شطرنج کے کھیل کا عجب منظر


ایک بڑے ہال کا منظر ہے۔ قریب دو سو میزیں دھری ہیں۔ قطار در قطار بنی کھڑکیوں سے سرما کی سنہری دھوپ جھانک رہی ہے۔ ہر میز پر شطرنج کی بساط بچھی ہے۔ کھلاڑی پرجوش ہیں۔ جو جیتا وہی سکندر۔ اس لئے پہلے سے کھیل کے قواعد طے کر لئے گئے ہیں۔ مقابلہ شروع ہوا تو عجب ہڑبونگ مچی تھی۔ لیکن آہستہ آہستہ معاملات درست ہوتے گئے۔ کچھ سیانے اکٹھے ہوئے اور سب کی مشاورت سے کھیل کی قواعد طے کر دیے۔ اگرچہ ان قواعد کو انہوں نے اپنی ہی بساط پر لاگو گیا، لیکن دھیرے دھیرے انہیں دیکھ کر اردگرد کے کھلاڑیوں نے بھی انہی قواعد کی پیروی شروع کر دی۔

سب کچھ لکھ لیا گیا تا کہ بعد میں کسی کو کوئی غلط فہمی نہ ہو۔ بادشاہ، غلام، پیادے، سب کی چالوں کا تعین کر دیا گیا۔ عجب بات یہ تھی، کہ ہر میز پر کھلاڑی بدلتے رہے۔ کھیل چونکہ بہت طویل تھا، اس لئے کھلاڑی کسل مندی کا شکار ہوتے تو اپنی جگہ نئے کھلاڑیوں کو بھیج دیتے۔ ہر کھلاڑی نے اپنے ساتھ ایک چوکیدار بھی رکھا ہوا تھا کہ ارد گرد کے کھلاڑی مقابلے اور نفرت کی آگ میں جھلس کر اس کی بساط نہ بکھیر دیں۔ چوکیدار بھی اپنی ڈیوٹی پوری کرنے کے بعد اپنی جگہ نئے مستعد محافظ کو بھیج دیتے اور یوں لوگوں کے آنے جانے سے کھیل کو کوئی فرق نہ پڑتا۔

مزے کی بات یہ تھی کہ ہر میز پر ایک ہی کھلاڑی تھا، اس کا مقابلہ اپنے آپ سے تھا، یا یوں کہئے کہ اپنی قسمت سے تھا۔ مسابقت تھی تو دیگر میزوں پر بچھی بساط سے تھی کہ کون پہلے اپنا راؤنڈ پورا کرتا ہے۔ کھیل غیرمعین اوقات تک کھیلا جا رہا تھا۔ کئی میزوں پر بچھی بساط سینکڑوں راؤنڈ طے کر چکی تھیں، ان میزوں کی شان ہی نرالی تھی۔ کھلاڑیوں کے خوبصورت لباس، صاف ستھری رنگت اور مہذب انداز۔ کھانے پینے کا مناسب انتظام تا کہ کھلاڑی آلکس کا شکار نہ ہو جائیں۔

اب رنگت تو خدا کی دین ہے، لیکن عجب بات تھی کہ کالی، بھوری اور زرد رنگت والے زیادہ تر کھلاڑی آلکس کا شکار تھے۔ کھانے پینے پر جھگڑتے ہوئے، کھیل کے قواعد کو پامال کرتے ہوئے، اپنے محافظوں سے جھگڑتے ہوئے۔ کھانے پینے کی تمیز نہ بات کرنے کا سلیقہ۔ نتیجہ یہ کہ بساط بکھری ہی رہتی، کوئی چال غلط ہوتی تو ریفری دوبارہ زیرو سے شروع کروا دیتا۔

تھوڑا آگے بڑھے تو ایک میز کچھ اپنی اپنی سی لگی۔ کھلاڑی کی وضع قطع ہمارے جیسی تھی، ساتھ نہایت چوکنا محافظ۔ یقین ہو گیا کہ یہ میز اپنی ہی ہے تو ہم ایک سٹول کھسکا کر ساتھ بیٹھ گئے اور لگے بساط کا معائنہ کرنے۔ برابر کی میز بھی قریب ویسی ہی تھی، لیکن وہ ہم سے کئی راؤنڈ آگے پہنچ چکے تھے۔ شطرنج کو غور سے دیکھنا شروع کیا تو حیرت کے جیسے آسمان ٹوٹ پڑے۔ ایک ایک چال کا غلط۔ اندازہ لگایا کہ نگہبان کھیل میں مداخلت کر رہا ہے جس سے نہ صرف کھیل خراب ہو رہا ہے بلکہ برابر والی میز کا کھلاڑی موقع پا کر ہمارا ایک آدھ مہرہ ادھر ادھر کر دیتا۔

تبھی سمجھ میں آیا کہ ہم کیوں دیگر میزوں کے کھلاڑیوں سے پیچھے رہ گئے۔ فوراً کھلاڑی کو سمجھانے کی کوشش کی تو نگہبان نے غضبناک نگاہوں سے گھورا۔ ہم فوراً سمٹ کر بیٹھ گئے اور دوبارہ مداخلت سے توبہ کر لی۔ اتنے میں کیا دکھتے ہیں کہ محافظ کی نگاہ ادھر ادھر ہوئی تو کھلاڑی نے ایک چال خود سے چل لی۔ ہمیں لگا کہ اب بساط درست ہو جائے گی، لیکن نگہبان نے فوراً کھلاڑی کو اٹھا کر توتکار شروع کر دی اور ہال سے نکال دیا۔

فوراً ایک اور کھلاڑی کو بلایا جس نے آکر بساط کا کنٹرول سنبھال لیا۔ لیکن یہ کیا، یہ تو نہایت ہی بودا کھلاڑی تھا۔ آتے ہی وہ اتھل پتھل کر دی کہ ارد گرد کی کسی میز پر بساط اتنی بری حالت میں نہ تھی۔ کچھ مہروں کو کھسکایا، کچھ کو لڑھکایا۔ پیادوں کو اٹھا کر بادشاہ کی جگہ رکھ دیا اور بادشاہ کو پیادوں کی۔ چند لمحوں میں کھیل کے قواعد کا ستیا ناس کر کے رکھ دیا۔

ہم نے فوراً دل میں دعا کرنی شروع کر دی کہ جلدی سے نگہبان کی ڈیوٹی پوری ہو کہ اس کے ہوتے ہوئے کھیل میں بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آتی تھی۔ قریب تین گھنٹوں بعد نگہبان کی ڈیوٹی پوری ہوئی، لیکن یہ کیا۔ کھلاڑی نے چوکیدار کی ڈیوٹی میں مزید تین گھنٹوں کا اضافہ کر دیا۔ اب یہ عقدہ کھلا کہ کیوں چوکیدار نے اتنے بہترین کھلاڑیوں میں سے اس نکمے کھلاڑی کا انتخاب کیا تھا۔ حالانکہ یہ چوکیدار کا کام نہیں تھا، لیکن کیوں کہ چوکیدار کا کنٹرول اتنا سخت تھا کہ پوری ٹیم میں سے کسی کو چوں کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔

دوسری طرف مقابلہ اتنا سخت تھا اور وقت انتہائی قلیل۔ ریفری سے سکور چیک کیا تو پتہ چلا کہ ہماری میز پر ابھی تین چار راؤنڈ ہی مکمل ہوئے تھے۔ جبکہ برابر کی میز پر شطرنج کے بچیس راؤنڈ ہو چکے تھے۔ کئی میزوں پر تو دو دو سو راؤنڈ بھی کھیلے جا چکے تھے۔ استفسار پر پتہ چلا کہ چار مرتبہ ہمارے چوکیداروں نے کھلاڑیوں کو چلتا کر کے خود کھیل کھیلنا شروع کر دیا۔ چاروں مرتبہ ریفری نے کھیل زیرو سے دوبارہ شروع کروایا۔ صورتحال انتہائی مایوس کن تھی۔ جیتنا تو دور کی بات، اگر اگلے چند گھنٹوں میں کوئی اچھا کھلاڑی نہ آیا تو خدشہ تھا کہ ریفری ہماری میز ہی اٹھا کر ہال سے باہر پھینک دیں گے۔

مایوسی میں ہم نے ٹہلنا شروع کر دیا۔ ارد گرد کی میزوں پر نظر کی، کچھ میزوں پر ہماری نقل کی جا رہی تھی، جبکہ زیادہ تر میزوں پر صورتحال ہم سے کہیں بہتر تھی۔ بائیں جانب بڑھے، تو عجب ہی منظر تھا۔ ان کھلاڑیوں میں دولت کی فراوانی ان کے لباس سے عیاں تھی، شطرنج اور مہرے تک سونے کے بنے ہوئے تھے، محافظ برائے نام تھے۔ کھلاڑی دیکھنے میں تو ہٹے کٹے نظر آتے تھے لیکن پچاس پچاس گھنٹے سے کھیل سے چپکے ہوئے تھے۔ نتیجہ وہی کہ ان کی بساط آگے نہیں بڑھ پا رہی تھی، ہر چند لمحوں کے بعد صفر سے شروع ہوتی۔

ہم واپس پلٹ کر اپنی میز پر آگئے۔ کھلاڑی پورے ہال کے کھلاڑیوں کو للکار رہا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ ابھی کوئی معجزہ اس کے ہاتھ سے برپا ہو گا، اور ہم سب سے آگے ہوں گے۔ لیکن کھیل میں پورا اناڑی تھا۔ چند لمحوں میں ہی شطرنج کا برا حال کر دیا تھا۔ بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آتی تھی۔ محافظ کو دیکھا تو وہ اپنی شادمانی پر مسرور نظر آتا تھا۔ چند لمحے بعد کنکھیوں سے بساط کو دیکھتا تو کھسیانا سا ہو جاتا، لیکن پھر سے دوسرے محافظوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتا تو اس کا چہرہ کھلکھلا اٹھتا۔

عجب سراسیمگی تھی جس نے ہمارے بدن کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ کھیل کے نتائج کا سوچ کر ایک جھرجھری سے آگئی۔ پیشانی پر ہاتھ پھیرا تو پسینے سے شرابور۔ پریشانی کے اس عالم میں یک دم منظر دھندھلانے لگا۔ غور سے دیکھنے کی کوشش کی تو لگا ہم کسی اور دنیا میں ہیں۔ ایک جھٹکے سا لگا، آنکھیں کھولیں تو ادراک ہوا کہ یہ سب ایک خواب تھا۔ سکون کا سانس لیا، لیکن سانس گلے میں ہی اٹک گیا۔ خیال آیا کہ کیا واقعی یہ سب ایک خواب تھا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments