ریکھا: جنسی استحصال، ناکام محبت، شوہر کی خود کشی اور اداکاری کی معراج میں گم پہیلی


آج میں ایک ایسی انسان کی کہانی گوش گزار کر رہی ہوں جس نے دکھوں سے نبرد آزمائی کے لیے مدافعتی عمل کے طور پہ اپنی زندگی کو حقیقت سے زیادہ فینٹیسی میں گزارا ہے۔ اور یہ جیون کہانی ہے بالی ووڈ کی کوئن، کئی ایوارڑز بشمول پدما شری ایوارڈ کی حامل، پرکشش اور گلیمرس اداکارہ ریکھا کی۔ لیکن اس کے بارے میں کوئی ایک رائے نہیں۔ کسی نے کہا وہ حسین ساحرہ ہے، ہرنی جیسی چال تو مورنی کی سی رقاصہ، کسی کے لیے وہ دیوی، تو بہت سی شادی شدہ عورتوں کے لیے وہ ڈائن کا درجہ بھی رکھتی ہے جواپنے حسن اور جنسی کشش کے جادو سے مردوں کو اپنے قابو میں کر لیتی ہیں۔

اور پھر جب ریکھا کے شوہر نے گلے میں اس کے دوپٹہ کاپھندہ لگا کے پنکھے سے لٹک کر خودکشی کرلی تو اس کے مداحوں تک نے اس کی فلم کے پوسٹرز پہ کالی سیاہی ملی گوبر پھینکا اور اس کو ”بلیک وڈو“ کے خطاب سے نوازا۔ لیکن میری نظر میں 65 سالہ بھارتی اداکارہ ریکھا دراصل وہ پراسرار پہیلی ہے کہ جسے اس کے نصف صدی سے زیادہ فلمی کیرئیر میں بھی بوجھنا محال رہا ہے۔ اس کی شخصیت کے رموز کی پرتیں کھولتے جائیں مگر پرسرایت پہ سے پورا پردہ کبھی بھی نہیں اٹھتا کیونکہ وہ اپنی فینٹسی کی دنیا میں گم ہے جس کی گلیوں کا سرا اس کے بچپن سے جڑا ہے۔

ریکھا کا اداس اور تنہا بچپن:

نفسیات کے حساب سے یہ بات درست ہے کہ ہمارے بچپن کے اثرات سائے کی طرح قبر تک ہمارے ساتھ رہتے ہیں۔ اگر ریکھا کی زندگی کے مختلف رخ دیکھیے تو اندازہ ہوا کہ اس کی شخصیت کے خدوخال کو اس کی زندگی خاص کر بچپن کے تجربات نے تراشا ہے۔ اور اس کے مجموعی رویے پہ ان کی گہری چھاپ ہے۔

ریکھا کا جنم دس اکتوبر 1945 ء کو مدراس چینواے (تامل ناڈو) انڈیا میں ہوا۔ اس کی ماں پشپاولی ایک تلگو اداکارہ اور باپ جیمنیگیناسن ایک مشہور تامل اداکار تھا جو عورتوں سے دلچسپی رکھنے کی وجہ سے ”کنگ آف رومانس“ کے لقب سے مشہور تھا۔ جیمنیگناسن پہلے سے شادی شدہ تھا۔ اس کی شادی 1940 ء میں الامیلو سے ہوئی جس سے اس کی تین بیٹیاں تھیں۔ اس کے علاوہ دوسری بیوی اس وقت کی مشہور اداکارہ ساوتری بھی تھی جس سے اس نے 1952ء میں شادی کی۔ پشپاولی بھی جمینی گناسن کی طرح شادی شدہ مگرشوہر سے الگ تھی۔ اس وقت 1965ء سے پہلے انڈیا کے قانون کے تحت ہندو مرد کو قانونا ایک سے زیادہ شادی کی اجازت تھی تاہم قانونی طور پہ طلاق رائج نہیں تھی۔

ریکھا کا نام پیدائش پہ بھانو ریکھا رکھا گیا۔ گو اس کے والدین کی اور اولادیں بھی ہوئیں مگر اولادوں کی ولدیت سے منکر اور ذمہ داریوں سے دامن چھڑاتے ہوے جلد ہی جیمنی گناسن ان کی دنیا سے دور اپنی رومانس سے بھری فلمی دنیا میں پاس لوٹ گیا۔ اورخال خال ہی اپنی شکل اس گھرانے کو دکھاتا۔ باپ کے ٹھکرائے جانے اور اس کی محبت اور توجہ سے محرومی نے بہت بچپن سے ہی ریکھا میں انمٹ اداسی اور تنہائی کا زہر بھر کے اسے شرمیلا اور اپنی باتیں دل میں رکھ کر اپنے خول میں بند کردیا۔

ریکھا کی پرورش ماں سے زیادہ نانی اور خالہ نے کی کیونکہ پشپاولی پورے دن فلموں کی شوٹنگز میں مصروف رہتی۔ کہ اب وہ باپ کی ذمہ داری بھی نبھا رہی تھی۔ باوجود اپنے محبوب کی اس بے اعتنائی کے بقول ریکھا ”میری ماں نے اپنی محرومی اورمظلومیت کا رونا نہیں رویا۔ ماں تو بس اپنی محبت کے نشہ میں غرق اپنے عشق کی کہانیاں سناتی رہتی۔ “ مگر عشق نے بھلا کس کاپیٹ بھرا ہے؟ اور وہ بھی تصوراتی محبت نے۔ اس وقت تلگو فلموں کا بزنس ہندی فلموں کی طرح نہ تھا۔

اس کے پاس فلموں کی کوئی لمبی چوڑی لسٹ نہ تھی۔ آمدنی کی کمیابی کی وجہ سے ریکھا پہلے ہی ماں کے ساتھ بطور چائلڈ آرٹسٹ کام کر رہی تھی۔ گو ریکھا چھ ماہ کی عمر میں بھی اسکرین پہ آئیں اور پھر ایک تلگو فلم ”اتنی گوٹو“ میں 1958ء میں تین برس کی عمر میں کام کیا۔ مگر ریکھا کی قابل ذکر پہلی تلگو فلم ”رنگیلا رتنم“ ( 1966 ء) تھی۔ اس وقت وہ دوسرے بچوں کی طرح چرچ پارک کونونٹ اسکول میں تعلیم حاصل کر رہی تھی۔

اسی اسکول میں اس کی سوتیلی بہنیں، ساوتری ماں کی بیٹیاں، بھی پڑھتی تھیں۔ ریکھا کا باپ اپنی بیٹیوں کو اسکول سے لینے یاچھوڑنے آتا تو ریکھا پر بھی نظرپڑتی مگر اس نے نہ کبھی ریکھا سے بات کی اور نہ ہی اسے باپ کی محبت کے ذائقہ سے آشنائی کا موقع دیا۔ البتہ اسکول کے بچے ریکھا کو باپ کی ناجائز اولاد سمجھ کر اس کی تضحیک کرتے۔ اس بے عزتی پہ وہ مزید اپنی اندر کی دنیا میں قید ہوتی ہی چلی گئی جہاں وہ تصور میں اپنے باپ سے باتیں کرتی اور اس کی خیالی محبت سے سرشار رہتی۔ اسکول کے بچے اس کی کالی رنگت اور موٹاپے کا بھی مذاق اڑاتے اور وہ ہزیمت اور تمسخر کی اس دنیا سے پرے الگ تھلگ، شرمیلی، کم گو اوردوسروں سے دور درختوں پہ چڑھنے والی ”ٹام بوائے“ بن گئی۔ کہ یہ جینے کے لیے اس کا مدافعتی عمل تھا۔

چمکتی فلمی دنیا کے اندھیروں میں بھٹکتی ریکھا

تیرہ سال کی عمر میں جب اس کی ماں کی طبیعت بہت خراب ہوئی اور گھر میں کھانے پینے کے لالے پڑ گئے تو گویا راتوں راتوہ بڑی ہوگئی۔ اس کی بیمار ماں نے ریکھا کو اسکول سے چھڑوا کے اپنے رشتے کی بہن کے ساتھ فلموں میں قسمت آزمائی کے لیے بمبئی بھجوا دیا۔ اسوقت ریکھا نے آٹھویں جماعت پاس کی تھی۔ اسے تو ایر ہوسٹس بن کر اونچی فضاوں میں اڑنے اور جنوبی افریقہ کے جانوروں سے محبت تھی کہ جانور لفظوں کے دکھ نہیں دیتے وفا کرتے ہیں۔ تاہم گھر کی ضروریات نے اسے مدراس کے گھر سے بہت دور بمبئی کی فلمی دنیا میں لا پھینکا۔ جہاں اسے اداکاری سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ مجبوری تھی آخر گھر کی بڑی اولاد ہونے کے ناتے گھر اس کی ذمہ داری جو تھا۔

بچپن اور ابتدائی بلوغت کے اس نازک دوراہے پہ کھڑی ریکھا کے لیے، گھر خصوصا ماں کو چھوڑ کر اتنی دور اور مرد فلمی ایجنٹ کی سپردگی میں رہنا آسان نہ تھا۔ اسوقت ریکھا صرف تلگو جانتی تھی اور بالی ووڈ کی زبان ہندی اور پنجابی تھی۔ اس اجنبی اور بے حس فضا میں وہ اکثرجو منہ میں آتا کہہ دیتی اور اخباری نمائندے اس کی باتوں کو ایک بچی کی بات کے بجائے بالغ چالاک عورت کے سنسنی خیز بیان سمجھ کے لیتے۔ سیٹ پہ کوئی اسے پٹاخی کہتا تو کوئی کہتا ”یاربڑی کتی چیز ہے“۔

پراسے تو ان الفاظ کامطلب ہی نہ پتا تھا۔ وہ اپنے اس تجربہ کو بہت خوفناک قرار دیتے ہوے لکھتی ہے۔ ”بمبئی ایک جنگل کی طرح تھا جہاں میں بغیرکسی حفاظت کے تھی۔ میں اتنی خوفزدہ تھی کہ اپنی آیا کو اپنے ساتھ سلاتی۔ میں اس نئی دنیا سے بالکل ہی ناواقف تھی۔ مرد میری معصومیت کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے اور میں سوچتی کہ یہ میں کیا کررہی ہوں۔ مجھے آئسکریم کھانا چاہیے۔ ہر روز اسکول میں دوستوں میں ہونا چاہیے۔ میں ہر دن روتی۔ “ ریکھا کو نہ اداکاری پسند تھی اور نہ ہی وہاں کا کھانا، میک اپ، چبنے والے چمکیلے کپڑے اور غیر محفوظ فضا۔ اس زمانے میں اس کی اکثر سیٹ سے بھاگ جانے اور کبھی اونچائی سے کود کر خودکشی کی کوشش کی خبریں بھی تھیں۔

پندرہ برس کی عمر میں جنسی استحصال

پندرہ برس کی عمر میں ریکھا کو فلم ”انجانا سفر“ (جو دس سال بعد دو شکاری کے نام سے ریلیز ہوئی) ۔ کے سیٹ پر ایک تجربے سے گزرنا پڑا کہ جس کا شمار آج کی دنیا میں جنسی استحصال کے زمرے میں ہے۔ اور جوفلم ڈائریکٹر اور ایکٹر کی ملی بھگت کانتیجہ تھا۔ وہ ایک رومانی سین تھا جسمیں ریکھا کو بتائے بغیر ”ایکشن“ کے بعد اداکا ر بسواجیت ریکھا کے لبوں کو پانچ منٹ تک زبردستی پیار کرتے رہے۔ اس دوران تماش بین کی تالیاں بجتی رہیں قہقہے لگتے رہے مگر بے بس ریکھا کی بند آنکھیں صدمہ کے مارے آنسووں سے بھری ہوئی تھیں۔ اس منظر کو ٹائمز آف انڈیا نے سر ورق پہ چھاپا اور اس واقعہ کی وجہ سے اسے ”سیکس کٹن“ کالقب ملا۔

مضبوط مرد کا سہارا ڈھونڈتی نو جوان بے بس ریکھا

فلمی دنیا کی غیر محفوظ فضا میں اسے کسی ایسے مرد کو اپنانے کی خواہش تھی جو مضبوطی سے اس کا ہاتھ تھام لے اور ٹوٹ کے چاہے۔ جو اسے نہ باپ سے ملا اور نہ بھائیوں سے۔ باپ کے لیے وہ اس کی بیٹی تھی ہی نہییں اور باقی گھر والوں کے لیے وہ معاشی اور جذباتی سہارا تھی۔ اور اسے محبت کی تلاش میں شادی اور بچوں کی معصوم خواہش تھی کہ ”کوئی مجھے بہت چاہے۔ میراسچے دل سے خیال رکھے اور میرے بہت سے بچے ہوں“ (انٹرویو 2004 ء) ۔

اس نے بہت خلوص سے اپنے ساتھ کام کرنے والے فلمی ہیروز کو اپنی اصلی رومانی دنیا میں بسانا چاہا۔ مگرفلمی دنیا میں چمکتی چیز اصلی سونا نہیں ہوتی۔ اپنے رومانی سفر میں محبوب کی تلاش میں کئی فلمی دنیا کے نام اس کے ساتھ جڑے مگر ونود مہرہ کا نام میں اہم سمجھتی ہوں۔ جسے ریکھا نے ہمیشہ اپنا پرخلوص دوست گرد انا۔ اور جس کے ساتھ اس کی شادی کی افواہیں تھیں۔ ریکھا پہ چھپی سوانح ”ریکھا۔ این ان ٹولڈ اسٹوری“، جسے یاسر عثمان نے لکھا، کے مطابق کلکتہ میں شادی کے بعد ونود ریکھا کو بمئی لائے اور جب ریکھا اس کی ماں کملا مہرہ کے پاؤں چھونے لگیں تو انہوں نے جوابا نہ صرف ریکھا کو گھر میں داخل ہونے سے روک دیا بلکہ غصہ میں آکر پاؤں کی جوتی اٹھا لی۔ اس حملہ پر حیران ریکھا روتی ہوئی لفٹ کی جانب بھاگی اور ونود اس کے پیچھے جبکہ محلے والے اس واقعہ کو تماش بین کی طرح دیکھ رہے تھے۔ یہ واقعہ 1973 ء کاتھا جب ریکھا کی عمر 19 سال کی تھی۔ گو ریکھا نے اس شادی سے انکار کیا ہے۔

مسلسل ریاضت اور کامیابی

1970 ء کی ابتداء دھائی ریکھا کی زندگی میں اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس کی فلموں کی کامیابیوں کے در کھلنے شروع ہوئے۔ گھر کیمعاشی حالات بہتر ہونے لگے کھانا پینا، اور زندگی کی سہولیات میں اضافہ کے ساتھ بہن بھائیوں کی تعلیم اور ماں کا علاج۔ 1927 ئمیں اس نے اپنا فلیٹ خرید لیا تھا۔ اسوقت اس کی عمر 18 سال کی تھی۔ اس کی پہلی ہندی فلم ساون بھادوں 1970 ء نے اسے اسٹارتو بنا دیا مگر اپنی گہری سانولی رنگت اور فربہ جسم کی وجہ سے اسے مستقل تمسخر کا سامنا تھا۔

مثلاًاگر ششی کپور نے کہا ”یہ کالی، اور موٹی اداکارہ کس طرح اپنا مقام بنائے گی؟ “ توکسی نے اسے اگلی ڈکلنگ ugly duckling کا لقب بھی دیا۔ اس بے عزت رویے نے اسے اپنے حلیہ کو بدلنے پہ مائل کیا۔ اپنی جسمانی حالت بدلنے میں اسے ڈھائی سال کا عرصہ لگا جب اس نے تقریباًفاقے کرکے، الائچی والا دودھ پی کے اور جنک junk کھانا خصوصا پسندیدہ چاکلیٹ سے پرہیز اور باقاعدگی سے یوگا کرنے کے بعد اپناجسم حیران کن حد تک پرکشش بنا لیا۔ اس نے میک اپ اور لباس کے انتخاب پہ خاص توجہ دی۔ اور نئی ماہیت نے اس کی چال ڈھال اور انداز گفتگو ہی نہیں آواز کو بھی بدل کر ”سیکس سمبل“ بنا دیا۔

ریکھا کا امیتابھ جی سے اٹوٹ پیار

اب ریکھا کو ملنے والی فلموں کی تعداد اور کامیابی میں ایک دم ہی اضافہ ہوگیا۔ اور یہ وہی زمانہ تھا کہ 1976 ء میں انہیں ایک ہینڈ سم اور اداکاری میں سنجیدہ اداکار امیتابھ کے ساتھ سائن کیا گیا۔ جن کا جسم ہی نہیں اداکاری بھی قدآور تھی۔ امیتابھ نے گو 1969 ء میں کام کا آغاز کیا مگر جلد ہی اس کا نام کامیابی کی ضمانت بن کر چمکنے لگا۔ جب 1976 ء میں انہیں ریکھا کے ساتھ فلم ”دو انجانے“ کے لیے سائن کیا گیا اس وقت تک انہیں آنند ( 1971 ) اور دیوار ( 1973 ) جیسی فلموں میں فلم فئیر ایوارڈ مل چکے تھے۔

شعلے، ابیمان، کبھی کبھی، نمک حرام جیسی فلمیں تہلکہ مچا چکی تھیں۔ جبکہ ریکھاپہ ابھی تک اپنی اداکاری کے ہنرپوری طرح منکشف نہیں ہوئے تھے۔ صبح نو بجے سے رات گیے تک فلم اسٹوڈیو میں کام تو اس کی مجبوری اور روزی روٹی کا سودا ٹھہرا تھا۔ لیکن امیتابھ کے ساتھ فلم کرنے کا مطلب تھا کام میں سنجیدگی۔ وہ غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک تھے اور ریکھا جو خود غیر معمولی ذہین انسان ہے اور معمولی لوگوں سے متاثر نہیں ہوتی۔

امیتابھ کی ”صفات سے مرصع“ شخصیت نے بہت متاثر ہوئی اور اسے اپنا ”بہترین استاد اورگُرو“ قرار دیا۔ ساتھ ہی اسنے امیتابھ کی صلاحیتوں کو اپنے اندر جذب کرکے اپنی شخصیت کو بھرپور انداز میں نکھارا۔ فلم ”دوانجانے“ اور اس کے بعد کئی فلموں میں اکٹھے کام کے بعد امیتابھ سے ریکھا کا جو قلبی رشتہ جڑا، اس کا فسوں آج تک ریکھا پہ طاری ہے۔ (کہا جاتا ہے کہ فلموں کی شوٹنگز کے بعد دونوں باقاعدگی سے امیتابھ کے دوست کے فلیٹ میں ملتے تھے۔ ) بعد کے سالوں میں اس مقبول فلمی جوڑے کی شاندار کیمسٹری کے ملاپ نے دس کامیاب فلموں کو جنم دیا۔ (گیارہویں فلم ”شمیتاب“ 2015 ء میں ریلیزہوئی۔ )

انکے درمیان معاشقہ مستقل چہ میگوئیوں کا پسندیدہ موضوع رہا ہے۔ جس کا ریکھا نے تو اپنے انٹرویوز میں بالکل کھل کیاظہار کیا ہے مگر امیتابھ نے کبھی بھی اس پر بات نہیں کی۔ ان کی جیہ بھادری سے 1973 ء میں شادی ہو چکی تھی۔ ان کا گھرانے کا شمارسماجی اعتبار سے نمایاں تھا۔ جس کی برتری کا انہیں بخوبی احساس بھی تھا۔ ہوسکتا ہے کہ ریکھا سے محبت کے اقرار میں ان کا یہی خاندانی علمی اور سماجی رتبہ مانع رہا ہو۔ یا وہ اپنے سچ کے کنکر سے اپنی شادی شدہ زندگی کو متلاطم نہ کرنا چاہتے ہوں۔

بات کچھ بھی ہوسکتی ہے۔ البتہ ریکھا نے اپنے سیمی گر وال کے انٹرویو میں امیتابھ سے تعلق کو اپنی ”زندگی کے سب خوبصورت واقعہ“ سے تعبیر کیا ہے۔ ”یقیناً میں اس کے عشق میں مبتلا ہوں آپ دنیا بھر کی محبتیں لے لیں اور اور اس میں کچھ اور بھی شامل کردیں تو وہ میں اس شخص کے لیے محسوس کرتی ہوں۔ “ ان کی امیتابھ اور جیا بھادری کے ساتھ یاش چوپڑہ کی فلم ”سلسلہ“ اس گھمبیر تعلق کی حقیقی تصویر ہے۔ جس میں ریکھا نے محبوبہ اور جیہ نے امیتابھ کی بیوی کا کردار ادا کیا۔

گو دس کامیاب فلموں کے بعد امیتابھ نے ہدایت کاروں کو فلم ”مقدر کا سکندر“ کے بعد ریکھا کے ساتھ کام نہ کرنے کے فیصلہ سے آگاہ کردیا، مگر ریکھا کے وجود میں امیتابھ سے عشق کا گھنا پودا پروان چڑھ چکا تھا۔ امیتابھ کے اس یک طرفہ فیصلے سے ریکھا کا اپنے محبوب امیتابھ سے وہ قلبی تعلق کبھی نہ ٹوٹا کہ جس کے لیے وہ ذاتی ملاقات یا لفظوں کی ادائیگی ضروری نہیں سمجھتی۔ اس کے لیے ”بس ایک گہری نظریا لمحہ اور خاموشی بھی“ ساری عمر کے تعلق کے لیے کافی ہے۔ انہوں نے اپنے انٹرویو میں کہا ”ریکھا کا مطلب ہے خاموشی“۔ اس طرح ریکھا اپنی تصوراتی دنیا میں امیتابھ سے بھی اسی طرح ہمکلام رہی جس طرح زندگی بھر اپنے باپ سے۔ جس سے اس نے حقیقی زندگی میں بات کرنے کے بجائے تصورات میں ہی باتیں کیں۔

”ریکھا میری بیٹی“

گو ریکھا نے اپنے باپ سے ماسوا تصوراتی کلام کے گفتگو کا رشتہ نہیں جوڑا، مگر 1994 ء میں جب جیمنی گیینی سن کو 73 سال کی عمر میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ ملا تو اس ایوارڈ کو دینے کے لیے ریکھا کو مدراس بلایا گیا۔ جہاں اسٹیج پہ اس نے اپنے باپ کے پیر چھوئے اور اس موقعہ پہ پہلی بار باپ نے بھرے مجمع کے سامنے کہا کہ وہ بہت خوش ہیں کہ ان کی اولاد بمبئی سے انہیں ایوارڈ دینے کے لیے مدراس آئی ہے۔ ”افسوس اس جملے کو سننے کے لیے ریکھا کی ماں پشپاولی نہ تھی جو طویل علالت کے بعد 1990 ء میں انتقال کر گئی تھی۔

اس دن شاید پہلی بار ریکھا کا سر باپ کی قبولیت کے افتخار سے بلند ہوا ہوگا۔ وہ لمحہ جو اس کے سارے انعامات پہ بھاری ہوگا۔ حالانکہ ساری زندگی اپنے باپ کے عدم التفات کے باعث ا س میں تحفظ کا فقدان اور مردوں سے گفتگو میں بے اعتمادی اورجھجھک آڑے تھی۔ ریکھا نے اپنے انٹرویو میں شبانہ اعظمی کی شخصیت میں بھر پور اعتماد اور احساسِ تحفظ پرشک کرتے ہوئے اپنے اندر اس کمی کا اظہار کیا۔

اپنے وجود سے رشتہ اور قبولیت

اپنے ایک انٹرویو میں ریکھا نے کہا کہ وہ صرف دنیا والوں کی نظر سے اپنے آپ کو دیکھتی ہے۔ ”میرے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ دنیا والے مجھے سمجھتے ہیں کہ میں ان کی ہوں۔ میں اپنے وجود کی وجہ سے زندہ نہیں میں ان کی وجہ سے زندہ ہوں“۔ ریکھا کے ان جملوں میں انکساری سے زیادہ وہ عدم اعتماد و التفات جھلکتا ہے جسے انہوں نے مسلسل جھیلا۔ تاہم بچپن میں باپ کا عدم التفات ہو، اسکول کے بچوں کا اس کی کالی رنگت اور کم رو ہونے، نا جائز اولاد ہونے پہ تمسخر ہو یا پھر نوجوانی میں بمبئی کے فلمی دنیا کے صحافیوں کا ظالمانہ حد تک ہتک آمیز رویہ، ریکھا نے اپنے اپنی ذات کی قبولیت اور صلاحیتوں کو منوانے کے لیے مسلسل محنت کی۔

وہ چاہے فلمی دنیا میں اپنے جسم اور چہرے کو پرکشش بنانے کی جدوجہد ہو یا امراؤ جان ادا جیسی کلاسیک آرٹ فلم میں شاندار اداکاریاور رقص کی مہارت۔ ذاتی زندگی میں اسے دنیا نے ٹھکرایا تو اس نے اپنے آپ کو گلے لگا کے قبول کیا۔ ”میری نظر میں یہ زیادہ معنی رکھتا ہے کہ میں اپنے آپ سے کیسے رشتہ جوڑوں اور خود کی نظر میں کیسی ہوں؟ میں نے کوشش کی کہ صیحیح راستہ پکڑوں۔ اورمجھے لگتا ہے کہ بطور انسان میں ٹھیک ہی ہوں“۔

زندگی کے تجربات نے اس کی گفتگو میں سنجیدگی، فلسفہ اور روحانیت کے رنگ بھردیے ہیں۔ اس نے دوسرے فنکاروں کے تجربات سے سبق لیتے ہوئے اپنے آپ کو شراب اور منشیات سے دور رکھاکیونکہ وہ سب سے بڑی بہن تھی۔ اسے اپنی قربانیوں کے بل بوتے پہ ان کا معاشی ہی نہیں جذباتی سہارا اور رول ماڈل بھی بننا تھا۔ خود تعلیم حاصل نہ کرسکی لیکن بہن بھائی کو اعلیٰ تعلیم دی۔ ان کی شادیاں کیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ شادی اور ماں بننے کی شدید خواہش ریکھاکی بھی تھی۔

ریکھا ایک بیوی

ریکھا پہ فلمائے گانے ”ان آنکھیں کی مستی کے دیوانے ہزاروں ہیں“ میں ایک دیوانے دلی کے مشہور صنعتکار مکیش اگروال بھی تھے جن سے ریکھا کی شادی 1990 ء میں ہوئی جو مکمل ارینج تھی مگر سات ماہ بعد اس کا انتہائی افسوسناک انجام مکیش اگروال کی خودکشی کی صورت تھا۔ جو شدید ڈیپریشن کے مریض تھے۔ موت کے وقت دونوں شادی شدہ مگر علیحدہ تھے۔ خودکشی ریکھا کے دوپٹہ گلے میں ڈال کر اور پنکھے سے لٹک کر کی گئی لہٰذایہ واقعہ ایک انتہائی متنازعہ معاملہ اختیار کر گیا۔

اور جتنے منہ اتنی باتیں تھیں۔ باوجود مکیش کی خودکشی سے قبل لکھے نوٹ کے کہ اس کا کسی کو دوش نہ دیا جائے، لوگوں نے اس کا ذمہ دار ریکھا کو ٹھہراتے ہوے اپنی نفرتوں کابھرپور نشانہ بنایا ”مثلاً انوپ کھیر نے کہا“ ریکھا ایک قومی ویمپ بن گئی ہیں ”۔ سبھاش بھائی نے اسے فلم انڈسٹری پہ دھبہ قرار دیا۔ ریکھا نے اس تمام تجربہ کو اپنا“ کریش کورس ”قرار دیتے ہوے بہت کچھ سیکھا۔

گوبظاہر ریکھا کا کوئی شوہر نہیں۔ لیکن تقریبات میں اس کی سجاوٹ اور مانگ کا سیندور لوگوں کے دلوں میں سوال پیدا کرتاہے۔ آخر وہ یہ سب کس کے لیے کرتی ہے؟ پہلی بار ریکھا نے اپنی مانگ میں سیندور 1980 ء میں رشی کپور اور نیتو سنگھ کی شادی میں شرکت کے وقت لگایا اور تمام لوگوں کو حیران کردیا کیونکہ یہ سہاگن ہونے کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ یہ وہی زمانہ تھا کہ جب امیتابھ اور ریکھا کے درمیان تعلقات کی افواہیں گرم تھیں۔ شادی میں ریکھا جب امیتابھ سے گفتگو کر رہی تھیں اس وقت جیہ نے کچھ دیر تو انہیں دیکھا۔ مگر پھر اس کے آنسو بہنے لگے۔ رشتہ میں پڑتی دراڑ نے بالآخر امیتابھ کو ریکھا سے دوری کا فیصلہ کرنے پہ مجبور کردیا۔ لیکن ریکھا اپنی مانگ میں آج تک سیندور لگاتی ہے۔ بیوہ ہونے کے بعد بھی۔

عمر کے اس مقام پہ جب اکثر لوگ تھک جاتے ہیں ریکھا مسلسل کچھ نہ کچھ سیکھنا اور علم حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس کے پاس ایک شاندار لائبریری ہے۔ اس کو کئی کتابیں زبانی یاد ہیں۔ مگر اس نے بتایا کہ وہ کبھی کچھ نہیں پڑھتی۔ بس کتابیں سنتی ہے جو اس کو اس کے ساتھ تیس سالوں سے ساتھ رہنے والی سیکریٹری فرزانہ روز پڑھ کر سناتی ہے۔ ویسے وہ بہت سوشل نہیں لیکن اپنے تمام سگے اور سوتیلے بہنوں اور بھائی سے اس کے بہت اچھے تعلقات ہیں۔

ریکھا کے شوق یوگا، گانے گانا، کارٹون بنانا، چار کول سے پینٹنگ کرنا، شاعری کرنا، پوسٹ کارڈ اور تصویریں جمع کرنا اور زبردست نقالی کرکے دوسروں کو ہنسانا ہے۔ آخرکار اس کی ساری زندگی دوسروں کی خوشی کے لیے گزری ہے۔ وہ کہتی ہے ”میرے بس میں ہی نہیں کہ میں پیار نہ کروں“۔ اس کا ایک شوق بہترین ساڑیاں اور زیور پہن کر تقریبوں میں لوگوں کو اپنی موجودگی سے چونکانا بھی ہے۔ کیوں نہ ہو؟ آخر کار اس کو سالوں نظر اندازبھی تو کیا گیا ہے۔ جبھی تو وہ اپنے انٹرویوز میں اکثر بہت دل سے اپنے پسندیدہ گلوکارمہدی حسن کا یہ گانا گاتی ہے۔

مجھے تم نظر سے گرا تو رہے ہو

مجھے تم کبھی بھی بھلا نہ سکو گے

یقیناً ریکھا اپنے فن اور شخصیت میں منفرد ہے اور اب جبکہ اس کی ذات کی کچھ پہیلیاں بوجھی جا چکی ہیں، اس کی بھرپور صلاحیتوں سے انحراف اور اسے نظرانداز کرنا یقیناً حق تلفی ہوگی۔

(نوٹ: ریکھا نے بیشمار کمرشل اور آرٹ فلموں میں کام کیا۔ اپنے بہترین فن کے اعتراف میں اسے تین فلم فئیر ایوارڈز، ایک نیشنل فلم ایوارڈ اور 2010 ء میں پدما شری ایوارڈ سے نوازا گیا۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments