ملالہ یوسف زئی کی پہچان کا وقت


\"zeeshanآرمی پبلک اسکول پر حملہ ہوا – ایک سو ساٹھ معصوم بچے محض اس جرم میں قتل کر دیئے گئے کہ قاتلوں کا گروہ یہ سمجھتا تھا کہ پورے ملک میں دہشت و خوف پھیلانے کے لئے یہ گھناو¿نی حرکت لازم ہے ۔ دوم ، اسے انسان دوستی کی تعلیم سے نفرت ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ یہ بچے بڑے ہو کر ہمارے سماج کی پیداواری و تخلیقی سرگرمیوں کا ایک فعال حصہ بنیں – اس گروہ کی نفسیات تنگ نظری پر مبنی ہے اور روشن خیالی کی تعلیم سے اسے سخت عداوت ہے –
دشمن نے یہی عمل پھر باچا خان یونیورسٹی میں دہرایا اور تعلیم و عدم تشدد کی روایات سے اپنی دشمنی کا ثبوت دیا – ہمارا نوجوان اثاثہ جس نے اس ملک کی ترقی و خوشحالی میں ایک اہم کردار ادا کرنا تھا ، گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا –
ہمیں یہ بات سمجھنے میں دیر نہیں کرنی چاہئے کہ تعلیم و امن کی اقدار پر حملہ دراصل پوری قوم کو بہتر مستقبل کے امکانات سے محروم کرنے جیسا ہے – جس وقت یہ تحریر لکھی جا رہی ہے پنجاب اور سندھ میں تعلیمی ادارے بند ہیں ۔ شنید ہے کہ اب پوری قوم یہ جان چکی ہے کہ دہشت گردوں کا اب مستقل نشانہ علم کے یہ طالب بچے اور ان کے مکتب ہیں – ہماری قوم بہت دیر سے سمجھی ہے اور اس لئے بھی سمجھی ہے کہ اب سب کو اپنے اپنے بچوں کی فکر کھائے جا رہی ہے –

کیا ہم پاکستانیوں کو معلوم ہے کہ یہ دو واقعات (آرمی پبلک اسکول اور باچا خان یونیورسٹی) نئے نہیں تھے – علم و عدم تشدد کی روایات سے ان کی یہ دشمنی نئی نہیں – جب ملالہ یوسف زئی پر حملہ ہوا تھا تو اس قوم کو سمجھنے میں دیر نہیں کرنی چاہئے تھی کہ ہمارا دشمن علم و ابلاغ نیز خواتین کی تعلیم کا دشمن ہے – مگر ہم بجائے اس کے کہ اس واقعہ سے کوئی سبق سیکھتے ہم نے سازش کا راگ الاپنا شروع کر دیا جس کا کھیل ہم صدیوں سے کھیل رہے ہیں –

\"12650273_1267760169908139_689163293_n\"جب ملالہ یوسف زئی کو امن کا نوبل انعام ملا تو رجعت پسند طبقے نے اعتراضات کے ڈھول پیٹنے شروع کر دیئے کہ جناب اس نے ایسا کونسا کارنامہ سرانجام دیا ہے جو اسے ہیرو کی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے – علم کی ثقافت سے اٹوٹ پیار اور علم کے دشمنوں کا کھل کر سامنا کرنا ہمیں ایک معمولی سا کارنامہ لگتا تھا – اب جب کہ دو صوبوں بشمول دارالحکومت کے تمام تعلیمی ادارے بند ہیں ، ہمیں یہ بات سمجھنے میں دیر نہیں کرنی چاہئے کہ آخراس بہادر بچی کا کارنامہ کیا تھا ، کس جرم میں اسے گولی ماری گئی ، اور کیوں وہ تمام پاکستانیوں کے لئے علم بمقابلہ جہالت کی لڑائی میں ایک بے نظیر علامت ہے ؟

وہ تمام لوگ جنہیں اولاد کی نعمت میسر ہے اور وہ جب اسکول کالج یا یونیورسٹی اپنے بچوں کو بھیجتے ہیں تو جو خوف و خطرہ ان کی نفسیات کو گھیر لیتا ہے اسی نفسیات سے وہ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ آخر کیوںکر ملالہ یوسف زئی علم و روشن خیالی کی روایات کی نمائندہ ہے –

اب جب بھی دشمن ہمارے تعلیمی اداروں کو نشانہ بناتا ہے ہمیں ملالہ یوسف زئی یاد آتی ہے – وہ علم دشمنوں کے خلاف اس لڑائی میں تعلیم ، انسانیت ، روشن خیالی ، عدم تشدد ، مساوات ، اور روشن خیالی کی ایک نمایاں علامت اور استعارہ ہے – ملالہ ہماری ہیرو ہے ، ہمیں اس سے پیار ہے اور ہماری یہ وابستگی دہشت گردوں کے لئے یہ پیغام ہے کہ یہ قوم علم ، مساوات ، امن ، اور بہتر مستقبل کے امکانات کی کھوج میں ناکام نہیں ہو گی ۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
6 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments