ایک سفر جو دل میں ٹھہر گیا‎


آخری تحریر قلم بند کرنے کے بعد اہل خانہ کے ساتھ عمرہ کو روانہ ہو گیا تھا۔ بہت سوچا کہ اس عبادت کے بارے میں کچھ لکھوں مگر سچی بات ہے کہ جذبات کے سامنے الفاظ بے بس ہیں۔ الفاظ کی تمام جادوگری مل کر بھی اس کیفیت کو بیان کرنے سے قاصر ہے جو کسی مسلمان پر اس وقت طاری ہوتی ہے جب اسے مدینہ کی مہربان ہوائیں اپنی آغوش میں لے لیں یا مکہ مکرمہ کا جلال اس کے سامنے ہو لہذا اس تحریر میں خود کو محض ان دنیاوی تجربات تک محدود رکھوں گا جو ایک طالب علم کا مشاہدہ ہیں۔

پہلی بات جو میری سمجھ سے باہر تھی اور ہے کہ مسجد نبوی اور کعبہ کے چاروں اطراف جن ہوٹلوں کی سہولت میسر ہے وہ قریب سب کے سب فائیو سٹار یا اس سے بھی اوپر ہیں۔ دوسرے الفاظ میں حرم پاک میں عبادت کی آسانی اور قریب ہونے کی سہولت محض امیروں کے لئے ہے۔ عبادت گزاروں کی غریب یا مڈل کلاس اکثریت ان ہوٹلوں میں قیام کرنے پر مجبور ہوتی ہے جو حرمین شریفین سے کافی فاصلے پر ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معذور اور معمر عازمین عمرہ نہایت مشکل اٹھا کر حرم پہنچتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں امیر کے لئے سہولت اور غریب کو شدید مشقت۔ یہ طریقہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے عین برعکس ہے۔

لازمی امر ہے کہ مذہبی سیاحت سے پیسہ کمایا جاتا ہے مگر اس سیاحت اور عام سیاحت میں زمین آسمان کا فرق ہے اس لئے حرمین کے قریب واقع احاطے کو پلان کرتے وقت اگر یہ خیال رکھا جاتا کہ پچاس فی صد جگہ بڑے برانڈز کے ہوٹلوں کے لئے مختص کی جاتی جبکہ باقی پچاس فی صد جگہ پر قیام کا سادہ بندوبست ہوتا جہاں ترجیح ان عازمین کو دی جاتی جو معمر اور معذور تو ہیں مگر امیر نہیں تو یہ اسلامی احکامات اور تعلیم کے زیادہ قریب ہوتا۔

دوسری حیرت یہ کہ حرمین شریفین کے گردونواح کے بازاروں میں عازمین کو اسی طرح شکار کی نظر سے دیکھا جاتا ہے جس طرح دیگر عام سیاحتی مقامات پر۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ عازمین تسبیح، جائے نماز، عطر اور کھجوریں باقی شہر سے دس گنا زیادہ قیمت پر خریدنے کو مجبور ہیں۔ سعودی حکومت کے لئے ان دونوں مسائل کو حل کرنا کوئی معنی ہی نہیں رکھتا لیکن مسلہ ترجیحات کا ہے۔

دوسری جانب میری حیرت کا ٹھکانہ نہیں رہتا تھا جب میں حرمین کے مقدس احاطے میں سینکڑوں عازمین کو ماڈلنگ کرتا دیکھتا۔ اپنی تو حالت یہ تھی کہ موبائل کا لوکل سم تک لینے کی ہمت نہ کر سکا کہ ہوٹل میں وائی فائی چلتا تھا اور وہاں سے باہر حرم پاک جانا ہوتا تھا پھر موبائل فون کا میں نے کیا کرنا تھا۔ یہ انتہائی ذاتی نوعیت کا جذباتی تجربہ بندے، اس کے معبود اور آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین تعلق کا ہے، اس کا دنیا داری سے کیا تعلق؟ مگر مسجد نبوی ہو یا کعبہ کا طواف، موبائل فون کا استعمال ہر جگہ دیکھا، کہیں کسی کال پر کاروباری گفتگو، کہیں پوز بنا بنا کر اپنی ماڈلنگ اور تشہیر۔ وہ افراد دیکھے جو اپنے پیاروں کو لائیو ویڈیو کال پر کعبہ کی زیارت، عین طواف کے دوران کروا رہے تھے اور اس عمل میں وہ دھکم پیل مچتی ہے کہ خدا کی پناہ۔ اور یہ سب اس کے باوجود ہوتا ہے کہ سعودی حکومت نے سیکیورٹی کا عملہ انتہائی چن کر رکھا ہے جو سخت گیری کی مثال ہیں۔ میرے آقا صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے لہذا کسی کی نیت پر شک کئے بغیر اتنا عرض کرنا کافی ہے کہ حرمین شریفین کے احاطے میں موبائل فون کا استعمال کم از کم میرے فہم سے بالا تر ہے۔

بطور پاکستانی ہمارے لئے خوشی کی بات ہے کہ حرمین شریفین کے احاطے میں ہدایات کے لئے تین زبانوں کا سرکاری استعمال دیکھا جو عربی، انگلش اور اردو ہیں۔ آب زم زم کی فراوانی ہے مگر وہ صرف پینے کے لئے ہے جو کہ اوپر تحریر بھی ہوتا ہے مگر ہم وہاں بھی دس دس لٹر کے ڈرم لئے کھڑے ہوتے ہیں کہ واپس لے جائیں گے جو کہ ویسے ہی غیر قانونی ہے اس لئے ائیر پورٹ پر اسے ضبط کر لیا جاتا ہے۔ عازمین صرف وہ آب زمزم واپس اپنے ملک لے جا سکتے ہیں جو انہیں ائیرپورٹ پر سعودی حکومت بہت اچھی پیکنگ میں ارزاں نرخ پر دیتی ہے مگر پھر بھی پینے کے پانی کے نلکے پر ڈرم لگانے سے کوئی باز نہیں آتا، نتیجہ پھر وہی کہ فضول کا رش اور بد نظمی۔

مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کا سفر، موٹر وے سے کیا اور کمال حیرت سے دیکھا کہ اپنی موٹر وے کہیں بہتر ہے۔ پورے راستے میں بھیرہ جیسی کوئی ایک بھی سہولت میسر نہیں۔ بس پیٹرول پمپ ہیں اور ان میں کھوکھے جن کے سامنے پلاسٹک کی چند کرسیاں۔

مقامی خواتین کا لباس مکمل سیاہ پردہ اور پیروں میں جوگرز، مگر مدینہ منورہ ہو یا مکہ مکرمہ، آپ کو خواتین کی بڑی تعداد شاپنگ مالز میں کام کرتی ہوئی ملے گی۔ نماز کے اوقات میں اذان ہوتے ہی ریسٹورنٹس سمیت تمام دکانیں بند کر دی جاتی ہیں اور اس کا اطلاق موٹر وے پر بھی ہے۔

ایک احساس شاید قدامت پرستی کی وجہ سے یہ ہوا کہ بلند ہوٹل کی اونچی منزلوں پر واقع کمروں کی کھڑکیوں سے کعبہ نظر تو آتا ہے مگر اسے اونچائی سے اس طرح دیکھنا کہ کعبہ نیچے ہے اور لوگ طواف کر رہے ہیں گستاخانہ اور بے ادب سا لگا۔ ظاہر ہے یہ انفرادی رائے ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں مگر پھر بھی خیال آتا رہا کہ بلند عمارتیں کچھ دور ہی تعمیر ہوتیں تو بہتر ہوتا۔

کالم کے آغاز میں عرض کیا تھا کہ ممکن نہیں کہ ان احساسات کو قلم بند کیا جائے جن سے آپ مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ میں داخل ہوتے ہی گزرتے ہیں مگر یہ لکھے بغیر رہا نہیں جاتا کہ مدینہ منورہ کی ہوائیں اتنی مہربان ہیں کہ آپ اس کی سرشاری میں ڈوب جاتے ہیں، مسجد نبوی میں داخلہ اور عبادت کرنے کا تجربہ بھی بیان سے باہر ہے اور کعبہ کو پہلی مرتبہ اپنی آنکھوں سے دیکھنا بھی ناقابل فراموش تجربہ ہے۔ یوں کہہ لیں کہ واقعی انسان کو اس کی گزری زندگی گویا ایک فلم کی طرح یاد آ جاتی ہے جس کے بعد شدید احساس جرم کے ساتھ گڑگڑاتے ہوئے سجدے میں گرنے اور معافی مانگنے کے علاؤہ اور کچھ سوجھتا ہی نہیں۔

طواف کے دوران جہاں سب ہی گویا زمین اور آسمان کے بیچ کہیں کھوئے سے ہوتے ہیں وہاں ایک سادہ پنجابی خاتون کی سسکیاں اور روتے ہوئے معافی میرے حافظے پر یوں نقش ہے کہ ساری عمر نہ بھولے گی۔ سارے طواف میں وہ بس روتی رہی اور ایک فقرہ دہراتی رہی کہ ” مینوں معاف کردے سچے اللہ مینوں معاف کر دے، ہائے معافی دے دے، رحم کر دے، مینوں معاف کردے “۔ اس کی دکھ بھری منت نے مجھے تھوڑی بہت یاد کی ہوئی دعائیں بھی بھلا دیں جس کے بعد دل کی ہر دھڑکن فریاد ہی کرتی رہی کہ معاف کردے میرے اللہ مجھے معاف کردے۔ رحم فرما اور معاف کر دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments