عدالت نے مہک کماری عرف علیزہ کو تحفظ اطفال یونٹ بھیج دیا


ہندو

عدالت نے حکم دیا ہے کہ مہک سے شادی کے دعویدار علی رضا سولنگی اور اس کے مددگاروں کے خلاف 24 گھنٹے کے اندر چائلڈ میریج ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا جائے (فائل فوٹو)

پاکستان کے صوبہ سندھ کی ایک عدالت نے نومسلم نابالغ لڑکی کو تحفظ اطفال یونٹ بھیج دیا ہے جبکہ پولیس کو شادی کے دعویدار نوجوان اور مددگاروں پر چائلڈ میریج ایکٹ کی خلاف ورزی کا مقدمہ درج کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔

جیکب آباد کی عدالت کے سیکنڈ سول جج غلام علی قناصرو نے ’مہک کماری عرف علیزہ کیس‘ کا تحریری حکم پڑھ کر سنایا جس کے تحت ’مہک کو 48 گھنٹوں میں دارلامان سے قریبی بچوں کے تحفظ کے یونٹ منتقل کرنے اور ان کی سکیورٹی یقینی بنانے کا حکم دیا گیا۔‘

عدالت نے ڈی آئی جی کو حکم جاری کیا کہ مہک سے شادی کے دعویدار علی رضا سولنگی اور اس کے مددگاروں کے خلاف 24 گھنٹے کے اندر چائلڈ میریج ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا جائے۔

اس سے قبل علی رضا سولنگی کی درخواست کی سیشن جج کی عدالت میں سماعت ہوئی۔ اس درخواست میں انھوں نے عدالت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اور ان پر جانبداری کا بھی الزام عائد کیا تھا تاہم سیشن جج نے یہ درخواست مسترد کر دی۔

مہک کماری عرف علیزہ کو بکتربند گاڑی میں لاڑکانہ سے پولیس کے حصار میں عدالت میں پیش کیا گیا، وہ تین گھنٹے عدالت میں رہیں اور کسی کو بھی ان کے قریب جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔

یہ بھی پڑھیے

’مذہب کے نام پر ہماری بیٹیوں کا ریپ نہ کریں‘

’فیصلہ حق میں، بیوی واپس آ گئی، لیکن خوف نہیں جاتا‘

مذہب کی جبراً تبدیلی پر بل اسمبلی میں دوبارہ لانے کا فیصلہ

وجے کمار

وجے کمار نے 10 جنوری کو مقدمہ درج کرایا تھا کہ ان کی نابالغ لڑکی کو علی رضا سولنگی نامی نوجوان اغوا کر لیا ہے اور اس کا مذہب تبدیل کرکے جبری شادی کرلی ہے

گذشتہ سماعت کے موقعے پر مہک کماری نے بیان دیا تھا کہ ’ان کا پہلا بیان جذبات پر مبنی تھا وہ اپنے والدین کے ساتھ جانا چاہتی ہیں۔‘ اس موقعے پر چانڈکا میڈیکل یونیورسٹی کا سرٹیفیکیٹ بھی پیش کیا گیا تھا جس کے تحت وہ 18 سال سے کم عمر ہیں۔ عدالت نے مہک کے بیان کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا اور انھیں دارالامان لاڑکانہ بھیج دیا تھا۔

تحریری فیصلے میں مہک کماری کا بیان بھی شامل کیا گیا ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’علی رضا سولنگی گھر کی تعمیر کے لیے بطور مزدور آئے تو اس وقت ان سے تعلقات قائم ہوئے۔ میں نے رضاکارانہ طور پر گھر چھوڑا اور علی رضا کے ساتھ چلی گئی اور پھر دونوں علی رضا کے رشتے داروں کے پاس چلے گئے۔‘

مہک کماری کے مطابق وہ شکارپور میں درگاہ امروٹ شریف آئے جہاں انھوں نے اسلام قبول کیا اور علی رضا سے نکاح کیا، لیکن وہ سمجھتی ہیں کہ یہ ان کی ’غلطی تھی کہ میں نے گھر چھوڑا اور اسلام قبول کیا۔ اب میں مسلمان نہیں رہنا چاہتی اور اپنے والدین کے ساتھ جانا چاہتی ہوں۔‘

لڑکی کے بیان پر جمعیت علمائے اسلام کی مقامی قیادت نے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مذہب کی تبدیلی کے بعد لڑکی کو والدین کے حوالے نہیں کیا جاسکتا، تاہم بعد میں تنظیم پہلی بار اس معاملے پر دھڑا بندی کا شکار ہوگئی۔

منگل کو جے یو آئی کے ایک دھڑے نے شہر میں ہڑتال کا اعلان کیا تھا جبکہ دوسرے نے اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ جیکب آباد کے آس پاس کے اضلاع سے بھی پولیس طلب کی گئی تھی اور لاؤڈ سپیکر پر اعلانات کیے گئے کہ کسی کو بھی جبری کاروبار بند کرانے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔

جیکب آباد میں ہندو کمیونٹی کی اکثریت کاروبار سے وابستہ ہے اور ہندو پنچائیت نے بھی ہڑتال سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔ اس کے علاوہ سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے وابستہ کارکن بھی عدالت میں مہک کماری کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے جمع ہوئے تھے۔

مہک

مہک کماری عرف علیزہ کو بکتربند گاڑی میں لاڑکانہ سے پولیس کے حصار میں عدالت میں پیش کیا گیا، وہ تین گھنٹے عدالت میں رہیں اور کسی کو بھی ان کے قریب جانے کی اجازت نہیں دی گئی

یاد رہے کہ جیکب آباد کے نمانی سنگت محلے کے رہائشی وجے کمار نے 10 جنوری کو مقدمہ درج کرایا تھا کہ ان کی نابالغ لڑکی کو علی رضا سولنگی نامی نوجوان نے اغوا کر لیا ہے اور اس کا مذہب تبدیل کر کے جبری شادی کرلی ہے۔

اس مقدمے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں مہک کماری نے بتایا کہ ’انھوں نے شکارپور میں درگاہ امروٹ شریف میں مذہب تبدیل کر کے علی رضا سے شادی کرلی ہے اور والد کے الزامات غلط ہیں۔‘انھوں نے عدالت میں بھی یہی بیان دیا تھا۔

مہک کماری کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ لڑکی نو عمر ہے جس کے بعد عدالت نے چانڈکا میڈیکل یونیورسٹی کو حکم جاری کیا کہ لڑکی کا طبی معائنہ کر کے رپورٹ پیش کی جائے، بورڈ نے تصدیق کی کہ لڑکی کی عمر 15 سے 16 سال کے درمیان ہے، جو سندھ چائلڈ میریج ایکٹ کی خلاف ورزی ہے۔

عدالتی فیصلے میں مہک کماری کے مذہب کے حوالے سے کوئی حکم جاری نہیں کیا گیا ہے، تاہم یہ حکم دیا گیا ہے کہ علی رضا اور دیگر کے خلاف دائر مقدمے میں لڑکی کو سکیورٹی کے ساتھ عدالت میں پیش کیا جائے۔

یاد رہے کہ سندھ میں ہندو کمیونٹی کی شکایت رہی ہے کہ ان کی نو عمر لڑکیوں کو مبینہ طور پر اغوا کرنے کے بعد جبری مذہب تبدیل کیا جاتا ہے اور پھر ان سے شادی کرلی جاتی ہے۔ صوبائی اور قومی اسمبلی میں ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے اراکین بھی اس مسئلے پر احتجاج کرتے آئے ہیں۔

حکومت سندھ نے ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے مذہب کی جبری تبدیلی کی روک تھام کا بل اسمبلی سے منظور کیا تھا لیکن بعد میں گورنر کے اعتراض پر اس کو روک دیا گیا اس کے بعد سے اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32505 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp