واہت تونا کا آرٹ: پاؤں کی جوتی سے منہ پر جوتی تک


گو کہ ہمیں خبریں سننے کا قطعی کوئی شوق نہیں لیکن پچھلے دنوں اس قدر شور و غوغا تھا کہ ہمیں کان دھرنا ہی پڑے۔

سنا ہے کوئی وزیر مشیر ٹی وی پہ آئے اور اپنی زنبیل سے جوتے برامد کرکے میز پہ پٹخ دیے۔ اینکر اور ساتھی تو محظوظ ہوئے ہی، اہل پاکستان کی بھی باچھیں کھل گئیں۔ پاکستان میں چونکہ تفریح کی شدید کمی ہے سو ایک مفت کا تماشا لوگوں کے ہاتھ لگا، خوب ٹھٹے لگے۔ یوں مہنگائی اور سردی کے مارے ہوؤں کے سٹریس میں خاطر خواہ کمی ہوئی۔ تحریک انصاف کے سر پہ ایک سہرا اور سجا کہ عوام کی صحت کا بھی خیال رکھنے کا کماحقہ بندوبست ہے۔

ہمیں تو ان مشیروں، وزیروں اور اینکروں سے کچھ لینا دینا نہیں، نہ ہی جوتوں کے شجرہ نسب کھنگالنے کا کوئی شوق ہے۔ ہمارے کان یوں کھڑے ہوئے کہ رنگا رنگ جوتے پہننے کا بہت شوق ہے۔ موقع محل کی مناسبت، لباس کی میچنگ، پاؤں کی سہولت اور آرام سب مد نظر رہتا ہے۔

ہسپتال میں لوفرز، جمنیزیم میں ٹرینرز، سیر کے لئے جاگرز، سفر کے لئے فلیٹ، اور پارٹی کے لیئے اونچی ایڑی۔ دوسری قومیتوں سے تعلق رکھنے والے ہمارے ساتھی اکثر پریشان ہو کے ہم سے پوچھ لیتے ہیں کہ ہم اتنے جوتوں سے کیسے نباہ کرتے ہیں؟

ہم آہستہ سے دل ہی دل میں جواب دیتے ہیں، کیسے بتائیں تم لوگوں کو کہ پاکستانی عورت تو بچپن سے ہی جوتے کھانے کی عادی بن جاتی ہے۔ جوتوں کے ساتھ مزے مزے کی گالیاں، بقدر ضرورت تھپڑ اور گھونسہ اضافی سہولیات ہیں۔

جوتوں سے تواضع کی تیاری والدین بچپن سے ہی کروانا شروع کر دیتے ہیں۔ اگر بچیاں فرمائشوں اور خواہشوں کی تھوڑی ضد وغیرہ پکڑیں تو فوراً پیش گوئی کر دی جاتی ہے کہ یہ ہونہارسسرال میں خوب جوتے کھائے گی۔ ماں باپ کے منہ سے یہ سنہری الفاظ سن کے بچی بے چاری کی سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ جوتے کھانا شادی کے کس پیکج کا حصہ ہے؟

عورت کو جوتے رسید ہونے کی تیاری میں صرف ماں باپ ہی حصہ نہیں ڈالتے، یہ کام خاندان کا ہر فرد کماحقہ کر رہا ہوتا ہے۔

“سنو، بیٹی کو اتنی آزادی مت دینا، تمہیں جوتے پڑوائے گی”

” دو جوتے روز مارا کرو، عقل ٹھکانے رہے گی “

” دوں ایک جوتا، ہمارا چونڈا کٹوائے گی کیا “

دن رات جوتے سے پذیرائی ملنے کی پیش گوئی کے بعد مسقبل کے اندیشوں میں گھری دلہن سسرال کے کچھار میں پہنچتی ہے تو پہلے ہی دن سمجھا دیا جاتا ہے کہ بی بی کسی یوٹوپیا میں مت رہنا یہاں تمہارا مقام کبھی جوتے کی نوک ہو گی اور بوقت ضرورت پاؤں کی جوتی۔

لیجیے جناب، وزیر صاحب کے جوتوں نے تو ہمیں نہ جانے کیا کچھ یاد دلا دیا۔ پاکستان میں تو جو ہوتا ہے سو ہوتا ہے لیکن ہمسایہ ملک ترکی کے ایک آرٹسٹ نے انہی جوتوں کو کرب کی علامت بنا کے ابھارا ہے۔ خبر ہے کہ سالانہ اعداد و شمار میں 2018 میں ترکی میں گھریلو تشدد کے بعد شوہروں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والی عورتوں کی تعداد چار سو چالیس تھی جو دوہزار سترہ کے مقابلے میں زیادہ رہی۔

حساس دل کے حامل آرٹسٹ واہت تونا نے دل گرفتگی کے عالم میں سوچا کہ اس ظلم کے متعلق عوام الناس میں آگہی کیسے پیدا کی جائے،

” میں چاہتا تھا سڑک سے گزرنے والا ہر شخص یہ یادگار دیکھے۔ میں اپنے کام کی نمائش آرٹ گیلری کے کسی بند کمرے میں نہیں کرنا چاہتا تھا”

واہت نے زندگی ہارنے والی ان چار سو چالیس مقتول عورتوں پہ ہونے والے اس ظلم وتشدد کو چار سو چالیس جوتوں کے جوڑوں کی شکل میں اجاگر کیا ہے جنہیں ایک آرٹ انسٹالیشن کی صورت میں استنبول میں ایک دیوار پہ ٹانگا گیا ہے۔ 260 میٹر لمبی دیوار پہ ٹنگے 440 جوتے ان عورتوں کی کہانیاں سناتے ہیں جو خامشی سے گھروں کے اندر ماری گئیں۔ وہ کہانیاں جو کبھی کہی نہیں گئیں، جو کبھی سنی نہیں گئیں۔ یہ جوتے علامت ہیں ان تمام چیخوں کی جو بڑی بڑی دیواروں کے پیچھے گلے میں ہی گھٹ گئیں۔

واہت کا کہنا یہ ہے کہ میرا یہ کام صرف آر ٹ انسٹالیشن ہی نہیں بلکہ قتل کی جانے والی عورتوں کی آواز بھی ہے جسے روزانہ ہزاروں لوگ دیکھتے اور سنتے ہوئے گزرتے ہیں۔

ہمیں یوں محسوس ہوا کہ جوتے نہ صرف ان عورتوں کی یادگار ہیں بلکہ خاموش زبان میں عورت کا مرد کی زندگی میں مقام بھی واضح کرتے ہیں۔ زندگی کے ہر سرد وگرم میں سختیاں جھیل کے ساتھ دینے والا کس خاموشی سے تاریک راہوں میں مارا جاتا ہے کسی کو خبر ہی نہیں ہوتی۔

آگ میں جھونکی گئی آنکھوں سے پوچھو

تم نے دیکھی اور سہی ہیں

ان گنت شعلوں کی بل کھاتی زبانیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments