افغانستان کے وار لارڈ اور جنگجو کہاں جائیں گے؟


ایسے وقت میں جب امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ، سیکرٹری خارجہ مائیک پومپؤ کے ساتھ ساتھ افغان طالبان کے بیانات سے اشارے مل رہے ہیں کہ فروری کے آخر میں افغانستان میں دونوں متحارب فریقوں کے درمیان کوئی امن معاہدہ ہو سکتا ہے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ بندوق اور بارود سے واقف جنگجو کہاں جائیں گے؟ طالبان ہوں یا وار لارڈ (جنگی سردار) ان کے ساتھ وابستہ جنگجوؤں، ان کی معاشی ضرورتوں کو اب تک کیسے پورا کیا گیا اور آئندہ اس کا اہتمام کیسے ہو گا؟

سوال یہ بھی ہے کہ آج کے افغانستان میں وار لارڈ کتنے مضبوط ہیں؟ ان سوالات کے ساتھ ہم نے افغانستان کے اندر چار دہائیوں سے جاری عسکریت پسندی اور مختلف محاذوں سے گہری واقفیت رکھنے والے دو تجزیہ کاروں رستم شاہ مہمند اور رحیم اللہ یوسفزئی سے گفتگو کی ہے۔ رستم شاہ مہمند پاکستان کے لیے افغانستان میں سفیر بھی رہے ہیں اور رحیم اللہ یوسفزئی سینئر صحافی اور تجزیہ کار ہیں۔

افغانستان کے وار لارڈ اب کہاں ہیں؟ اور کتنے طاقتور ہیں؟

اس سوال پر پاکستان کے سابق سفیر اور تجزیہ کار رستم شاہ مہمند کہتے ہیں

” وار لارڈ کمزور ہو گئے ہیں۔ کیونکہ عوام بہت مایوس ہو گئے ہیں۔ ان کی مجبوریاں اور مسائل اتنے بڑھ گئے ہیں کہ وہ جنگی سرداروں پر انحصار نہیں کرتے۔ وار لارڈ ان سے مسلسل جھوٹ بولتے رہے ہیں، ان کو دھوکہ دیتے رہے ہیں۔ وہ زمانہ گیا اب نئی کلاس آئے گی، عوامی نمائندوں کی صورت میں یا کسی اور شکل میں، لیکن وار لارڈ کی اہمیت میں انتہائی کمی آ گئی ہے۔ “

سینئر صحافی اور چار دہائیوں کی عسکریت پسندی کے شاہد، رحیم اللہ یوسفزئی بھی وار لارڈز کے بارے میں رستم شاہ مہمند کے موقف کی تائید کرتے ہیں لیکن ان کے خیال میں اب بھی ایک دو جنگی سردار ایسے ہیں کہ دنوں میں ملیشیاز بنا لیں اور اپنے پاس چھپا رکھے اسلحے کے ذخائر کو استعمال میں لے آئیں۔

” وار لارڈز بہت کمزور ہو گئے تھے جب طالبان نے ان کو شکست دی تھی۔ لیکن جب طالبان کو امریکہ اور نیٹو نے شکست دی تو ان کو بھی وارلارڈ کی ضرورت پڑی اور ان کی پوزیشن نسبتاً بہتر ہو گئی۔ وار لارڈز اب بھی ہیں لیکن ان کی پہلے جیسی حیثیت نہیں رہی۔ ایسا نہیں کہ ان کے جنگجو اسلحہ لے کر پھرتے ہوں“۔

اس وقت کون کون بڑا جنگی سردار موجود اور فعال ہے؟

رستم شاہ مہمند کے مطابق،

” اس وقت عطا محمد نور ہیں جان کا تعلق پہلے جمعیت اسلامی سے تھا۔ جنرل رشید دوستم کا تعلق جنبش ملی سے ہے۔ محقق ہیں جن کا تعلق حزب وحدت سے ہے۔ اسی طرح دین محمد ہے، ان کی اپنی جماعت ہے۔ پھر ہرات سے اسماعیل خان ہیں، ان کا اپنا گروپ ہے۔ کچھ محاذ والے ہیں جو زیر زمیں چلے گئے ہیں۔ داعش والے ہیں وہ تو ایک بے رحم پرتشدد تنظیم ہے۔ ان کے ٹھکانوں کا اور لیڈر کا تو کسی کو پتا نہیں ہے لیکن وہ فعال ہیں۔ باقی لوگ جو ہیں وہ طالبان کے ساتھ ہیں یا حکومت کے ساتھ ہیں“

رحیم اللہ یوسفزئی کے خیال میں دو وار لارڈ اب بھی اہم ہیں اور سرعت میں ملیشیاز بنا سکتے ہیں۔

” عبداlرشید دوستم، اسماعیل خان اس وقت بڑے وار لارڈ ہیں۔ ان کی حیثیت ہے۔ اگر یہ چاہیں تو جنگجووں کو اپنے ساتھ ملا سکتے ہیں، ان کو اسلحہ دے سکتے ہیں اور وہ ان کے لیے لڑ سکتے ہیں۔ ان لوگوں نے اسلحہ بھی چھپایا ہوا ہے۔ کافی اس طرح کے واقعات ہوئے ہیں جن سے پتا چلتا ہے ان کے پاس بڑا اسلحہ ہے اور جب بھی موقع آیا اس کو استعمال کریں گے“

وار لارڈ اور طالبان کے ذرائع آمدن کیا ہیں اور اپنے جنگجوؤں کو کیا دیتے ہیں؟

رستم شاہ مہمند اس بارے میں کہتے ہیں :

” طالبان کے پاس جہاں جہاں وسائل ہیں، حکومت کے گوداموں پر قبضہ کرتے ہیں، اسلحہ خانوں پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ تھانوں پر قبضہ کر لیتے ہیں، وہ طالبان کے لیے مال غنیمت بن جاتا ہے۔ جن علاقوں پر ان کی عملداری چلتی ہے وہاں سے وہ ٹیکس بھی وصول کرتے ہیں۔ سڑکوں پر جو قافلے جاتے ہیں حتی کہ امریکی قافلے، ان سے بھی وہ ٹیکس وصول کرتے ہیں“

” وار لارڈز اگر حکومت کے حامی ہیں تو ان کو وہاں سے پیسے ملتے ہیں، اگر حکومت کے ساتھ نہیں تو جہاں جہاں ان کا اثر و رسوخ ہے وہاں سے وہ پیسے اکٹھے کرتے ہیں۔ جبراً یا لوگ اپنی مرضی سے دیتے ہیں۔ لیکن اب ان کی پرانی طاقت نہیں ہے۔ کسی کے پاس فورسز نہیں۔ ان کے پاس زیادہ سے زیادہ پچاس لوگ ہوں، اسی یا سو لوگ ہوں گے۔ جن کی مالی ذمہ داری وہ برداشت کر سکتے ہیں۔ اب ایسا نہیں کہ ان کے پاس پانچ، چھ ہزار جنگجو ہوں اور ان کو سپورٹ کرنے کے لیے وہ فنڈز لیتے پھرتے ہوں“

رحیم اللہ یوسفزئی کی اس بارے میں رائے یوں ہے :

” جنگجووں کی تنخواہوں اور طالبان کے ذرائع آمدن کے بارے میں سوال اٹھتے رہے ہیں اور یہاں وار لارڈ بھی ہیں۔ طالبان کہتے ہیں ہم تو اپنے مارے جانے والے لوگوں کی مدد کرتے ہیں، ان کی کفالت کرتے ہیں۔ جب یہ لڑتے ہیں تو کوشش کرتے ہیں اپنے جنگجوؤں کو کچھ دیں۔ ان کو چندہ ملتا ہے یا زور زبردستی پیسہ اکٹھا کرتے ہیں، ٹیکس لگاتے ہیں۔ غیرممالک میں بھی ان کے لوگ جا کر پیسہ اکٹھا کرتے ہیں۔ سو یہ اپنے جنگجوؤں کو پیسہ دیتے ہیں۔ مارے جانے والی کی بیواووں کو پیسہ دیتے ہیں۔ زخمیوں کا علاج کرتے ہیں، کافی ان کا وسیع نظام ہے“

یہ اربکی کون ہیں؟

رحیم اللہ یوسفزئی کے مطابلق حکومت نے ملیشیاز کو بنایا جن کو مقامی طور پر اربکی کہا جاتا ہے

”یہ جنگجو جنگوں کا حصہ رہے ہیں۔ وار لارڈز کے لیے لڑتے رہے ہیں۔ طالبان کے خلاف لڑتے رہے ہیں۔ وار لارڈز کے ہی یہ لوگ ہیں اور کہا جاتا ہے کہ یہ طالبان کے خلاف اپنے اپنے علاقے کو تحفظ دے رہے ہیں۔ لیکن ان اربکیوں کے بارے میں بھی بڑی شکایات ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ کسی قانون کو نہیں مانتے اور اپنی مرضی کرتے ہیں اور لوگوں کا کافی استحصال کرتے ہیں“

عوام اور جنگجو جنگوں سے تھکتے نہیں ہیں؟

رحیم اللہ یوسفزئی کہتے ہیں کہ بدقسمتی سے افغانستان میں کئی لوگوں کے لیے جنگ ایک کاروبار ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ہمیشہ جنگ کے حالات رہیں۔

” افغانستان میں چار دہائیوں سے یہی صورت حال رہی ہے۔ لوگوں کے اپنے مفادات ہیں۔ اکثر چاہتے ہیں کہ یہاں جنگ کے حالات رہیں تاکہ وہ جنگ کو بطور کاروبار استعمال کریں۔ بڑی بدقسمتی ہے کہ ایسے حالات ہیں۔ پہلے روس نے حملہ کیا، پھر امریکہ نے کیا۔ افغانوں کی دو تین نسلوں نے صرف جنگ کی دیکھی ہے“

ان کے بقول اگر غربت نہ ہوتی تو لوگ ملیشیاز کے لیے اور وار لارڈز کے لیے نہ لڑتے۔ اور ان کو کوئی متبادل روزگار ملتا۔ آسان حل اسی لیے نہیں ملا کہ جنگ سب کے مفاد کے لیے ضروری ہے۔ اسی لیے جنگ سے مسئلے کا حل نہیں نکل سکا اور اب سیاسی حل کی طرف جانا ہو گا۔ ”

رستم شاہ مہمند کہتے ہیں کہ طالبان کی طویل مزاحمت کا مطلب یہ نہیں کہ افغانستان میں سب لوگ ان کو پسند کرتے ہیں اور ان کو نئی کمک ملتی رہتی ہے۔

” کسی متبادل کے نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ داعش کو، یا ترکمانستان اسلامک موومنٹ کو اگر کوئی شکست دے سکتا ہے تو وہ حکومت دے سکتی ہے جس میں طالبان شامل ہوں۔ اسی لیے ایران اور روس بھی اب طالبان کے ساتھ رابطوں میں ہیں“

افغانستان میں جب جنگ نہ ہو گی تو جنگجو کہاں جائیں گے؟

تجزیہ کاروں کے نزدیک یہ بڑا سوال ہے۔ وہ جنگجو جنہوں نے صرف بندوق اور بارود کا استعمال ہی سیکھا ہے اور اسی سے اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پالا ہے، ان کو امن معاہدے کی صورت میں کیسے اور کہاں مصروف رکھنا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جنگجوؤں کو معاشرے میں ضم کرنا ضروری ہو گا۔ اور ممکن ہے کہ طالبان کے امریکہ اور کابل کے ساتھ کسی امن معاہدے کے بعد ان کے جنگجوؤں کو سیکیورٹی کے اداروں یا دیگر ملازمتوں پر کھپایا جائے۔

اسد حسن

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اسد حسن

اسد احمد وائس آف امریکا کے نشریاتی ادارے سے وابستہ ہیں۔ اور اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے علاوہ کھیلوں بالخصوص کرکٹ کے معاملات پر گہری آنکھ رکھتے ہیں۔غالب امکان ہے کہ آئندہ کرکٹ ورلڈ کپ کے دوران ّہم سبٗ پڑھنے والے اسد احمد کے فوری، تیکھے اور گہرے تجزیوں سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔

asad-ahmad has 16 posts and counting.See all posts by asad-ahmad

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments