امریکہ طالبان مذاکرات: مائیک پوپمپیو ’اہم پیشرفت‘ کا دعویٰ


امریکہ

مائیک پومپیو

امریکہ کے سکیریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے دعویٰ کیا ہے کہ حالیہ دنوں میں افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔

امریکی سکیریٹری دفاع مارک اسپر پہلے ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ انھوں نے ہفتے بھر کے لیے پرتشدد کارروائیوں میں کمی سے متعلق ایک تجویز پر بات چیت کی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

افغانستان میں امن کب آئے گا؟

امریکہ، طالبان امن مذاکرات منسوخ کیوں ہوئے؟

’طالبان امریکہ مذاکرات قدم بہ قدم آگے بڑھ رہے ہیں‘

خیال رہے کہ دونوں فریقین بہت عرصے سے افغانستان میں 18 برس سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں۔

اس عرصے کے دوران ان کو کئی چیلنجز کا سامنا بھی رہا ہے۔ گذشتہ ستمبر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ مذاکرات اپنی موت مر چکے ہیں۔

اب جمعرات کو مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ امریکی صدر نے طالبان کے ساتھ مذاکرات آگے بڑھانے کے لیے کہا ہے۔ انھوں نے حالیہ دنوں ان مذاکرات میں ہونے والی پیش رفت کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بات چیت بہت ہی پیچیدہ نوعیت کی ہے اور ابھی تک امن معاہدے تک بات نہیں پہنچ سکی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ہمیں امید ہے کہ ہم پرتشدد کارروائیوں میں صرف کاغذ پر ہی نہیں بلکہ حقیقت میں بڑی حد تک کمی لا سکتے ہیں۔ اگر ہم اس منزل پر پہنچ سکے اور ہم اس صورتحال کو کچھ عرصے کے لیے ایسے ہی برقرار رکھ سکے تو پھر ہم افغان عوام کی امنگوں کے مطابق صحیح معنوں میں مفاہمت کے لیے سنجیدہ بات چیت کے دور کا کا آغاز کرنے کے قابل ہو جائیں گے جس میں تمام افغان شریک ہوں گے۔‘

واضح رہے کہ مائیک پومپیو کا یہ تبصرہ امریکی سکیریٹری دفاع کے میڈیا کے نمائندوں کو ایک ہفتے کے لیے پرتشدد کارروائیوں میں کمی کی تجویز سے متعلق بریفنگ کے بعد سامنے آیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے ایک سیاسی معاہدے کو ہی افغان مسئلے کا بہترین حل قرار دیا۔ اس معاملے میں خاصی پیش رفت ہوئی ہے اور جلد ہم اس پر مزید کچھ کہنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ اگر ہم مذاکرات میں اسی طرح آگے بڑھتے رہے تو یہ (افغانستان میں امن بحالی) مذاکرات مرحلہ وار بات چیت مسلسل آگے بڑھتی رہے گی۔

ابھی اس متعلق تفصیلات سامنے نہیں آئیں کہ پرتشدد کارروائیوں میں عارضی وقفہ کب سے شروع ہو گا تاہم ایک طالبان رہنما نے خبررساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا ہے کہ تشدد میں کمی والے (معاہدے) کا اطلاق جمعے سے ہوگا۔

افغانستان سے امریکی فوجی نکالنا صدر ٹرمپ کا اہم ہدف رہا ہے۔ سنہ 2001 میں افغانستان سے طالبان حکومت کی بیدخلی کے لیے امریکی حکومت کی مداخلت کے بعد 13000 امریکی فوجی افغانستان میں موجود رہے۔

امن مذاکرات میں پیش رفت کیسے ممکن ہو سکی؟

خیال رہے کہ دسمبر 2018 میں طالبان نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ امریکی حکام سے مل کر افغانستان میں قیام امن کی کوشش کریں گے۔ تاہم طالبان نے افغان حکومت کو امریکی کٹھ پتلیاں کہتے ہوئے ان سے مذاکرات سے انکار کر دیا۔

قطر میں مذاکرت کے نو ادوار کے بعد بظاہر فریقین امن معاہدے کے بہت قریب پہنچ گئے تھے۔ ستمبر میں واشنگٹن کے ایک اعلیٰ رہنما نے جو مذاکرات میں پیش پیش تھے طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے تناظر میں افغانستان سے بیس ہفتوں تک 5400 فوجی نکالنے کا اعلان کیا تھا۔

لیکن اس اعلان کے کچھ دنوں بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس وقت امن مذاکرات کے خاتمے کا اعلان کیا تھا جب طالبان نے امریکی فوجی کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری قبول کی۔

امریکی صدر نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ (طالبان) یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کچھ لوگوں کو مار کر مذاکرات میں اپنی پوزیشن بہتر کر لیں گے تو پھر وہ بہت بڑی غلطی پر ہیں۔

جب سے امن مذاکرات ختم ہوئے تب سے لڑائی جاری رہی۔ طالبان نے خبردار کیا تھا کہ بات چیت ختم کرنے کے اعلان کا سب سے زیادہ نقصان امریکہ کو ہو گا۔

جمعرات کو امریکہ کی طرف سے مذاکرات میں پیش رفت کا اعلان افغان صدر اشرف غنی کے اس بیان کے بعد آیا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ انھیں یہ اطلاع دی گئی ہے کہ جن مذاکرات میں ان کی حکومت شامل نہیں ان میں خاطر خواہ پیش رفت ہوئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp