ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کے کشمیر پر بیان پر انڈیا کی مذمت


انڈیا نے ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کے کشمیر سے متعلق بیان کو انڈیا کے اندرونی معاملے میں مداخلت سے تعبیر کرتے ہوئے اسے ناقابل قبول قرار دیا ہے۔

صدر اردوغان نے جمعے کو پاکستان کی قومی اسمبلی کے ایک مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان سے ترکی کی قربت کا اظہار کرتے ہوئے کشمیر سے متعلق پاکستان کے موقف کی مکمل حمایت کا اعلان کیا تھا۔

نامہ نگار شکیل اختر کے مطابق انڈیا نے صدر اردوغان کے بیان پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے دلی میں ترکی کے سفیر سے اس بیان پر اپنی سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔

وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے ایک بیان میں کہا کہ ’صدر اردوغان کا بیان نہ تاریخ کی فہم کا عکاس ہے اور نہ ہی یہ سفارتی ضابطوں کے دائرے میں آتا ہے‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر سے متعلق ان کے بیان میں ’ماضی کے حقائق کو مسخ کر کے مستقبل کے ایک تنگ نظریے کی توجیہہ دی گئی ہے‘۔

یہ بھی پڑھیے

’اقتصادی ترقی چند دنوں میں حاصل نہیں ہوتی ہے‘

رویش کمار نے صدر اردوغان کے بیان کو مکمل طور پرناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا کہ ‘ان کا یہ بیان دوسرے ملکوں میں مداخلت کرنے کے سلسلے کی محض ایک اور کڑی ہے۔ ہم خاص طور سے سرحد پار سے پاکستان کے ذریعے کی جانے والی دہشت گردی کو جائز ٹھہرانے کی ترکی کی کوششوں کو مسترد کرتے ہیں’۔

صدر اردوغان نے کہا تھا کہ ’اپنے پاکستانی اور انڈین پڑوسیوں کے ساتھ کشمیریوں کے ایک محفوظ مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ اس مسئلے کو ٹکراؤ سے نہیں بلکہ انصاف اور مساوات کی بنیاد پر بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے۔’

صدر اردوغان نے اس خطاب میں مزید کہا تھا کہ ‘اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے باوجود کشمیر اب بھی محصور ہے اور اسی لاکھ کشمیری وہاں پھنسے ہوئے ہیں اور وہ باہر نہیں نکل سکتے۔’

انڈیا نے اپنے زیر انتظام کشمیر سے متعلق ترکی کے بیانات کو پوری طرح سے یہ کہہ کر مستر کر دیا ہے کہ ’کشمیر انڈیا کا اٹوٹ انگ ہے اور کسی بھی ملک کو انڈیا کے اندرونی معاملات مں دخل دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔‘

کشمیر ترکی کا ’چنا کلے‘

صدر اردوغان پاکستان کی پارلیمنٹ سے سب سے زیادہ چار مرتبہ خطاب کرنے والے پہلے غیر ملکی سربراہ مملکت بن چکے ہیں۔ اس سے قبل وہ دو بار بطور وزیر اعظم اور ایک بار بطور صدر پاکستان کی پارلمیان سے خطاب کر چکے ہیں۔

اس موقع پر ترک صدر نے کہا کہ ‘کشمیر ترکی کے لیے ‘چنا کلے’ کی حیثیت رکھتا ہے’۔ خیال رہے کہ چنا کلے ترکی کا وہ مقام ہے جہاں موجودہ ترکی نے 1923 میں آزادی کی فیصلہ کن جنگ جیتی تھی۔ اس جنگ میں ہزاروں ترک فوجی مارے گئے تھے۔

طیب اردوغان اپنے ہر خطاب میں اس معرکے کا ذکر کرتے ہیں اور اس میں برصغیر کے مسلمانوں کا نوآبادیاتی چیلنجز کے خلاف کھڑے ہو کر ترکی کی سفارتی، اخلاقی، جانی اور مالی تعاون کرنے کے لیے ہر بار شکریہ ادا کرتے ہیں۔

ترک صدر نے جمعے کے خطاب میں بھی کہا کہ ’اس وقت کشمیر بھی ہمارے (ترکی) کے لیے وہی ہے جو آپ کے لیے (چنا کلے) تھا۔ کل چنا کلے تھا اور آج چنا کلے ہے، کوئی فرق نہیں ہے ان میں۔‘

ترک صدر نے کہا کہ ’پاکستان کا درد ترکی کا درد ہے اور پاکستان کی خوشی ترکی کی خوشی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’بھارت کے یکطرفہ اقدامات سے کشمیری بھائیوں کی تکالیف میں اضافہ ہوا لیکن مسئلہ کشمیر کا حل جبری پالیسیوں سے نہیں بلکہ انصاف سے ممکن ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32557 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp