دیوتا جنازوں پر نہیں جاتے


پچھلے دنوں جناب نعیم الحق صاحب کے انتقال پر جب خان صاحب کسی وجہ سے نمازجنازہ میں شریک نہیں ہو سکے تو سوشل میڈیا پر بہت واویلا ہوا۔ بڑے سیاستدان تو جنازوں میں جانے کا موقع ڈھونڈتے ہیں لیکن عموماً بڑے لوگ کنی کترا جاتے ہیں کیونکہ ہم نے انہیں دیوتا کا درجہ دے دیا ہوتا ہے۔ دیوتا پر چڑھاوے تو چڑھائے جا سکتے ہیں لیکن انہیں جنازوں میں گھسیٹا نہیں جا سکتا۔ میں نے اپنا مافی الضمیر اس نثری نظم میں بیاں کر دیا اور یو ٹیوب پر ڈال دیا۔

دیوتا جنازوں پر نہیں جاتے

وہ بے چارے تو قید ہوتے ہیں

اپنی ذات کے حصار میں

انا کے خمار میں

دیوتا تو خود چڑھاووں کے منتظر ہوتے ہیں

جب حسین عورتیں ان کے قدموں میں عصمت تیاگتی ہیں

جب لوگ اپنی قیمتی متاع بیچ کر انہیں دیکھنے کی آرزو کرتے ہیں

جب انہیں چھونے کے لئے جنگجو سلطنتیں روند ڈالتے ہیں

جب بچوں کے پیٹ کاٹ کر دیوتاؤں کے مجسمے بنائے جاتے ہیں

اور ان مجسموں کے سائے میں بیٹھ کر لوگ آفات سے بچنے کی دعائیں کرتے ہیں

ان دعاؤں کی تعبیر نہ ملنے پر دیوتاؤں کی ناراضی پر بین کرتے ہیں

اور بین کرتے کرتے دیوتاؤں کا سایہ سر پر رہنے کی التجا کرتے ہیں

تو دیوتا کے احساس تفاخر کے سامنے ہر جنازہ محض ایک چڑھاوا نظر آتا ہے

دیوتا جنازوں کو پسند بھی نہیں کرتے کیونکہ

جنازوں میں مرنے والے سے جدائی پر رویا جاتاہے

دیوتا اپنے سوا کسی کو اہمیت نہیں دیتے

بالکل کسی کارپوریٹ باس کی طرح

کسی مشہور فنکار کی طرح

کسی جاہل پہلوان کی طرح

دیوتا کے لئے ہر وہ شخص اہم ہے جو کام آ ئے

جس کا جنازہ ہی اٹھ گیا وہ کیا کام آ سکتا ہے

لیکن نہیں ہر جنازہ ایک جیسا نہیں ہوتا

کچھ جنازوں کے لئے دیوتا بھاگتے پھرتے ہیں

وہ ان سے بڑے دیوتاؤں کے جنازے ہوتے ہیں

دراصل دیوتا خود کچھ نہیں ہوتا

سادہ دلوں کی بے ہودہ نیاز مندی

بجھتے دیے کوبھی دیوتا بنا دیتی ہے

دیوتا جنازوں پر تو نہیں جاتے

لیکن کبھی ان دیوتاؤں کو اکیلے میں ملیں

یہ دیوتا اپنے عضو تناسل سے بھی چھوٹے ہوتے ہیں

کبھی ان دیوتاؤں کو ہوس و حرص کی منڈی میں دیکھیں

بظاہر بے نیازی کا بہروپ بھرنے والے

رانوں اور پستانوں کے لئے بلکتے نظر آتے ہیں

دیوتا جنازوں پر نہیں جاتے

کیونکہ جنازے بہت وقت لیتے ہیں

جھوٹ موٹ رونا پڑتا ہے

بغلگیر ہونا پڑتا ہے

جنسی تلذذ کے لئے بغلگیر ہونے میں مزا ہے

جنازوں پر بغلگیر ہونے میں بوریت ہے

دیوتا روتے ہوئے اچھے نہیں لگتے

دیوتا مزے لیت ہوئے اچھے لگتے ہیں

تاکہ وہ جو زندگی کی بھٹی میں پس رہے ہیں

دیوتاؤں پر رشک کریں۔

دیوتا جنازوں پر نہیں جاتے

نہ وہ جنازے پسند کرتے ہیں

جنازے جدائی کی کہانی سناتے ہیں

اور دیوتا ہمیشہ کے لئے ہیں

ہمیشہ مزا کرنے کے لئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments