مسلم امہ کے مختلف حصوں میں برتری کی جنگ


ترکی کے صدر رجب طیب اردگان اپنا کامیاب دورہ کر کے واپس جا چکے دورے کے دوران پارلیمنٹ کے دونوں سیشن سے اپنی خطاب میں ترکی اور پاکستان کے ساتھ لازوال دوستی اور دونوں ملکوں کے مذہبی تقافتی اور ہر دکھ درد میں ایک دوسرے کے ساتھ نبھانے کا نہ صرف تذکرہ کیا بلکہ کشمیر پر بھی کھلے انداز میں پاکسان کا ساتھ دینے کا اعادہ کیا۔ اس سے پہلے بھی ملائیشیا اور ترکی نے واضح الفاظ میں کشمیر مسئلے پر خاص کر 370 ہٹانے کے بعد جو صورتحال پیدا ہو گئی ہے بھارت کی مذمت کی تھی اگر اس دورے کا جائزہ لیا جائے تو یہ ایک کامیاب دورہ تو تھا ہی لیکن اس کے پیچھے بڑے مقاصد بھی کارفرما ہیں۔ اس خطے کی صورتحال بدل رہی ہے نئے نئے کھلاڑی میدان میں اتر رہے ہیں۔ ریجنل میدان بدل رہا ہے۔ نئے بلاک بن رہے ہیں باشعور لیڈرشب اپنی قوموں کی تقدیر بدل رہے ہیں ان میں سب سے بڑا کامیاب مثال طیب اردگان ہی کی ہے۔ کیسے اس بندے نے اپنے ملک کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ترکی کی معیشت بری طرح بیٹھ چکی تھی آئی ایم ایف کے قرضے ایسے چڑھے ہوئے تھے کہ نکلنا محال تھا لیکن قوموں کو جب صحیح لیڈرشپ ملتی ہے تو ان کی تقریریں بدل جایا کرتی ہیں تین سال کے مختصر عرصے میں ترکی نے نہ صرف اپنے ملک کو قرضے کی دندل سے نکالا۔ بیچ میں آئی ایم ایف کی بڑی کوشش رہی کہ کسی طرح ترکی دوبارہ ان سے قرض لے لیکن اردگان نے کہا چاہے کچھ بھی ہو جائے محجھے اب آئی ایم سے دوبارہ قرض نہیں لینا اور اس طرح اپنے ملک کو اپنے پاؤں پہ کھڑا کرنے میں کامیاب ہو گیا اب وہ آئی ایم ایف کو غریب ملکوں کی ڈیویلپمنٹ کے لیے غالبا پانچ ارب ڈالر دیتا ہے۔

دنیا کی ہر باشعور لیڈرشپ یہ سمجھتی ہے کہ معاشی مضبوطی کے بغیر کسی ملک کی کوئی حیثیت نہیں نا اس کی بات کوئی سنے گا نا اقوام میں اس کی کوئی عزت ہو گی بالکل اسی طرح جب اپ کسی بندے کا قرض دار ہو تو وہ مہینہ یا سال تک انتظار کرے گا اس کے بعد آپ کا گھر گروی رکھوائے گا اور اس بندے کو دیکھ کر اپ کواپنا راستہ بھی تبدیل کرنا پڑے گا کیونکہ آپ اس کے قرض دار ہو۔ ملکوں کی حالت بھی ایسی ہی ہوتی ہے۔ آخر آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی بھی کوئی حد ہوگی ہمارے سابقہ حکمرانوں نے قرض لے کر ٹماٹر اور آلو میں دس روپے کمی کر کے باقی اپنی تجوریاں ہی بھر لی۔ ان کی نامی اور بے نامی جائیدادیں تو ترقی کرتی گئی لیکن اس ملک اور یہاں کے باشندوں کے ساتھ وہ کھلواڑ ہوتا گیا آج حال یہ ہے کہ آپ کشمیر کا مسئلہ جہاں بھی لے کر جاتے ہو، آگے سے جواب ملتا ہے کہ جی آپ کی معیشت بہت کمزور ہے لہذا آپ صبر کریں۔

لیڈرشپ کی بات کرو تو ابی احمد کا نام بھی لینا ضروری ہے اس قابل لیڈر نے ایتھوپیا جیسے بھوک، افلاس کے مارے ملک کو آئی ایم ایف کے قرضوں سے رہائی اتنے کم عرصے میں کیسے دلائی ہم جیسے ملکوں کے حکمرانوں کو ان سے سبق سیکھنا چائیے۔ ہر ملک اپنی معیشت کو مضبوط کر کے دنیا کے اقوام میں اپنی برتری کا سوچ رہا ہے، جس ملک کی معیشت گر جائے اس ملک کو ایک نا ایک دن روس ہی بننا ہو گا۔ جب آپ کی معیشت بیٹھ جاتی ہے تو اپ کسی بھی مشکل صورتحال کا سامنا نہیں کر سکتے۔

اللہ عربوں کا بھلا کرے ہماری یہ خوش قسمتی ہے کہ ہمارے برادر ممالک جن میں سعودی عرب سر فہرست ہے ہمیشہ بے لوث طریقے سے ہمارا ساتھ دیتے رہے ہیں۔ سب سے پہلے ہم اس کے دروازے پہ جاتے ہیں اور بھی مسلم ممالک جاتے ہیں ان کی بھی فراخ دلی سے یہ لوگ مدد کرتے ہیں لیکن پاکستان کے ساتھ ان کا تعلق ہمیشہ لازوال رہا ہے جو کہ کسی حکمران کے ساتھ نہیں ہمیشہ ریاست اور اس ملک کے عوام کے ساتھ رکھا ہے اور یہ بہت پرانی اور بہت مضبوط روحانی بنیاد پر کھڑی ہے۔ پاکستان بننے کے بعد اقوام متحدہ میں قائداعظم کا تعارف شاہ فیصل نے کیا تھا اور بنگلہ دیش کو تب تک سعودیہ نے تسلیم نہیں کیا جب تک پاکستان نے نہیں کیا۔ اب بھی ہمارے بنکوں میں ہماری معیشت کی بہتری کے لیے ان کے پیسے پڑے ہیں اور تین سال تک ہمیں تیل کی سپلائی تک رسائی آسان کر دی ہے۔

اس کے علاوہ بھی ہر مشکل وقت میں ان کا ہمیشہ ساتھ رہا۔ عربوں کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ وہ فلاحی کام جب کرتے ہی تو کبھی بھی اس کی پبلسٹی نہیں کرتے۔ یہ ان کا بہت بڑا پن ہے۔ بڑے دل کے لوگ ہیں۔ دنیا میں ہر جگہ خاص کر افریقہ میں سب سے زیادہ خیرات ان کی طرف سے جاتی ہے لیکن کبھی سرعام داد وصول نہیں کرتے۔ یہاں تک ایران کے ساتھ کبھی ان کی نہیں بنی لیکن قدرتی آفات میں سعودیز وہاں بھی کھلے دل سے اپنے بہن بھائیوں کی مدد کرتے ہیں سعودیہ اور ایران کے درمیاں تنازعات ہمیشہ سے رہے ہیں بدقسمتی یہ ہے کہ ان دونوں مسلم ممالک کی کبھی ایک دوسرے کے ساتھ نہیں بنی یہ آج سے نہیں، یہ فرقے کی جنگ بھی نہیں ہے، یہ برتری کی جنگ ہے اور بہت پرانی ہے ان کی تاریخ کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ تنازع صدیوں سے چل رہا ہے ان کے شعراء ایک دوسرے پر طنز کے نشتر چلاتے آئے ہیں۔ ایرانیوں کو اپنے پرشین ایمپائر ہونے کا زعم ہیں۔ کہتے ہیں ہم قیصر، کسریٰ کے وارٹ ہیں تم ہو صحرا کے بدو، ہم برتر ہیں اور مسلمانوں پر حکومت کا اختیار ہم کو ملنی چاہیے، تو عرب ان کو جواب میں کہتے ہیں ہم سے پوچھتے ہو تو سنو ہم پیغمبروں کے وارث، ہماری سرزمین مقدس، اللہ نے ہماری سر زمیں کو عزت بخشی اپنا گھر بنایا، اور اس کی کنجی ہمارے ہاتھ میں تھما دی، اپنا محبوب ہم میں سے چنا، جب تک دنیا قائم ہماری برتری قائم، ہم ہیں مکہ مدینے والے، تم کون ہو آج کے بادشاہ کل کے فقیر، تمہاری حیثیت کیا ہے اوقات کیا ہے، کوئی ہے روئے زمیں پر ہم جیسا” تو یہ وہ جواب ہے جس پر اکر سب کو چپ لگ جاتی ہے۔

ایران اس برتری کے چکر میں ہمیشہ پراکسیز کا حصہ رہا جو اس ریجن کے لیے اس کی معیشت کے لیے تباہ کن رہا ہے۔ اگرچہ دونوں ممالک کو اس بات کا ادراک تو ہے کہ کون ان کی لڑائی کروا کر اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے یہی وجہ ہے کہ سعودیہ کے تنصیبات پر جب حملہ ہوا تو کچھ ممالک نے بہت کو شش کی کہ سعودیہ ایران پر حملے کے لیے راضی ہو جائے لیکن سعودیہ نے صبر، تحمل کا مظاہرہ کیا اس طرح ایران نے جواب دیا کہ اگر اس پر حملہ کیا گیا تو وہ اسرائیل پر جوابی حملہ کرے گا کیونکہ وہ سعودیہ پر حملے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

ظاہر ہے وہ سر زمیں ہر مسلمان کے لیے بہت مقدس ہے اور اس کی عزت، آبرو کی حفاظت ہر مسلمان پر فرض کیا گیا، یہی وجہ ہے کہ تمام مسلمان ممالک کی فوج اس کی حفاظت کے لیے وہاں موجود ہے، ایران کی اپنی معیشت بھی بہت کمزور ہے اور مزید گر چکی ہے کچھ مہینے پہلے وہاں مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے لوگ سڑکوں پر آگئے تھے پروٹسٹ کر رہے تھے لیکن سعودیہ کی معیشت بہت مضبوط ہے تیل کے علاوہ بھی اللہ نے ان کو عزت، بلندی بخشی ہے مقدس زیارات اور عبادات کے لیے وہاں رہتی دنیا تک مسلمانوں کا آنا جانا رہے گا اور وہاں جانا ہر ایک مسلمان کی دلی اور آخری خواہش ہوتی ہے، سعودیہ کا ایک بڑا انکم حج، زیارات سے بھی ہے، یہ دو ممالک جو برتری کے میدان میں تھے ہی اب سلطنت عثمانیہ کا وارث ترکی کیسے پیچھے رہتا اپنی معیشت کو مضبوط کر کے اپنی قوم کو دنیا کے برابر میں کھڑا کرنے کے بعد اس دوڑ میں شامل ہو گیا۔

تاریخ تو ان کے پاس بھی بہت مضبوط ہے۔ ترکی سلطنت عثمانیہ کا وارث ہوتے ہوئے مسلمانوں پر حکمرانی کا حق سمجھتا ہے۔ مسلمانوں کے تقریبا 57 ممالک پر اپنا اثر، رسوخ قائم کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اب لگتا ایسا ہے کہ عرب اور عجم میں فاصلے بڑھ رہے ہیں۔ کوالالمپور سمٹ اس کی ایک کڑی ہے جہاں سعودیہ نہ خود گیا بلکہ پاکستان کو بھی منع کیا سعودیہ عرب کا کہنا تھا کہ مجھے بتائے بغیر یہ سمٹ کیا گیا۔ سعودی سفیر کا انٹرویو میں سن رہی تھی۔ کہہ رہے تھے اسلام کوالالمپور اور انقرہ سے نہیں نکلا، مکہ مدینے سے نکلا ہے لہذا یہ اگر مسلمانوں کی کوئی سمٹ تھی تو ہمیں پہلے کیوں آگاہ نہیں کیا گیا۔ اس سمٹ میں جانے سے منع کرنے پر پاکستان اور سعودیہ کے درمیان تھوڑے فاصلے آ گئے۔ پاکستان کہتا ہے کہ او آئی سی جو اقوام متحدہ کے بعد دنیا کی سب سے بڑی بھیٹک ہے اس کا آفس ریاض میں ہے اور اس کی سربراہی میں سعودیہ کو وہی مقام حاصل ہے جو اقوام متحدہ میں امریکہ کو، میں کشمیر کے مسئلہ کو اجاگر کیا جائے لیکن سعودیہ اس میں فی الحال پہلو تہی کرتا نظر ا رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان اپنی ناراضی کا اظہار کر چکا ہے۔ انقرہ، کوالالمپور اور تہران کا خیال ہے کہ او آئی سی مسلمانوں کے کسی کام کا نہیں رہا۔ وہاں مسلمانوں کے مسائل کا کوئی حل نہیں ہوتا لہذا ہمیں اپنے مسائل کے حل کے لیے نیا بلاک تشکیل دینا چاہیے اور اسی ارادے سے اردگان اور مہاتیر برسر پیکار ہیں اور پاکستان کو اسی بلاک میں شامل کرنا چاہتے ہیں پاکستان کی بھی یہی خواہش ہے لیکن اپنی خراب معیشت کی وجہ سے پھنسا ہوا ہے کسی پر انحصار کب تک کیا جا سکتا ہے۔

موجودہ حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج معیشت ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم بھی یہ سوچنا ہو گا کہ کیا ہمیں قرضہ لے کر اس ملک پر قرض ہی چڑھانا ہے یا اس ملک کو مضبوط کر کے معزز قوموں کے صف میں کھڑا کرنا ہے اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ بے ایمان اور کرپٹ لوگوں کی حوصلی شکنی کی چائے، چاہے وہ آپ کے ملک میں ہیں اپ کے صوبے میں آپ کے علاقے میں یا پھر آپ کے محلے میں ہوں کیونکہ کرپشن بھی عروج پر ہو اور معیشت بھی بہتر ہو، یہ کبھی نہیں ہو سکتا، موجودہ حکمرانوں کو بھی نیت نیتی سے معیشت کی بہتری کے لیے اقدامات کرنے چائیے بے شک ہم تین کی جگہ دو وقت کا کھانا کھائیں گے اگر ہمیں نظر آئے کہ ہمارا ملک صحیح سمت میں آگے بڑھ رہا ہے، ہماری معیشت بہتر ہو رہی ہے، ہمارے حکمران بد دیانت، بے ایمان اور کرپٹ نہیں ہیں اور اس ملک کے ساتھ مخلص ہیں۔ اس میں تو شک نہیں کہ خان صاحب بھوکے اورکرپٹ انسان نہیں ہیں ان کے دوروں سے ان کی طرز زندگی سے یہ پتہ چل رہا ہے کہ وہ بے جا اخراجات کو نا پسند کرتے ہیں اور معیشت کی مضبوط کے لیے پر عزم ہیں، اور اپنی ٹیم پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اور سنا ہے وزراء، ممبرز کے حرکات اور کام کے لیے خفیہ اداروں کی مدد بھی لے رہے ہیں کہ کہیں بے ایمانی اور کرپشن میں ملوث نہ ہو اور ایکشن بھی لے رہے ہیں۔

مشکل وقت تو ہے، لیکن اس کے کچھ ثمرات بھی نظر آنے چائیے تاکہ لوگوں کو حوصلہ ہو، بہرحال دنیا کے موجودہ تناظر میں مسلمانوں کو متحد ہونے کی ضرورت ہے ایک دوسرے کے درمیان تلخیاں دور کر کے اپنے مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے سے برتری کی جنگ کی بجائے اس امت کی برتری کی فکر کرنی پڑے گی، جن کے تعلق کو ملکوں سے سرحدوں سے بالاتر رکھا گیا جو ایک ہی امت ہے آقا (صلاللہ علیہ وسلم ) کو اپنی امت کے ان مسائل کا ادراک اس وقت بھی تھا، فر مایا کہ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں مگر صرف تقوی کی بنیاد پر، تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ایک دوسرے کو مضبوطی سے تھامے رکھو تمھاری مثال ایک جسم کی ہے کہ اس کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو اس کی کرب اور شدت کو پورا جسم محسوس کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments