جماعت اسلامی اور میں


مجھے اپنے بچپن کا وہ وقت یاد ہے جب میرے والد نے جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ وہ بالکل معتدل اور ترقی پسند نوجوان تھے جو ہلکی پھلکی موسیقی اور فلموں سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے میں نے ایک مرتبہ ان کے ساتھ تھیٹر میں جا کر لائیو سٹیج ڈراما بھی دیکھا تھا۔ ان دنوں تھیٹر میں شائستہ مزاح اور تفریح پیش کی جاتی تھی، اسی لیے لوگ اپنے اہل خانہ کے ساتھ بھی یہ ڈرامے دیکھ سکتے تھے۔ ہمارے گھر میں ٹی وی بھی تھا اور ایک الماری ریڈرز ڈائجسٹ کے شماروں اور انگریزی اردو ناولوں سے بھری تھی۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ہمارے گھر میں ‘شیطانی آیات’ کا ایک نسخہ بھی موجود تھا۔ ایک مرتبہ جب میری والدہ نے مجھے یہ کتاب پڑھتے دیکھا تو اسے کہیں چھپا دیا۔ تاہم مجھے اپنے گھر میں پڑھنے کو جو بھی چیز ملتی اسے پڑھ ڈالتی تھی اور کسی فرد کو اس کے تحریری مواد سے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ پھر یوں ہوا کہ میرے والد نے جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کر لی اور اس کے بعد زندگی تبدیل ہونا شروع ہو گئی۔

اب لائبریری میں موجود کتابوں کی جگہ جماعت اسلامی کی ماہانہ مطبوعات، مودودی کی تفہیم القرآن اور مذہبی رسالوں نے لے لی۔ گھر سے ٹی وی اٹھا لیا گیا، موسیقی پر پابندی لگ گئی اور ہفتے کے اختتام پر فلمیں دیکھنے کا سلسلہ بھی ختم ہو گیا۔ میری والدہ جو نہایت جدید خیالات کی مالک تھیں اور جو کبھی کبھار ہی سر پر دوپٹہ لیتی تھیں اب برقعے میں لپٹی دکھائی دینے لگیں۔ اچھی بیوی ہونے کے ناطے انہوں نے بتدریج خود کو اپنے خاوند کی خواہش کے مطابق ڈھال لیا۔ میرے والد پوری طرح تبدیل ہو کر ایسی شخصیت کے روپ میں ڈھل گئے جو ہمارے لیے بالکل اجنبی تھی۔ یہ ایک ڈرامائی تبدیلی تھی جو ہم سب بہن بھائیوں پر بری طرح اثرانداز ہوئی۔

مذہبی اعتبار سے معتدل خیالات کے حامل گھرانے میں پرورش پاتے ہوئے یہ اچانک تبدیلی میرے لیے خاصی بے محل تھی۔ جب میں ٹین ایج میں داخل ہوئی تو جماعت اسلامی نے ہماری زندگیوں پر اثرانداز ہونا شروع کر دیا۔ میں نے اپنے والدین کے ساتھ کئی مرتبہ سہ روزہ اجتماعات میں شرکت کی جہاں جماعت اسلامی کے رہنما جہاد، جہاد کے لیے خیرات اور مذہب کی خاطر سیاست کی اہمیت پر روشنی ڈالتے تھے۔ میں نے ایسے اجتماعات میں گوریلا وردیوں میں ملبوس ہتھیار بند نوجوانوں کو دیکھا جو بظاہر کشمیر میں جہاد کرنے کی تربیت لے رہے تھے۔ لاہور میں جماعت اسلامی کا ہیڈکوارٹر منصورہ مجاہدوں کی تربیت کا مرکز تھا جہاں نوجوان اذہان میں یہ بات بٹھائی جاتی تھی کہ جہاد ہی دنیا کو فتح کرنے کا واحد راستہ ہے۔ اجتماعات میں جہادی ترانے بجائے جاتے تھے اور کشمیر کے لیے باقاعدگی سے چندہ جمع کیا جاتا تھا۔

کسی عقیدے کی مجونانہ پیروی اور انتہاپسندی جیسے عوامل راتوں رات وقوع پذیر نہیں ہوتے۔ اس کے لیے نوجوان اور ناپختہ اذہان کی سالہا سال تک تربیت اور برین واشنگ درکار ہوتی ہے۔

ایک مرتبہ میرے والد نے مجھے منصورہ میں طالبات کے لیے جماعت کے سمرکیمپ میں شرکت کے لیے بھیجا۔ اس موقع پر ہمیں جہاد، پردے اور دن رات نمازوں کی اہمیت کے بارے میں بتایا گیا۔ ہر نماز کے بعد لیکچر دیا جاتا تھا کہ ہمیں اپنے بھائیوں اور بیٹوں کو کشمیر کیوں بھیجنا چاہیے اور کیسے کافروں نے ہمارے علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ یہ دن رات چوبیس گھنٹے کی برین واشنگ تھی۔ انہوں نے ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے مذہب اور سیاست کو باہم خلط ملط کر دیا تھا۔ نمازوں کے ساتھ جہاد کا پیغام، روح کی پاکیزگی کے ساتھ دشمنان اسلام کے خلاف ہتھیاروں کا استعمال، ہر گھرانے سے کم از کم ایک مرد کو کشمیر بھیجنے کی اہمیت کا بیان جبکہ خواتین کو اپنا سونا کشمیر فنڈ میں دینے کی ترغیب، مخلوط تعلیم اور ذرائع ابلاغ کی برائیاں وغیرہ وغیرہ۔ یہ فہرست خاصی طویل تھی۔ میں اس کیمپ میں دو دن سے زیادہ نہ ٹھہر پائی اور بھاگ نکلی۔

جماعت اسلامی کے طلبہ ونگ ”اسلامی جمعیت طلبہ” نے غنڈے اور شدت پسند اذہان پیدا کیے ہیں۔ طلبہ یونین کبھی تعلیمی اداروں کا لازمی حصہ ہوتی تھی جس نے ناصرف تخلیق پاکستان میں اہم کردار ادا کیا بلکہ مارشل لا حکومتوں کے مظالم کے خلاف بھی کھڑی ہوئی۔ جمعیت نے طلبہ یونین کا استحصال کیا اور اسے سیاست کی بھینٹ چڑھایا جبکہ یونیورسٹیوں کے اندر اور باہر طلبہ کو تخریبی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔ ثقافتی سرگرمیوں پر پابندی، ترقی پسند خیالات رکھنے والے طلبہ سے غنڈہ گردی، روشن خیال نوجوانوں کے خلاف تشدد کی ترغیب دینا اور انہیں ہراساں کرنا جمعیت کی پہچان ہیں۔

بیشتر اسلامی مدرسوں میں اسی ذہنیت کا راج ہے اور مذہبی تنظیمیں مذہب کے نام پر انتہاپسندی کی حوصلہ افزائی کرتی اور اسے فروغ دیتی ہیں۔ روزانہ نمازوں کے بعد دیے جانے والے خطبوں میں دوسرے فرقوں کے خلاف نفرت پر مبنی باتیں کی جاتی ہیں اور اپنے عقائد سے اختلاف رکھنے والوں کے خلاف تشدد کی ترغیب دی جاتی ہے۔ چونکہ مدرسوں میں دی جانے والی تعلیم و تلقین کی جانچ پڑتال اور تجزیے کے لیے کوئی انضباطی ادارے نہیں ہیں اسی لیے ہمیں تحریک لبیک جیسی بنیاد پرست تنظیموں کے زیرقیادت انتہاپسند مجاہدوں کی فوج کا سامنا ہے۔

میرے والد نے 30 سال تک جماعت اسلامی سے وابستہ رہنے کے بعد بالاآخر یہ بات تسلیم کرتے ہوئے پارٹی سے استعفیٰ دے دیا کہ یہ لوگ موقع پرست ہیں۔ مجھ سمیت ان کے بچوں میں سے کوئی بھی کبھی جماعت اسلامی کی سیاست سے متفق نہ ہو سکا۔ تاہم جماعت کی جانب سے والد کی برین واشنگ اور نظریے کی اندھا دھند پیروی کے لیے ان کی ذہنی تشکیل کے عمل نے ہمارے بچپن اورنوجوانی کا بہت سا حصہ ہم سے چھین لیا اور ہم والد کی زندگی کے بہترین حصے سے محروم رہ گئے۔ مذہبی جذبات سے ناجائز فائدہ اٹھانے والی سیاست لبرلزم کے نام پر ناشائستگی سے کہیں زیادہ بری شے ہے۔

جماعت اسلامی اور اس کی قیادت نوجوان اذہان کا استحصال کرنے اور انہیں خدا کے نام پر موت کے منہ میں بھیجنے کی قصوروار ہیں۔ میری رائے میں جب انتہاپسندی اور دہشت گردی کی بات ہو تو جماعت اسلامی بھی تحریک لبیک جیسی ہی ہے ۔ جب تک یہ جماعتیں سیاست یا پارلیمنٹ میں موجود ہیں اس وقت تک جناح کی ایک سیکولر اور ترقی پسند پاکستان کی خواہش تشنہ تعبیر ہی رہے گی۔

ماریہ علی
Latest posts by ماریہ علی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments