گلگت بلتستان کے نوجوانوں کو سرکاری نوکریوں سے جواب مل گیا


پاکستان کی وفاقی سطح کی ملازمتوں میں اب گلگت بلتستان کو ایک فیصد حصہ ملا کرے گا۔ یہ اس حکومت کا کارنامہ ہے جو ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کر کے آئی تھی۔ عمران خان کی حکومت نے گلگت بلتستان کے نوجوانوں پر اعلی، پُرکشش انتظامی عہدوں کا در بند نہیں کیا ہے بلکہ دروازہ ہی توڑ کر اس کی جگہ دیوار کھڑی کر دی ہے۔ اور یہ دو چار سالوں کے لئے نہیں بلکہ دوچار دہائیوں کے لئے ہے۔

جب وفاقی ملازمتوں کی بات ہوتی ہے تو اکثر لوگوں کا ذہن صرف سی ایس ایس کی طرف جاتا ہے۔ گلگت بلتستان کے سی ایس ایس اسپائرنٹس تو ہیں ہی نا انصافی حکومت کے فیصلے پر مایوسی کا شکار، لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ سی ایس ایس کے علاوہ بھی بے شمار ملازمتوں کے مواقع تھے جن کے دروازے عمران خان حکومت نے گلگت بلتستان والوں کے لئے مقفل کر دیے ہیں۔

فیڈرل پبلک سروس کمیشن ہر مہینے مختلف اداروں، محکموں اور وزارتوں کے لئے ملازمتیں مشتہر کرتا ہے۔ یہ مقابلے کے امتحان سے ہٹ کے ٹیسٹ ہوتے ہیں جنہیں ”جنرل ریکروٹنمنٹس“ کہا جاتا ہے، جیسے ایف آئی اے، ریلوئے، فیڈرل کالجیٹ اور بہت سے ادارے جن میں ملازمتوں پر بھرتیوں کا عمل ایف پی ایس سی کے تحت ایک رواں سسٹم کے مطابق سال بھر جاری رہتا ہے۔

ہر مہینے کے پہلے اتوار کو مشتہر ہونے والی مختلف اداروں کی پوسٹوں میں اب گلگت بلتستان کے ایک فیصدی کوٹے کی کیا صورت ہو گی؟ اس کے لئے ضروری ہے کہ کسی ادارے میں ملازمتوں کی تعداد کم از کم تھری فگرز میں ہوں۔ جیسے اگر کسی محکمے میں 45 سیٹیں پُر کرنی ہوں تو گلگت بلتستان کا حصہ زیرو ہو گا کیونکہ 45 سیٹوں کا ایک فیصد کوئی کوٹا ہی نہیں بنتا۔ بالفاظ دیگر یہ کہ ہر مہینے مشتہر ہونے والی بے شمار پوسٹوں پر قسمت آزمائی کا موقع عمران خان نے خطہ بے آئین کے جوانوں سے چھین لیا ہے۔

جہاں تک سی سی ایس کی بات ہے تو اب ہر سال گلگت بلتستان سے صرف 2 امیدوار ہی پاکستان کے سب سے بڑے مقابلے کے امتحان کو کولیفائی کر پائیں گے، حالانکہ پنجاب کے بعد سی ایس ایس میں سب سے تگڑا مقابلہ گلگت بلتستان کی سیٹوں کے لئے ہوتا ہے۔

فاٹا اور جی بی کے کوٹے کو تقسیم کرنا ہی تھا تو کم از کم 2 فیصد کوٹا کا حقدار گلگت بلتستان بھی ہوتا، کیونکہ کوٹا سسٹم کا فلسفہ ہی یہی ہے کہ محروم علاقوں کو متناسب مواقع دیے جائیں۔ لیکن یہ ریاست مدینہ ہے جس کے حکمران نوکری والوں سے نوکریاں اور نوکری پر لگنے کے لائق نوجوانوں سے نوکری کے مواقع چھین رہے ہیں۔

ڈاکٹر سکندر علی زرین

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر سکندر علی زرین

سکندر علی زرین کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ ماس کمیونیکیشن کے پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ گزشتہ دس برس سے جیو نیوز سے بطور ایسوسی ایٹ اسائنمنٹ ایڈیٹر منسلک ہیں۔ گلگت بلتستان کے اخبارات کے لیے رپورٹنگ کرتے ہیں اور کالم بھی لکھتے ہیں۔ سیاست، تاریخ، اردو ادب، ابلاغیات ان کے پسندیدہ میدان ہیں

sikander-ali-zareen has 45 posts and counting.See all posts by sikander-ali-zareen

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments