خواہشیں۔۔۔ بے کراں رات کے سناٹے میں


یہ خواہشیں بھی بڑی عجیب ہوتی ہیں ان سے دور بھاگو تو یہ خوابوں میں آنے لگتی ہیں اور بس خواب میں آنے پر بات ختم نہیں ہو جاتی یہ تو خود کو کسی کم عمر شوخ چنچل دلہن کی طرح سجائے پوری رنگینی اور حسرت کا آنچل اوڑھے بے چینی کے دروازے پر دستک دیتی ہیں

جب بے چینی اس کی آہٹ محسوس کرتی ہے تو دل کے در و دیوار پر لرزش کرتی ہے زور زور سے ہاتھ مارتی ہے کہ دل کا کوئی چور دروازہ کھُل جائے اور وہ کہیں بھاگ جائے لیکن کہاں جائے۔

پھر جب خواہش حسرت کا آنچل اوڑھے بے چینی کے قریب آتی ہے تو اس بے چینی کو اپنا تابع کر لیتی ہے اس کے حکم کے مطابق بے چینی دل و دماغ کا سکون چھین لیتی ہے اور لاچار کر دیتی ہے۔

کبھی اچھا کبھی بُرا عمل کروانا شروع کر دیتی ہے ذات کے بے نام و نشان ہونے تک سکون کو چھین لیتی ہے پھر یہ کسی ریت کے ٹیلے کی طرح دل پر قابض ہو جاتی ہے جب اس میں ضد کی تھوڑی چاشنی ملتی ہے تو وہ اس ٹیلے کو سیراب کر کے اسے منجمد کر دیتی ہے اور یہ ایک بوجھ کی طرح ہر لمحہ اپنا آپ دکھاتا رہتا ہر لمحہ اپنا آپ محسوس کرواتا ہے

دماغ بہت کوشش کرتا ہے اس دل سے بوجھ ہٹانے کی وہ بھاگتا ہے اور بھاگتا چلا جاتا ہے لیکن کہاں تک کس حد تک۔

اس پر قابو پانا یا اس کی تدفین کرنا بھی ایک عمل ہے انسان ایسا کر بھی لیتا ہے لیکن جب اس کی تدفین ہوجایا کرتی ہے تو یہ ایک نا رُکنے والی اور مسلسل بڑھنی والی ہر لمحہ چاہے خوشی کا ہو غم کا یا کسی اور کی خوشی کا ایک ایسی لہر چھوڑے جاتی ہے جسے ؛ ”کسک“ کہتے ہیں۔

یہ دل میں پنپتی ہے اور آخری سانس تک ساتھ نبھاتی ہے

کچھ خواہشات کی تکمیل بھی ہو جایا کرتی ہے اور جیسے ہی ان کی تکمیل ہوتی ہے یہ کسی بادل کی طرح اپنی بوندیں سمیٹے خشک ہو جاتی ہیں اور جاتے جاتے دل کے ویرانے کو چمن میں تبدیل کر دیتی ہے ہاں کچھ خواہشات ایسی بھی ہوتی ہیں۔

کچھ خواہشات بہت معصوم ہوتی ہیں۔ وہ دل کے کسی کونے میں خاموشی اختیار کیے اپنی زندگی بسر کرتی ہیں۔ کبھی کبھی یاد دلاتی ہیں خود کو اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہیں۔ لیکن جونہی اسے واپس سو جانے کا حکم صادر کرتا ہے دل فوراً سو جاتی ہیں بنا پلکے جھپکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments