#RefugeeSummit: عمران خان کا کہنا ہے کہ افغان پناہ گزینوں کی موجودگی میں انتہاپسندی روکنا ممکن نہیں


افغان پناہ گزینوں کی کانفرنس

Getty Images
عمران خان کا کہنا تھا کہ مختلف اداروں کے لیے دنیا بھر میں خیرات جمع کرنے کے دوران انھیں اس بات کا اندازہ ہوا تھا کہ فراخ دل ہونے کا تعلق بینک بیلنس سے نہیں ہوتا

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ملک میں افغان پناہ گزینوں کے موجود ہوتے ہوئے پاکستان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ یہاں سے ہونے والی انتہاپسندی روک سکے۔

پیر کو اسلام آباد میں افغان پناہ گزینوں سے متعلق ایک بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان کا کہنا تھا کہ ان کا ملک افغان سرحد کے ساتھ باڑ لگا رہا ہے لیکن اس کے باوجود بھی جب تک پناہ گزین واپس نہیں چلے جاتے انتہاپسندی کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں۔

اس کانفرنس میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس اور افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد بھی موجود تھے۔

یہ بھی پڑھیے

’افغان پناہ گزینوں کی واپسی عدم استحکام کا باعث بنے گی‘

عمران خان کو کوالالمپور اجلاس میں عدم شرکت پر افسوس

’فوج میرے ساتھ کھڑی ہے، کیونکہ میں کرپٹ نہیں ہوں‘

عمران خان نے کہا کہ ’27 لاکھ افغان پناہ گزینوں کی موجودگی میں یہ ممکن نہیں کہ ہم یہاں سے ہونے والی انتہاپسندی کو روک سکیں لیکن ہم باڑ لگا رہے ہیں جو تقریباً مکمل ہو چکی ہے۔ یہ اس کے باوجود بھی ممکن نہیں۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان قابل ستائش تعلقات رہے ہیں جس میں پاکستان نے لاکھوں افغان پناہ گزین کو یہاں جگہ دی ہے، باوجود اس کے کہ پاکستان گذشتہ کئی دہائیوں سے معاشی بحران کا شکار رہا ہے۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ مختلف اداروں کے لیے دنیا بھر میں خیرات جمع کرنے کے دوران انھیں اس بات کا اندازہ ہوا تھا کہ ’فراخ دل ہونے کا تعلق بینک بیلنس سے نہیں ہوتا۔‘

’مجھے اس بات پر فخر ہے کہ ہم نے کس طرح افغان پناہ گزینوں کا خیال رکھا ہے۔ سنہ 1947 میں اپنے قیام کے وقت پاکستان بھی تارکین وطن کی آمد سے مشکلات سے دوچار تھا۔۔۔ میری والدہ کا خاندان بھی انڈیا سے ہجرت کر کے پاکستان آیا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ ایک اچھے لیڈر کی نشانی بھی یہی ہوتی ہے کہ وہ تمام تر لوگوں کے بارے میں سوچتا ہے ’تاہم یہ افسوس ناک ہے کہ جب ہم امیر ممالک کی طرف دیکھتے ہیں تو حالات ایسے نہیں ہیں۔ سیاسی رہنماؤں نے تارکین وطن کا مسئلہ اٹھا کر انسانوں کو ایک دوسرے کے خلاف کیا ہے تاکہ ووٹ حاصل کر سکیں اور تارکینِ وطن سے نفرت کو فروغ دیا جائے۔‘

عمران خان

Getty Images
عمران خان نے کہا کہ افغانستان میں امن کی بحالی اس لیے ضروری ہے تاکہ افغان پناہ گزین واپس جا سکیں

’ممکن ہے شدت پسند پاکستان میں رہے ہوں گے‘

ان کا کہنا تھا کہ نائن الیون کے بعد اسلام کو شدت پسندی کا مذہب کہا گیا جس سے اسلاموفوبیا بڑھا، لوگ ان دونوں میں فرق نہ کر سکے۔

’دنیا میں پاکستان تارکین وطن کے معاملے میں دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔۔۔ نائن الیون کے بعد ممکن ہے کہ کچھ شدت پسند جو افغانستان میں لڑ رہے تھے پاکستان آ کر رہے ہوں گے۔ یہاں پانچ لاکھ لوگوں کے لیے پناہ گاہیں ہیں۔ حکومت کیسے ان لاکھوں لوگوں میں کچھ ہزار شدت پسند کو پکڑ سکتی ہے جو ان کے بیچ رہ رہے ہوں۔‘

عمران خان نے کہا کہ ’افغانستان میں امن کی بحالی اس لیے ضروری ہے تاکہ افغان پناہ گزین واپس جا سکیں۔ اس کے بعد اگر کوئی شدت پسند یہاں سے کام کرتا ہے تو ہم اس کی ذمہ داری قبول کر سکیں گے۔‘

’یہ ہمارے فائدے میں نہیں کہ افغانستان میں حالات مزید خراب رہیں۔ ہم وہاں انسانی بنیادوں پر امن چاہتے ہیں۔ پاکستان کے قیام سے قبل بھی انڈیا کے اس خطے کے افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات رہے ہیں۔‘

’پناہ گزینوں کے بچوں نے پاکستان میں کرکٹ سیکھی‘

وزیراعظم عمران خان نے بتایا ’شدت پسندی کے خلاف جنگ کے دوران دونوں طرف کے لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ وہاں شدید غربت ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان امن اور تجارتی سرگرمیوں کی بحالی سے ہم لوگوں کو روزگار دے سکتے ہیں۔‘

’دنیا کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ جب (افغان) پناہ گزینوں نے اپنی زندگی عزت سے گزاری جبکہ (پاکستان کے) لوگوں نے معاشی مشکلات کے باوجود ان کی میزبانی کی۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس

Getty Images
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اپنی مالی مشکلات کے باوجود افغان پناہ گزینوں کو جگہ دی جو دنیا کے لیے ایک مثال ہے

افغان پناہ گزینوں کے بچوں نے یہاں کرکٹ دیکھنا اور کھیلنا شروع کی اور آج افغانستان کی اپنی قومی کرکٹ ٹیم ہے۔ ’شرمناک بات یہ ہے کہ ان کی انڈر 19 ٹیم نے پاکستانی ٹیم کو ہرایا۔‘

عمران خان کی اس بات پر تالیوں کی گونج کے بعد انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا ’میں امید کرتا ہوں کہ ان کی قومی ٹیم ہماری ٹیم کو نہ ہرا سکے۔‘

اس کے ساتھ انھوں نے انڈین وزیراعظم نریندر مودی پر تنقید کرتے ہوئے کہا ’انڈیا کے وزیر اعظم نے کہا ہے کہ وہ 11 دنوں میں پاکستان کو تباہ کر سکتے ہیں۔ کیا ایک ارب سے زیادہ کی آبادی والے ملک کا سربراہ ایسے بیان دے سکتا ہے۔‘

انھوں نے اقوام متحدہ کو متنبہ کیا کہ یہ تاریخ میں ایک اہم موڑ ہے اور حالات مزید خراب ہو رہے ہیں۔

عمران خان سے قبل اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے اپنے خطاب میں پاکستان کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک نے اپنی مالی مشکلات کے باوجود افغان پناہ گزینوں کو جگہ دی جو ’دنیا کے لیے ایک مثال ہے۔‘

’ہم نے اس حوالے سے پاکستان کی مدد کی ہے تاکہ وہ صحت اور تعلیم میں اپنے مسائل کا خاتمہ کر سکے۔‘

انتونیو گوتیرس نے تسلیم کیا کہ پاکستان کے اپنے اقدامات کے مقابلے دنیا کی طرف سے پاکستان کی اتنی مدد نہیں کی گئی۔ ’عالمی برادری کو چاہیے کہ مزید اقدامات کریں۔‘

’ہم نفرت کے ان 40 برسوں پر افسوس ظاہر کرتے ہیں۔۔۔ تمام مسائل کا حل افغانستان کے اندر ہی موجود ہے۔ مجھے امید ہے کہ امن کا راستے سے یہاں کے لوگوں کا مستقبل بہتر ہو سکے گا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp