جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس: ’ابھی ہم آپ کو کھیلنے کے لیے آسان اوور دے رہے ہیں‘


سپریم کورٹ

سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکنے سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل کیپٹن ریٹائرڈ انور منصور خان نے اپنے دلائل میں کہا ہے کہ مذکورہ جج کی طرف سے بیرون ملک اثاثے ظاہر نہ کرنا بدعنوانی کے زمرے میں آتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس میں اثاثے ظاہر نہ کرنے کے ساتھ منی لانڈرنگ کا بھی الزام ہے، جسے خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔

انھوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے مذکورہ جج نے انکم ٹیکس قوانین کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ نے منگل کے روز ان درخواستوں کی سماعت کی۔

یہ بھی پڑھیے

’جج کے خلاف تحقیق کرنے کا اختیار کس کے پاس ہے‘

’جج کی جاسوسی، ذاتی زندگی میں مداخلت بھی توہین ہے‘

’کیا جج کی جائیداد سے متعلق شواہد نظر انداز کر دیں؟‘

انور منصور خان کا کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بیرون ممالک جن تین جائیدادوں کا ذکر کیا جا رہا ہے، ان میں سے ایک جائیداد برطانیہ میں سنہ 2004 میں خریدی گئی تھی اور اس وقت یہ جائیداد سرینا نامی خاتون کے نام پر تھی اور یہ نام پاکستان میں رجسٹرڈ نہیں تھا۔

اُنھوں نے کہا کہ پھر اس جائیداد کو سنہ 2011 میں رجسٹرڈ کیا گیا اور اس جائیداد کے مالکان میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بیٹی سحر عیسیٰ کا نام بھی شامل کیا گیا۔

انور منصور کے مطابق مذکورہ جج کی بیٹی کے پاس بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں کے لیے جاری کیا گیا نائیکوپ کارڈ بھی موجود ہے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں مزید دو جائیدادیں سنہ 2013 میں خریدی گئیں اور ان جائیدادوں کی ملکیت میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بیٹے ارسلان عیسیٰ کا نام بھی شامل ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ ان جائیدادوں سے متعلق درخواست گزار یعنی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے انکار نہیں کیا گیا بلکہ اس جائیداد کے بارے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے تفصیلی جواب بھی جمع کروایا گیا ہے۔ جس میں ان کا کہنا تھا کہ یہ جائیداد ان کی نہیں بلکہ ان کی بیوی اور بچوں کی ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ سنہ 2014 سے سنہ 2018 تک جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی فیملی نے انکم ٹیکس گوشواروں میں ان جائیدادوں کا ذکر نہیں کیا تھا۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کسی بھی جج کے خلاف ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے الزامات ہوں تو سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ اس کی تحقیقات کروا سکتی ہے جبکہ ایگزیکٹو کے پاس کسی بھی جج کے خلاف کارروائی کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ ایک جج کو عام آدمی سے اوپر ہونا چاہیے اور خدا کا خوف رکھنے کے ساتھ ساتھ لوگ اس کی ایمانداری کی مثالیں بھی دیں۔

بینچ میں موجود جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا ان کے پاس ایسے شواہد موجود ہیں جن سے یہ معلوم ہو سکے کہ صدارتی ریفرنس میں مذکورہ جج کی بیرون ملک جائیداوں کا الزام لگایا گیا ہے وہ درست ہے۔

تاہم انور منصور خان نے اس کا جواب نہیں دیا اور کہا کہ دلائل دے کر اپنا کیس تیار کریں گے اور پھر عدالت کی طرف سے پوچھے گئے ہر سوال کا جواب دیں گے۔

بینچ میں موجود جسٹس سجاد علی شاہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اُنھوں نے دلائل دینا شروع کر دیے ہیں لیکن اُنھوں نے اس 10 رکنی بینچ کو اپنے دلائل کی ترتیب (فارمولیشن) نہیں بتائی جس کے بعد اٹارنی جنرل کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اُنھوں نے اپنے دلائل کی ترتیب کی کاپیاں اس 10 رکنی بینچ کو فراہم کر دیں۔

سماعت کے دوران کچھ ججز نے سوالات کیے تو اٹارنی جنرل نے ان کے جواب نہیں دیے جس سے یہ تاثر مل رہا تھا کہ شاید اٹارنی جنرل ان درخواستوں پر دینے کے لیے جواب تیار کر کے نہیں آئے۔

عدالتی کارروائی بڑے اچھے طریقے سے چل رہی تھی کہ اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل کے دوران کچھ الزامات لگائے جس کی وجہ سے بینچ میں شامل تمام ججز غصے میں آ گئے اور بعد ازاں انور منصور کو اپنے الفاظ واپس لینا پڑے۔

ان الزامات کی تفصیلات اس لیے نہیں بتائی جا سکتیں کیونکہ عدالت نے ان کو کارروائی سے حذف کروا دیا تھا۔

کمرہ عدالت میں موجود دیگر وکلا جو اس کارروائی کو دیکھنے کے لیے آئے تھے، ان کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل کی طرف سے ایسا عمل دراصل ججز کو دباؤ میں لانے کے مترادف ہے جس میں وہ کامیاب نہیں ہوئے۔

سپریم کورٹ کے وکیل تبریز خان کے مطابق اٹارنی جنرل کا یہ عمل خود ان کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وہ عدالت کے ہر مشکل سے مشکل سوال کا جواب دیں گے تاہم اس 10 رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’ابھی ہم آپ کو کھیلنے کے لیے آسان اوور دے رہے ہیں۔‘

اٹارنی جنرل 19 فروری کو بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32545 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp