چینی اویغور مسلمان: داڑھی رکھنے، پردہ کرنے اور انٹرنیٹ کے استعمال پر زیرِحراست


Redacted copy of The Karakax List in Chinese

بی بی سی نے ایک ایسی دستاویز دیکھی ہے جو بتاتی ہے کہ چین میں حکام حراستی مراکز میں رکھے جانے والے ہزاروں مسلمانوں کی قسمت کے فیصلے کیسے کرتے ہیں۔ یہ ان کیمپوں کے بارے میں سامنے آنے والی سب سے ٹھوس معلومات ہیں۔

اس دستاویز میں تین ہزار سے زیادہ لوگوں کی ذاتی تفصیلات درج ہیں جن کا تعلق مغربی خطے سنکیانگ سے ہے۔ اس میں ان کی روزمرہ زندگی کی معلومات کے بارے میں بتایا گیا ہے۔

بہت محنت سے مرتب کیے جانے والے یہ ریکارڈ کل 137 صفحات پر مشتمل ہیں جس پر مختلف کالمز ہیں۔ اس میں یہ لکھا ہے کہ لوگ کتنی باقاعدگی سے نماز پڑھتے ہیں، لباس کیسا پہنتے ہیں، کس سے رابطہ کرتے ہیں اور ان کے خاندان کے لوگوں کا رویہ کیسا ہے۔

چین کا کہنا ہے کہ سنکیانگ میں رائج پالیسی یہی ہے کہ ‘احترام اور لوگوں کی مذہبی آزادی کو یقینی بنایا جائے۔’ وہ اپنے ووکیشنل تربیتی پروگرام کا بھی دفاع کرتا ہے اور اسے دہشت گردی اور مذہبی انتہاپسندی کا مقابلہ کرنے کے مقصد کے لیے بنایا گیا پروگرام قرار دیتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ لوگ جو دہشت گردی یا مذہبی انتہاپسندی کے جرائم کی بنا پر مجرم قرار دیے گئے ہیں انھیں یہاں ’تعلیم‘ دی جاتی ہے۔

اس دستاویز کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ سنکیانگ کیمپ سے انھی ذرائع سے باہر آئی ہے جنھوں نے خود کو انتہائی خطرے میں ڈال کر پہلے بھی انتہائی حساس مواد افشا کیا تھا جسے گذشتہ سال شائع کیا گیا تھا۔

واشنگٹن میں کمیونزم میموریل فاؤنڈیشن میں سینیئر فیلو اور چین کی سنکیانگ میں پالیسیوں کے حوالے سے عالمی ماہر ڈاکٹر ایڈرین زنز کا خیال ہے کہ حال ہی میں سامنے آنے والی دستاویز حقیقی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اب تک ہم نے جتنی بھی دستاویز دیکھی ہیں ان میں یہ قابل ذکر دستاویز چین کی جانب سے عام روایتی مذہبی رسومات پر مستعدی کے ساتھ ایذا رسانی اور سزائیں دیے جانے کے مضبوط ترین شواہد پیش کرتی ہے۔’

اس میں مذکور کیمپوں میں سے ’نمبر چار ٹریننگ سینٹر‘ کی ڈاکٹر زینز نے شناخت کی ہے کہ یہ وہی کیمپ ہے جس کا بی بی سی نے دورہ کیا تھا جس کا گذشتہ سال مئی میں چینی حکام نے انتظام کروایا تھا۔

بہت سے شواہد کی جنھیں بی بی سی کی ٹیم سامنے لائی تھی، اس نئی دستاویز میں تصدیق ہو رہی ہے۔ اس دستاویز کی اشاعت سے قبل اس میں شامل لوگوں کی پرائیویسی کی حفاظت کے لیے ان کی تمام معلومات عام نہیں کی جا رہیں۔

اس میں 311 افراد سے تفتیش کی تفصیلات ہیں۔ اس میں ان کے پس منظر، مذہبی اطوار اور اپنے سینکڑوں دوستوں اور ہمسایوں کے ساتھ ان کے تعلقات کے بارے میں لکھا گیا ہے۔

دستاویز کے آخری کالم میں فیصلے تحریر ہیں جن میں اس بات کا تعین کیا گیا ہے کہ حراستی مرکز میں موجود فرد کو وہیں رکھا جائے یا رہا کر دیا جائے یا کہ ماضی میں رہا کیے گئے افراد میں سے کسی کی کیمپ میں واپسی کی ضرورت تو نہیں۔

یہ ایسے شواہد ہیں جو براہ راست چین کے اس دعوے سے متصادم ہیں جس کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ یہ کیمپ تو فقط سکول ہیں۔

An image showing the lits

ڈاکٹر زینز نے ایک مضمون میں اس دستاویز پر تجزیہ اور اس کی تصدیق کی ہے۔ وہ یہ کہتے کہ اس سے اس نظام کے اصل مقاصد کے متعلق بہت زیادہ تفصیلی فہم بھی حاصل ہوتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ان سے فیصلہ لینے والوں کی ذہنوں کا بھی پتہ چلتا ہے اور اس سے کیمپ کی نظریاتی اور انتظامی مائیکرومکینکس بھی کھل کر سامنے آتے ہیں۔

اس دستاویز کی سطر نمبر 598 میں ایک 38 سالہ خاتون کا معاملہ درج ہے جن کا پہلا نام ہیلچم ہے۔ انھیں اس کیمپ میں تربیت کے لیے دوبارہ اس لیے بھجوایا جا رہا ہے کیونکہ وہ کچھ برس پہلے نقاب پہننے کے لیے جانی جاتی تھیں۔ یہ من مانے طور پر ماضی کی بنیاد پر سزا دیے جانے کے بے شمار معاملات میں سے محض ایک معاملہ ہے۔

An image showing the list of names and observations

دیگر کو محض پاسپورٹ کے لیے درخواست دینے کی وجہ سے ہی ان کیمپ میں داخل کر لیا گیا ہے کیونکہ سنکیانگ میں بیرون ممالک کے سفر کو اب سخت گیر موقف کے حامل بنائے جانے کی علامت کے طور پر دیکھا جانے لگا ہے۔

سطر نمبر 66 میں 34 سالہ شخص کو جس کا پہلا نام محمد ہوتی ہے صرف اسی وجہ سے کیمپ میں پہنچایا احج حالانکہ اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ کوئی ‘عملی خطرہ نہیں ہے۔’

اسی طرح لائن نمبر 239 میں 28 سالہ نورمحمد کا ذکر ہے جنھیں ری ایجوکیشن کیمپ میں محض اس لیے ڈال دیا گیا ہے کہ انھوں نے نادانستہ طور پر ایک غیر ملکی ویب لنک پر کلک کر دیا تھا۔

A picture showing the list

یہاں بھی نوٹ میں ان کے برتاؤ کے بارے میں کسی دوسرے مسئلے کا ذکر نہیں ہے۔

ان میں شامل سب اہم 311 افراد جنوبی سنکیانگ میں ہوتان شہر کے پاس کراکیکس کاؤنٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں 90 فیصد سے زیادہ اویغوروں کی آبادی ہے۔

اویغور مسلمان اپنے خد و خال، زبان اور تہذیب میں چين کے اکثریتی نسل ہان چینیوں سے زیادہ وسطی ایشیائی لوگوں سے زیادہ نزدیک نظر آتے ہیں۔

حالیہ برسوں میں لاکھوں ہان باشندوں کے سنکیانگ میں آباد ہونے سے نسلی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے اور یہ اویغوروں میں معاشی طور پر علیحدہ کیے جانے کے احساس میں اضافے کا موجب بنا ہے۔

ان ناراضگیوں کے سبب کبھی کبھی پر تشدد واقعات بھی رونما ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں بیجنگ کی جانب سے مزید سخت سکیورٹی ردعمل سامنے آيا ہے۔

اسی وجہ سے سنکیانگ کی دوسری مسلم اقلیتوں مثلاً قزاق آبادی اور کرغزوں کی ساتھ اویغور بھی کیمپ میں ری ایجوکیشن کے لیے لائے جانے والی مہم کے لیے ہدف بن گئے ہیں۔

Map showing location of three of the four camps identified by Adrian Zenz from the Karakax List

اس دستاویز کو ڈاکر زینز ‘کراکیکس لسٹ’ کا نام دیتے ہیں اور ان کے مطابق اس سے پتہ چلتا ہے کہ چینی ریاست ہر قسم کے مذہبی عقائد کے اظہار کو غداری کی علامت کے طور پر دیکھتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ بظاہر سمجھی جانے والی غداری کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے ریاست کو اویغور کے گھروں اور دلوں کے اندر گہرائی تک جانے کے لیے راستے کی تلاش تھی۔

سنہ 2017 کے اوائل میں جب حراست کی مہم جوش و خروش کے ساتھ شروع کی گئی تو کمیونسٹ پارٹی ارکان کے وفادار گروہ نے جنھیں گاؤں والوں کی ورک ٹیم کہا جاتا تھا، اویغور معاشرے کی باریک بینی سے چھان بین کی۔

اس ٹیم کے ہر ایک رکن کو چند گھروں کی ذمہ داری دی گئی تھی کہ وہ وہاں جائیں، ان سے دوستی کریں اور ان کے گھروں کے ‘مذہبی ماحول’ کی تفصیلی معلومات حاصل کریں۔ مثال کے طور پر ان کے گھروں میں کتنے قرآن ہیں اور کیا وہ مذہبی تقریبات منعقد کرتے ہیں۔

کراکیکس فہرست میں اس بات کے سب سے زیادہ ٹھوس شواہد نظر آتے ہیں کہ کس طرح تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے عمل نے ان لوگوں تک کیمپوں تک پہنچایا ہے۔

مثال کے طور پر اس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ چین نے سنکیانگ میں کس طرح پورے پورے خاندان کو ‘شریکِ جرم’ کا تصور کا استعمال کرتے ہوئے مجرم ٹھہرایا ہے اور حراست میں لیا ہے۔

ہر ایک اہم فرد کے کوائف کے لیے بنائی جانے والی سپریڈ شیٹ کے 11ویں کالم یا خانے میں ان کے خاندان سے رشتے اور سماجی حلقے کو درج کیا گیا ہے۔

ہر ایک دوست یا رشتہ دار کے ساتھ ان کے پس منظر کے بارے میں ایک نوٹ لکھا ہے کہ وہ کتنی بار نماز پڑھتے ہیں، کیا انھیں کیمپ میں رکھا جا چکا ہے اور کیا وہ بیرون کا سفر کر چکے ہیں۔

درحقیقت اس دستاویز کے عنوان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس میں جو اہم افراد درج ہیں ان سب کے ایک نہ ایک رشتہ دار بیرون ملک رہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا اشاریہ ہے جسے ایک زمانے سے ممکنہ غداری کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے اور اس کی وجہ سے حراستی کیمپ میں جانا تقریبا طے ہو جاتا ہے۔

سطر نمبر 179، 315 اور 345 میں ایک 65 سالہ شخص یوسف کے متعلق کئی تجزیے درج ہیں۔

اس کے ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ ان کی دو لڑکیوں نے ‘سنہ 2014 اور 2015 میں برقعے پہنے تھے’، ایک لڑکا ہے جس اسلام کی جانب میلان رکھتا ہے اور یہ ایک ایسا خاندان ہے جو ‘واضح طور پر ہان مخالف جذبات’ رکھتا ہے۔

اس کی سزا مسلسل تربیت ہے اور وہ ان متعدد مثالوں میں سے ایک ہیں جنھیں نہ صرف اپنے اعمال اور عقائد کے لیے کیمپ میں رکھا گیا ہے بلکہ ان کے اہل خانہ بھی اس کا موجب بنے ہیں۔

گاؤں کی ٹیم کے ذریعے موصول ہونے والی معلومات کو سنکیانگ کے بڑے ڈیٹا سسٹم ‘انٹیگریٹڈ جوائنٹ آپریشنز پلیٹ فارم (آئی جے او پی) میں بھی درج کیا جاتا ہے۔

آئی جے او پی میں علاقے کی نگرانی اور پولیسنگ کے ریکارڈ رکھے جاتے ہیں جو کہ کیمروں کے وسیع نیٹ ورک اور موبائل کے سپائی ویئر سے حاصل کیے جاتے ہیں۔ اس سپائی ویئر کو ہر شہری کو اپنے موبائل پر لوڈ کرنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر زینز کا کہنا ہے کہ یہ آئی جے او پی اس کی مصنوعی ذہانت کے دماغ کا باری باری سے ڈیٹا کی مختلف سطحوں کو بار بار جانچ کرکے گاؤں کی ٹیم کو کسی خاص فرد کے متعلق ‘پش نوٹیفیکیشن’ بھیج سکتے ہیں۔

Adrian Zenz, the academic who has analysed and assessed the Karakax List
ڈاکٹر رینز کے مطابق چینی ریاست ہر قسم کے مذہبی عقائد کے اظہار کو غداری کی علامت کے طور پر دیکھتی ہے

ایک شخص جو چاہے ‘نادانستہ طور پر غیرملکی ویب سائٹ پر پہنچ گیا’ ہو وہ بھی آئی جے او پی کی وجہ سے کمیپ میں بھیجا جا سکتا ہے۔

بہرحال بہت سے معاملوں میں جدید ٹیکنالوجی کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ سب کو پکڑنے والی وسیع اصطلاح ‘ناقابل اعتماد’ دستاویز میں باربار نظر آتا ہے۔

یہ 88 افراد کی حراست کی واحد وجہ کے طور پر درج ہے۔

ڈاکٹر زینز کا کہنا ہے کہ یہ تصور اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ نظام ان کے لیے تیار نہیں کیا گیا ہے جنھوں نے کوئی جرم کیا ہے بلکہ اس تمام آبادی کے لیے تیار کیا گیا ہے جسے ممکنہ طور پر مشتبہ تصور کیا جاتا ہے۔

کراکیکس فہرست میں کئی ایسے معاملے ہیں جن میں حراست کی متعدد وجوہات دی گئی ہیں۔ ان میں مذہب، پاسپورٹ، خاندان، بیرون ملک تعلقات اور محض ناقابل اعتبار ہونے کے مختلف مرکبات شامل ہیں۔

اس دستاویز میں سب سے زیادہ جس کا ذکر ملتا ہے وہ چین کے سخت خاندانی منصوبہ بندی کے قانون کی خلاف ورزی ہے۔

چینی حکام کی نظر میں زیادہ بچے ہونا اویغوروں میں اس بات کے واضح شواہد ہیں کہ وہ سیکولر ریاست کی تابعداری کے مقابلے میں اپنی ثقافت اور روایات کے زیادہ وفادار ہیں۔

Chart showing reasons given for a person's internment

چین ایک عرصے سے سنکیانگ میں اپنے ایکشن کا دفاع کرتا رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ ایسا انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خطرات کے جواب میں فوری ردعمل کے طور پر کر رہا ہے۔

کراکیکس فہرست میں اس قسم کے بعض جرائم کا ذکر ضرور ہے۔ کم از کم چھ اندراج ایسے ہیں جس میں دہشت گردی کی تیاری کرنے، اس پر عمل کرنے یا پھر اس پر ابھارنے کا ذکر ہے جبکہ دو معاملات غیر قانونی ویڈیوز دیکھنے کے ہیں۔

لیکن ان دستاویز کو تیار کرنے کے سلسلے میں مرکزی توجہ عقیدے پر دی گئی ہے کیونکہ 100 افراد کے کوائف کے اندراج کے بارے میں گھر پر ‘مذہبی ماحول’ لکھا گیا ہے۔

کراکیکس فہرست پر کوئی ٹکٹ یا تصدیق کا کوئی نشان نہیں ہے اس لیے بظاہر اس کی تصدیق کرنا بہت مشکل ہے۔

اس کے بارے میں خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ کئی دوسرے حساس دستاویزات کے ساتھ گذشتہ سال جون سے قبل کسی وقت سنکیانگ سے باہر لایا گیا ہو گا۔

یہ ایسے نامعلوم جلاوطن اویغور کے ہاتھ لگ گیا جس نے اس دستاویز کو چھوڑ کر باقی تمام کو آگے دے دیا۔

ایمسٹرڈم میں رہنے والی ایک دوسری اوغیور آسیہ عبداللہب نے کہا کہ گذشتہ سال پہلی معلومات کی اشاعت کے بعد ہی کراکس فہرست ان کو بھیجی گئی۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں یقین ہے کہ یہ حقیقی ہے۔

Asiye Abdulaheb, the Uighur woman who helped leak the Karakax List
آسیہ عبداللہب نے خطرے کے باوجود کراکیکس فہرست کو افشا کرنے میں مدد دی

انھوں نے کہا کہ ‘خواہ دستاویز پر سرکاری مہر ہو یا نہیں یہ معلومات اصلی اور زندہ افراد کی ہیں۔ یہ لوگوں کی نجی معلومات ہیں جنھیں عام نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے چینی حکومت اسے کسی طرح جعلی نہیں کہہ سکتی ہے۔

بیرون میں رہنے والے دوسرے اویغوروں کی طرح آسیہ عبداللہب کا سنکیانگ میں موجود اپنے خاندان سے اس وقت رابطہ ٹوٹ گیا جب حراستی مہم شروع ہوئی اور اس کے بعد سے وہ ان سے رابطہ قائم کرنے میں ناکام ہیں۔

لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اس دستاویز کو جاری کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں اور انھوں نے بی بی سی سمیت بین الاقوامی میڈيا تنظیم کے ایک گروپ کو یہ دستاویز فراہم کی۔

انھوں نے کہا: ‘یقینا میں اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کی حفاظت کے متعلق پریشان ہوں۔ لیکن اگر ہر کوئی خود کو اور اپنے خاندان کو بچانے کے لیے چپ رہے گا تو ہم ان جرائم کو ہونے سے کبھی نہیں روک سکیں گے۔’

گذشتہ سال کے اختتام پر چین نے اعلان کیا تھا کہ جو کوئی بھی ان کے ‘ووکیشنل ٹریننگ سینٹر’ میں تھا وہ اب ‘گریجویٹ’ ہو چکا ہے لیکن اس نے یہ بھی عندیہ دیا کہ کئی نئے طلبہ کے لیے ان کی مرضی کی بنیاد پر کھلے رہیں گے۔

کراکیکس فہرست میں شامل 311 میں سے تقریباً 90 فیصد کے بارے میں یہ دکھایا گيا ہے کہ انھیں رہائی مل چکی ہے یا پھر وہ کیمپ میں اپنے ایک سال پورے کرنے کے بعد رہا کر دیے جائيں گے۔

لیکن ڈاکٹر زینز کا کہنا ہے کہ ری ایجوکیشن کیمپس حراست کے بڑے نظام کا صرف ایک حصہ ہیں اور زیادہ تر حصہ بیرونی دنیا سے پوشیدہ ہے۔

سنکیانگ میں واقع ایک حراستی کیمپ کا بیرونی منظر (یہ کیمپ کراکیکس فہرست میں شامل نہیں)
سنکیانگ میں واقع ایک حراستی کیمپ کا بیرونی منظر

دو درجن سے زیادہ افراد کے بارے میں یہ ‘تجویز’ دی گئی ہے کہ انھیں ‘انڈسٹریل پارک روزگار’ کے لیے رہا کیا جائے۔ یہ کریئر کے متعلق مشورہ ہے جس پر تعمیل کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔

اچھی طرح تیار کردہ دستاویزات کی بنیاد پر یہ خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ چین اپنے دوسرے مرحلے کے لیے جبری مزدوری کا نظام تیار کر رہا ہے جس میں اویغوروں کی زندگی کو ان کی جدید معاشرے کے و‍ژن سے جوڑنا ہے۔

دو معاملوں میں ری ایجوکیش میں قید افراد کو ‘سٹرائک ہارڈ ڈیٹینشن’ میں بھیجا گیا ہے جو اس بات کی یاددہانی کراتا ہے کہ جیل کا عام نظام حالیہ دنوں زیادہ کوششوں کے نتیجے میں راہ سے بھٹک گیا ہے۔

دستاویز میں درج بہت سے خاندانی رشتوں سے واضح ہوتا ہے کہ والدین یا بھائی بہن کو بعض اوقات زیادہ مدت تک جیل میں محص عام مذہبی معمولات کے لیے رکھا گیا ہے۔

ایک شخص کے والد کو دو رنگوں کی گھنی داڑھی رکھنے اور ایک مذہبی تعلیم گروپ کا انتظام کرنے کے لیے پانچ سال کی سزا ہوئی ہے۔

ایک پڑوسی کو ‘بیرون ملک آن لائن پر لوگوں سے رابطہ کرنے’ کے لیے 15 سال کی ‎سزا ہوئی ہے اور ایک دوسرے شخص کے چھوٹے بھائی کو ‘اپنے فون پر بغاوت کا موجب بننے والی تصاویر رکھنے’ کے جرم میں دس سال کی ‎سزا ہوئی ہے۔

ڈاکٹر زینز کا کہنا ہے کہ چین نے سنکیانگ میں اپنا ری ایجوکیشن کیمپ بند کیا ہے یا نہیں لیکن کراکیکس فہرست سے وہاں کے نظام کی نفسیات کے بارے میں بعض اہم چیزوں کا پتہ ضرور چلتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ‘اس سے وچ ہنٹ والی ذہنیت کا پتا چلتا ہے جو کہ خطے کی معاشرتی زندگی پر حاوی ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp