برائیڈل شاور میں پانی کا ہی شاور دینا بہتر ہے


جب میں نے برائیڈل شاور کا لفظ پہلی بار سنا تو دماغ بھک سے اڑ گیا تھا۔ خود کو بے حد وسیع النظر سمجھنے کے باوجود برائیڈل شاور کی اصطلاح پر شرم سے پانی پانی ہوگئی۔ تصور میں بھارتی فلموں اور ڈراموں کے وہ سین گھومنے لگے جن میں، ہونے والی دلہن آدھے جسم کو تولیے سے ڈھک کر بہت سی عورتوں کے بیچ کسی چوکی پہ بیٹھی ہوتی ہے اور وہ عورتیں اس کے جسم پہ جانے کون کون سی خوشبووں کا لیپ کر کے حسب ِ استطاعت کبھی دودھ سے تو کبھی عرقِ گلاب سے مل مل کر نہلا رہی ہوتی ہیں۔

ساتھ ہی جھوم جھوم کر ناچ اور گا بھی رہی ہوتی ہیں۔ سچ کہوں تو فلموں میں دیکھنا اور بات ہے لیکن کبھی یہ سوچا اور نہ چاہاکہ یہ رسم ہمارے یہاں بھی در آئے۔ اسی لیے جب برائیڈل شاور کا لفظ مقامی مارکیٹ میں آیا تو جھٹ پٹ اس کا لفظی ترجمہ کر کے کانوں کو ہاتھ لگایا اور شکر ادا کیا کہ اس بدتمیز رسم کے رائج ہونے سے پہلے ہی ہماری شادی کر دی گئی ورنہ جوخفت بچے پیدا کرنے کے دوران اسپتالوں میں اٹھانی پڑتی ہے، وہ برائیڈل شاور کی رسم کی تکمیل کے لیے شادی سے پہلے میکے میں اٹھانی پڑجاتی۔ توبہ، توبہ۔

ابھی پچھلے دنوں کی بات ہے کہ بیٹی نے ایک شادی کے دوران ضد کی کہ ماما مجھے تو وہاں برائیڈل شاور کی تقریب میں بھی جانا ہے۔ میں نے اس کو تیز نظروں سے گھورا، زور کی ڈانٹ پلائی اور ایک طرف بٹھا دیا۔ لو بھلا، کسی بات پہ روک ٹوک نہ کرنے کا مطلب یہ تھوڑی ہے کہ ہر جگہ منہ اٹھا کر نکل جائیں۔ اور ایسی گندی رسم میں شرکت، اف اللہ! جانے کن کن دیسی طریقوں سے برائیڈ کو شاور دیا جاتا ہوگا اور وہاں موجود سب لوگ مجمع لگا کر دیکھتے بھی ہوں گے۔ بھاڑ مین جائیں ایسی رسمیں۔ حد ہی ہو گئی بھئی۔ میں جھرجھری لے کر کام میں لگ گئی۔

ابھی کچھ دن قبل ایک دوست نے اپنی بہن کے برائیڈل شاور کی تصویریں واٹس ایپ کے اسٹیٹس پہ اپ لوڈ کیں۔ پہلی ہی تصویر کے نیچے بڑا بڑا لکھا تھا ”برائیڈل شاور آف مائے سسٹر“، ساتھ دس کے قریب تصویریں اٹیچ تھیں، جنہیں کھول کر دیکھنے سے پہلے میں نے چاروں طرف گردن گھما کر نظر دوڑائی، کہیں بچے تو پاس نہیں۔ اطمینان ہو جانے پہ تصویریں دیکھنے کی ابتدا کی لیکن اس سے پہلے دوست کو دل ہی دل میں دو چار گالیوں سے بھی نوازا کہ کمبخت بظاہر تو ایسی ماڈرن نہیں دکھتی پھر بہن کے شاور کی تصویریں ڈالنے کی کیا تک تھی۔

کیا زمانہ آگیا ہے۔ ٹیکنالوجی نے بھی لوگوں کو ساری حدوں سے بے نیاز کر ڈالا ہے۔ اب ایسا کر ہی دیا ہے تو ذرا میں بھی دیکھوں کہ یہ برائیڈل شاورآخر دیا کیسے جاتا ہے۔ کون کون سی خوشبوئیں پانی میں گھولی جاتی ہیں، دلہن کوکس جگہ بٹھا کر اس بے حیا رسم کو انجام دیا جاتا ہے، پھر موا، باتھ روم کا سائز تو اتنا بڑا نہیں ہوتا کہ اس میں پورا مجمع کھڑا ہو کربرائیڈل شاور سے لطف اندوز ہو، تو بھلا آخر یہ کارِ بے شرم کہاں اور کس طرح تکمیل پاتا ہے، یہ اور اسی جیسے شمار سوالات میں الجھے الجھے میں ایک ایک کر کے ساری تصویر یں دیکھتی چلی گئی اور آخر میں مجھ پہ حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ نہ غسل خانہ، نہ خوشبو دار پانی سے بھری بالٹی، نہ ادھ چھپی ادھ کھلی دلہن، نہ دودھ نہ عرقِ گلاب کچھ بھی تو نہیں۔ یہ کیسا شاور ہے بھیا۔

یہاں تو پھولوں کے گلدستوں میں گھری دلہن سہیلیوں اور رشتے داروں کے درمیان کھڑی کیک کاٹ رہی تھی۔ ہلا گلا موسیقی اور ناچ گانا عروج پہ تھا۔ غرض نہانے دھونے کے بجائے ساری تصویریں پھولوں، تحفوں اور قہقہوں سے بھری تھیں۔ مجھے لگا یہ سب قہقہے میری شرم ناک سوچ پہ حلق سے ابلے ہیں۔ میں نے بھی اپنی سوچ پہ چھی چھی کرتے ہوئے گوگل بھیا کو مدد کے لیے پکارا اور پھرسر تھام کر بیٹھ گئی۔

مغرب میں برائیڈل شاور کی رسم گزشتہ کئی دہائیوں میں بے پناہ رواج پاچکی ہے۔ یہ تقریب دلہن کے دوستوں کی طرف سے تحائف دینے کے لیے منعقد کی جاتی ہے۔ جس کا مقصد گھر والوں پر پڑنے والے شادی کے اخراجات میں تعاون کرنا ہے۔ لیکن افسوس مغرب سے یہاں تک آنے والی بہت سی چیزوں کا راستے میں ہی بیڑہ غرق ہوجاتا ہے۔ نظریات ہوں یا رسمیں اپنا تو لی جاتی ہیں لیکن ان کی روح کو فراموش کردیا جاتا ہے۔

ہمارے یہاں برائیڈل شاور کا اہتمام مغرب کی طرز پہ دلہن کی سہیلیاں نہیں کرتیں بلکہ یہ انتظام بھی ماں باپ کے سر تھوپ کر ان کا بوجھ بانٹا نہیں بلکہ اور بڑھادیا جاتا ہے۔ وہ شادی جہاں پہلے ہی مایوں، مہندی اور کئی کئی رت جگوں کی روایتیں شادی کو مہنگے سے مہنگا کرنے پر تلی ہیں وہاں برائیڈل شاور کو متوسط طبقے میں رواج دینا والدین کی جیب پہ بار بڑھانے کے سوا اور کچھ نہیں۔ پھر برائیڈل شاور کے نام پر یہاں ہونے والی تقریب میں دلہن کی بانکی البیلی سجی سنوری سہیلیاں کم بلکہ پان چباتی پھپھو اور منہ سکیڑ کر بیٹھی خالہ ممانیاں دلہن اور اس کے گھر والوں کو منہ کے فائروں سے خوب شاور دے رہی ہوتی ہیں۔

جہاں عالم یہ ہو کہ مایوں، مہندی اور رت جگے بنا کسی خاندانی ٹینشن کے نہیں نمٹیں، خاندانی رنجشوں کے باعث گھروں میں دو دو رت جگے ارینج کیے جاتے ہوں، ایک ننھیال اور دوسرا ددھیال والوں کا تاکہ دونوں ٹینشنوں کو ایک دوسرے سے زیادہ سے زیادہ دور رکھ کر شادی کو خیر و عافیت سے نمٹایا جاسکے۔ ایسے معاشرے میں برائیڈل شاور کے نام پہ ایک اور مجمع لگاکر ایک بے کاررسم کو رواج دینا اپنے پاؤں پہ آپ کلہاڑی مارنا نہیں تو اور کیا ہے؟

ارے بھیا یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اگر برائیڈل شاور کی یہ رسم مغرب میں اس وجہ سے منعقد کی جاتی ہے کہ شادی سے قبل کچھ ہلا گلا ہوجائے تو یہ کام تو برصغیر میں ہونے والی شادیوں میں ہمیشہ سے ہی دھڑلے سے ہوتا چلا آیا ہے، ناچ گانے اور ڈھول باجوں کے ذریعے رونق میلہ لگانے میں ہمارا کوئی ثانی کب ہے؟ نکاح سے پہلے ارینج ہونے والی انہی تقریبات میں بہت سے قریبی عزیز تحائف دے کر بھی نمٹ جاتے ہیں کہ لڑکی والوں کا بوجھ کچھ ہلکا ہوسکے تو پھر برائیڈل شاور جیسی بے تکی رسم کو فروغ دینے کی وجہ آخر کیا ہے؟

برائیڈل شاور کی رسم کا مغرب میں آغاز یوں تو انیسویں صدی میں ہوچکا تھا لیکن موجودہ صدی میں یہ وہاں تیزی سے مقبول ہوئی۔ مغرب کی اندھی تقلید کرنے سے پہلے ذرا سوچیے کہ شاید انہوں نے مشرقی شادیوں کا رونق میلہ دیکھ کر ہی برائیڈل شاور کو مزید رواج دیا ہو اور اسے اپنی شادیوں کی ایک رسم کے طور پر متعارف کروا کر اپنی خوشیوں کا دورانیہ، جو اکثر بے حد مختصر ہوتا ہے، بڑھانے کی کوشش کی ہو۔ آخر ان بے چاروں کا بھی تو خوشیوں پر حق ہے۔

لیکن ان کی ایک تقریب دیکھ کر ہی اسے اپنانے کی یہاں موت پڑ گئی۔ یہ سوچے بنا کہ اتنی ڈھیر ساری رسموں اور تقریبوں نے پہلے ہی ہمیں بوکھلا رکھا ہے، اخراجات کو ناقابل برداشت حد تک بڑھا رکھا ہے۔ لیکن جناب اس اندھی تقلید کے مرض کا کیا کریں جس نے ہمیں اس بری طرح کاٹ رکھا ہے کہ اس کی ”ریبیز“ خود گورے بھی ایجاد نہیں کر پائے۔

میرا تو مشورہ یہ ہے کہ برائیڈل شاور کے نام پر خاندان والوں کا ایک اورجھمگٹا لگاکر اپنے لیے آزار پالنے کے بجائے دلہنوں کو پانی سے ہی شاور دے لیجیے۔ میری سوچ پہ اس بار چھی چھی کرنے کے بجائے ذرا دیر کو ٹھہر کر سوچیے ضرور۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments