ڈریسڈن بمباری کے 75 برس: دوسری جنگ عظیم میں جرمنی پر اتحادی افواج کی بمباری سے تاریخی شہر تباہ ہوا
’یہ آگ کا طوفان ناقابلِ یقین ہے۔۔۔ مجھ پر شدید خوف طاری ہو گیا اور میں نے لگاتار خود سے صرف ایک ہی جملہ کہا ’مجھے جل کر نہیں مرنا۔‘ مجھے علم نہیں آگے بڑھنے کے لیے مجھے کتنے لوگوں کے اوپر سے گزرنا پڑا مجھے صرف اتنا پتا تھا کہ مجھے ہر گز جلنا نہیں ہے۔‘
فروری 13 سنہ 1945 کو ایک برطانوی طیارے نے جرمنی کے مشرقی شہر ڈریسڈن پر حملہ کیا۔ اس کے بعد کئی دنوں تک برطانیہ اور امریکہ نے شہر پر مجموعی طور پر چار ہزار ٹن گولے برسائے۔
اس سے پیدا ہونے والے آگ کے طوفان میں 25 ہزار افراد ہلاک ہوئے، شہر کا وسطح حصہ تباہ ہو گیا اور فضا سے آکسیجن ختم ہونے کے باعث ان شعلوں سے بچ کر بھاگنے والے افراد بھی دم گھٹنے سے ہلاک ہونے لگے۔
ڈریسڈن کوئی غیر معمولی شہر نہیں تھا۔ اتحادی افواج کے لڑاکا طیاروں کی بمباری سے ہزاروں افراد ہلاک اور ایک بڑا علاقہ تباہ ہوگیا۔ صرف یہی نہیں جرمنی کے شہروں کولون، ہیمبرگ اور برلن جبکہ جاپان کے شہروں ٹوکیو، ہیروشیما اور ناگاساکی میں بھی بمباری کی گئی۔
یہ بھی پڑھیے
جنگ عظیم دوئم: ’منزانر کے بھوت‘ کی لاش دریافت
انڈیا، پاکستان کے درمیان ایٹمی جنگ ہوئی تو۔۔۔
تاہم یہ بمباری اتحادی افواج کی جانب سے دوسری جنگِ عظیم میں کیے جانے والے سب سے زیادہ متنازع کارروائیوں میں سے ایک تھی۔
ناقدین ڈریسڈین شہر کی عسکری اہمیت پر سوال اٹھاتے ہیں۔ برطانوی وزیرِ اعظم ونسٹن چرچل نے حملوں کے فوراً بعد انھیں مشکوک قرار دیا تھا۔
انھوں نے ایک یادداشت میں لکھا کہ ’مجھے ایسا لگتا ہے کہ وہ وقت آن پہنچا ہے کہ ہم جرمن شہروں پر صرف دہشت بڑھانے کی غرض سے کی جانے والی بمباری پر نظر ثانی کریں۔
ڈریسڈن کی تباہی اتحادی افواج کی جانب سے کی جانے والی بمباری پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
انتباہ: اس تحریر میں ایسی تصاویر ہیں جو آپ کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہیں۔
ڈریسڈن جرمن ریاست سیکسنی کا دارالحکومت ہے۔ بمباری سے قبل اس شہر کو ایلب دریا کے کنارے فلورنس نما شہر یا زیورات کا ڈبہ کہا جاتا تھا کیونکہ یہاں کا موسم اور طرزِ تعمیر منفرد ہے۔
فروری سنہ 1945 تک ڈریسڈن مشرقی کنارے سے صرف 250 کلو میٹر کی دوری پر ہی تھا جہاں نازی جرمنی جنگ کے اختتامی مہینوں میں سوویت یونین کی پیش قدمی کرتی افواج سے اپنا دفاع کر رہی تھیں۔
یہ شہر نقل و حمل اور صنعتی پیداوار کے حوالے سے اہم تھا۔ اس شہر میں موجود متعدد فیکٹریوں سے نازیوں کو گولا بارود فراہم کیا جاتا تھا۔ افواج، ٹینک اور آرٹلری بذریعہ سڑک اور ٹرین ڈریسڈن سے ہوتے ہوئے گزرتے تھے۔ ہزاروں جرمن پناہ گزین جنگ سے بچ کر اسی شہر میں ٹھہرے ہوئی تھے۔
اس وقت برطانیہ کی رائل ایئرفورس نے کہا تھا کہ یہ اب تک کا جرمنی کا سب سے بڑا شہر ہے جس پر بمباری کی گئی ہے۔
اس وقت کے ایئر چیفز کا ماننا تھا کہ ڈریسڈن میں حملے سے ان سوویت اتحادیوں کی مدد ہو سکتی ہے۔ ایسا کرنے سے نازی افواج کی نقل و حمل کو بھی روکا جا سکتا ہے اور جرمنی کے مشرقی شہروں سے نقل مکانی کو بھی۔
جنگ شروع ہونے کے پانچ برس بعد آر اے ایف کے بمبار طیاروں نے جرمن شہروں پر حملوں کی تعداد اور شدت میں اضافہ کیا۔
ان طیاروں میں بھاری مقدار میں آتش گیر مواد اور گولا بارود موجود تھے۔ یہ دھماکہ خیز مواد عمارتوں کے پرخچے اڑانے کی صلاحیت رکھتا تھا جبکہ گولا بارود سے تباہی کے بعد آگ لگ جاتی ہے۔
اس سے قبل ہونے والے حملوں میں پورے کے پورے شہر تباہ ہو چکے ہیں۔ جولائی سنہ 1943 میں آر اے ایف کے سینکڑوں بمبار طیاروں نے شہر ہیمبرگ پر حملے کی تیاری کی اور اس آپریشن کو گوموراہ کا نام دیا۔
اس کے بعد ہونے والے حملے اور خشک اور گرم موسم کے باعث طوفانِ آتش کی شروعات ہوئی۔ یہ آگ اتنی تیزی سے بھڑکی کہ اس نے ہواؤں کو اپنا ایندھن بنا لیا جس سے تمام شہر تباہ ہو گیا۔
ڈریسڈن پر ہونے والا حملہ 13 فروری سنہ 1945 کی رات کو ہوا۔ تقریباً 800 آر اے ایف طیاروں نے اس کارروائی میں حصہ لیا۔ اس حملے کی سربراہی راستہ ڈھونڈنے والوں نے کی جنھوں نے بمباری کی جگہ کی نشاندہی کی اور اس کا مرکز آسٹراگہیگ سپورٹس سٹیڈیم ہو گا۔
برطانوی طیاروں نے صرف 25 منٹ کے عرصے میں 1800 ٹن سے زائد گولے برسائے ہیں۔
جنگ کے دنوں کے معمول کے مطابق امریکی طیاروں نے دن کے وقت حملے کیے۔ امریکہ کے 520 سے زائد لڑاکا طیارے دو دن تک ڈریسڈن کی جانب گئے۔ ان کا ہدف ریلوے کی تنصیبات تھیں لیکن حقیقت میں انھوں نے شہر کے ایک بڑے حصے پر حملے کیے۔
زمین پر سویلینز اس حملے سے بچنے کے لیے پناہ کی تلاش کرتے رہے۔ بہت سارے افراد نے تہہ خانوں میں پناہ لے لی۔
تاہم حملے کی پہلے مرحلے کے بعد بجلی چلی گئی۔ اس کے بعد کچھ افراد پناہ گاہوں سے باہر نکلے تو ساتھ ہی شہر پر دوسرا حملہ کیا گیا۔
آگ سے دور بھاگتے ہوئے بہت سارے افراد گر کر مر گئے کیونکہ اس طوفان آتش نے ان کے پھیپھڑوں میں سے آکسیجن ہی کھینچ لی۔ عینی شاہد مارگریٹ فریئر نے ان ایک ماں کو اپنے بچے کے ساتھ بھاگتے دیکھا اور ان لمحات کو کچھ اس طرح بیان کیا: ’وہ بھاگیں، وہ گریں اور ان کے پاس موجود بچہ آگ میں کہیں گم ہو گیا ۔۔۔ یہ خاتون زمین پر مکمل ساکت ہو کر پڑی رہی۔‘
کرٹ وونیگٹ اس بمباری میں محفوظ رہے اور ڈریسڈن سے ایک جنگی قیدی کے طور پر نکالے گئے۔
انھوں نے اپنی کتاب ’سلاٹرہاؤس فائیو‘ میں لکھا کہ ’ڈریسڈن آگ کا ایک بڑا شعلہ تھا۔ اس ایک شعلے نے اس سب کو بھسم کر دیا جو آرگینک تھی، یا جل سکتی تھی۔‘
انھوں نے حملے کے بعد شہر کی حالت بیان کرتے ہوئے اسے چاند کی ماند قرار دیا ’جس پر مادنیات کے علاوہ کچھ نہیں۔ پتھر بھی گرم تھے اور شہر میں ہر کوئی مر چکا تھا۔‘
اس حملے میں برطانیہ کے چھ لڑاکا طیارے گرے جن میں سے تین حادثاتی طور پر ایک دوسرے سے ٹکرا گئے جبکہ امریکہ کو ایک طیارے کا نقصان ہوا۔
نازی جرمنی نے ان حملوں کو اتحادی افواج پر تنقید کے لیے استعمال کیا۔ جرمنی کی وزارتِ پروپیگینڈا نے دعویٰ کیا کہ ڈریسڈن میں کوئی عسکری صنعت نہیں تھی بلکہ یہ تو ایک ثقافتی شہر تھا۔
مقامی حکام کے مطاق ان حملوں میں 25 ہزار افراد ہلاک ہوئے اور ان اعداد و شمار سے مؤرخین بھی متفق ہیں۔ تاہم نازیوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اس حملے میں دو لاکھ سویلین اموات ہوئیں۔
برطانیہ میں ڈریسڈن ایک سیاحتی مقام کے طور پر جانا جاتا تھا اور کچھ رکنِ پارلیمان اور مقبول شخصیات نے اس حملے کی اہمیت پر سوال اٹھائے۔
اس وقت خبر رساں ایجنسی اے پی میں چھپنے والی خبر کے مطابق اتحادیوں کی اس دہشت انگیز بمباری سے خوف میں اضافہ ہو رہا ہے۔
امریکہ اور برطانیہ میں عسکری منصوبہ بندی کرنے والے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اس وقت کے حالات کے حساب سے اس حملے کا جواز موجود تھا اسی طرح جس طرح جرمنی کے دیگر شہروں پر حملوں کا جواز موجود تھا۔ ان حملوں سے صنعتوں اور وہاں کام کرنے والوں کے گھروں کی تباہی اور ٹرانسپورٹ میں خلل پیدا کرنا ضروری تھا۔
سنہ 1953 میں اس بماری پر امریکی تحقیاتی رپورٹ کے مطابق اس حملے کے باعث شہر کی 23 فیصد صنعتی عمارتوں کو نقصان پہنچا اور 50 فیصد رہائشی علاقوں کو۔ تاہم اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ڈریسڈن ایک ’مناسب عسکری ہدف‘ تھا اور اس حملے میں کی جانے والی بمباری پہلے سے طے شدہ بمباری کی پالیسی کے عین مطابق تھی۔
اتحادیوں کی جانب سے کی جانے والی بمباری کی اس مہم پر آج بھی بحث جاری ہے۔ مؤرخین سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا اس حملے سے تباہ ہونے والے شہروں کے باعث نازیوں کو جنگی نقصان ہوا یا صرف سویلین اموات ہوئیں خاص طور پر جب یہ جنگ کا اختتام تھا۔
ناقدین کا خیال ہے کہ یہ اتحادیوں کی اخلاقی ناکامی تھی یا ایک جنگی جرم تھا تاہم اس حملے کے حامیوں کے نزدیک یہ نازی جرمنی کو جنگ میں مکمل شکست دینے کے لیے ضروری تھا۔
ڈی ڈے پر کیے جانے والے حملے کے برعکس ڈریسڈن پر کی جانے والی بمباری کے حوالے سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ اس کے باعث جنگ جیتنے میں کتنی مدد ملی۔
یہ حملہ دائیں بازو کے کارکنوں کے سازشی نظریات کی علامت بن گیا ہے جن میں ہولوکاسٹ کی نفی کرنے والے بھی شامل ہیں اور شدت پسند بھی۔
ان میں سے کچھ افراد نے تو اس حملے میں نازیوں کی ہلاکتوں کی تعداد کے اعداد و شمار کے بارے میں بات کرتے ہیں اور اس حملے کو ہر سال باقاعدگی سے یاد بھی کرتے ہیں۔
75 برس بعد بھی ڈریسڈن پر کی جانے والی بمباری ایک متنازع واقعہ ہے۔
.
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).