برنی سینڈرز کی غداری


یہ نہیں کہ موضوعات کم ہیں لکھنے کے لیے لیکن کہتے ہیں جس معاشرے میں خوف راج کرتا ہے وہاں لوگ سوچنے کی قوت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ہماری سوچوں پر پہرے ہیں ایک جملہ کے سیاق و سباق پر دس بار نظرِ ثانی کرنی پڑتی ہے۔

ہم ریاست پاکستان کے شہری انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں جب امریکی صدارتی امیدوار برنی سینڈرز کا ایجنڈا دیکھتے ہیں جو وہ اپنی کمپین میں عوام کی عدالت میں پیش کر رہے ہیں۔ جی ہاں ان کی ایجنڈے میں ایک چیز قبائلی اقوام کو با اختیار بنانا ہے (امریکہ میں بھی قبائلی ہیں وہ لوگ جو امریکی زمین کے حقیقی مالک ہیں اور مقامی رہائشی تھے ان کا بھی اجتماعی قتل عام کیا گیا اور حقوق سے محروم رکھا گیا عام طور پر ریڈ انڈین کی اصطلاح استمعال کی جاتی ہے )

دوسری چیز ذمہ دار خارجی پالیسی ہے۔

اور وہ کئی دفعہ دفاعی بجٹ کو کم کرنے کا اعلان بھی واشگاف الفاظ میں کر چکے ہیں۔ اب کسی پہلو سے یہ بات مضحکہ خیز بھی لگتی ہے کہ کسی بھی جمہوری ملک اور مہذب معاشرے میں یہ کوئی اچھنبے کی باتیں نہیں ہیں۔ جی ہاں مگر کیا آپ جانتے ہیں۔

امریکہ وہ ملک ہے جس کی اینٹیلیجنس ایجنسی سی آئی اے دنیا کی طاقت ور ترین اینٹیلیجنس ایجنسیوں میں سے ایک ہے۔ بلاشبہ امریکی فوج کے جرنیل بھی ایک اتھارٹی رکھتے ہیں۔ تو نہ تو کسی امریکی عدالت نے برنی سینڈرز کو نا اہل کیا ہے نہ ان کو خارجہ پالیسی کے متعلق بات کرنے پر غدار اور وطن دشمن کہا گیا نہ انہیں اس وجہ سے ہدف بنایا گیا کہ وہ ایک دوسرے مذہب یعنی یہودی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے عیسائیوں کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔

نہ ان کے خاندان کے افراد اور عزیز و اقارب کا ماضی ایجنسیوں نے چھانا نہ ان کو ہراساں کیا۔ نہ ہی امریکن میڈیا ہاؤسز کو اس بات کا پابند کیا گیا کہ وہ ان کی کردار کشی کریں یا ان کوریج نہ دیں۔ نہ تو ان کی کوئی ویڈیو لیک ہوئی۔ نہ کسی فوجی جرنیل نے ان کے سیاسی ایجنڈے اور دفاعی بجٹ اور جنگ روکنے کے عزم کو ہدف تنقید بنایا۔ نہ ان پہ کوئی قاتلانہ حملہ ہوا نہ ان کو سکیورٹی رسک کہا گیا۔ نہ ہی ان کے سیاسی مخالفین نے ان کی حب الوطنی پہ شک کیا۔

تو اس ہم کیا نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں۔ یہ کہ امریکی انٹیلیجنس ایجنسیاں اور فوجی جرنیل انتہائی نکمے ہیں جنہیں ملکی سیاست کی کوئی خبر نہیں اور وہ ملکی سلامتی سے لاپروا ہیں ایک سیاستدان خارجہ پالیسی اور دفاعی بجٹ کو سیاسی ٹول کے طور پر استمعال کر رہا ہے لیکن کسی جرنیل نے نہ پریس کانفرنس کی نہ ٹویٹ کی نہ کوئی ٹوئٹر ٹرینڈ چلوایا۔ نہ اس کے خلاف کوئی کیس دائر ہوا۔

یا یہ کہ ان کی کوئی مجبوری ہے؟ جی ہاں ان کی مجبوری ان کا آئین ہے وہ حلف ہے جس میں وہ سیاست سے دور رہنے اور اپنے آئینی اور اخلاقی دائرہ کار میں رہ کر اپنے فرائض سر انجام دینے کا عہد کرتے ہیں۔

اور اگر وہ اپنی مینڈیٹ سے تجاوز کریں تو وہ جواب دہ ہوتے ہیں عوام کو اور عدالتوں کو۔

نتیجہ یہ ہے ملک آئین کی بالادستی اور ہر کسی کے اپنی حدود میں رہتے ہوئے کام کرنے سے نہ صرف قائم رہتا ہے بلکہ ترقی بھی کرتا ہے۔ مگر کسی ادارے کے چند اشخاص کی انا، من مانیوں اور غلط پالیسیوں کی زد میں آکر ملک ایسے دوراہے پہ آ کھڑا ہوتا ہے کہ جس سے آگے اور حال میں تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔

‏کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار

خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

فیض ‎


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments