مستضعفین’ ہے۔

ابتدا میں تو یہ ایک آزاد ادارہ تھا لیکن بعد میں اسے پاسدارن انقلاب کا حصہ بنا دیا گیا۔ اس کے سربراہ کی تقرری بھی رہبر کرتے ہیں۔ بسیج کی انتظامیہ کا ایک سٹاف ہے جسے ریاستی ملازم کے طور پر تنخواہ ملتی ہے لیکن اس کے عام رضاکار بغیر تنخواہ کے کام کرتے ہیں۔‎

اختتامیہ

ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک ایرانی سکالر کے مطابق ایرانی معاشرے کا سیاسی اور آئینی سفر جاری ہے۔ موجودہ رہبر کی عمر اور صحت کے مسائل کی وجہ سے ایران کو جلد یا بدیر ایک نئے رہبر کا انتخاب کرنا ہوگا۔ ایران کے باخبر سیاسی حلقوں میں بلاواسطہ طور پر منتخب رہبر کے اختیارات اور براہِ راست عوامی ووٹوں سے منتخب ہونے والے صدر کے اختیارات کی تقیسم پر بحث بھی ہو رہی ہے۔

اگر ایرانی تاریخ کو دیکھا جائے تو اختیارات اور طاقت کے محور میں تبدیلی لائے جانے کے امکانات موجود ہیں۔ منطقی طور پر تبدیلی کا پینڈولم کبھی ایک طرف جاتا ہے تو کبھی دوسری طرف۔ لیکن ایرانی نظام کس حد تک موجودہ تسلسل سے ہٹنا پسند کرے گا یا نہیں اس کا تعین ایک حد تک بیرونی عناصر اور طاقتیں کریں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32503 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp