پاکستان اور انڈیا کے درمیان اٹاری سرحد پر تجارت کی بندش سے ہزاروں افراد متاثر


انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں گذشتہ سال ہونے والے پلوامہ حملے کے بعد سے انڈیا اور پاکستان کے درمیان تجارتی تعلقات منقطع ہیں۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کو معاشی طور پر نقصان پہنچانے کے لیے بعض سخت اقدامات کیے۔ انڈیا نے پاکستان سے درآمد کی جانے والی تمام چیزوں پر 200 فیصد محصول بڑھا دیا اور ‘موسٹ فیورڈ نیشن’ کی حیثیت کو ختم کر دیا جبکہ پاکستان نے انڈیا کے ساتھ دو طرفہ تجارت کو ختم کر دیا۔

پلوامہ حملے کو ایک سال کا وقت گزر گیا ہے اور انڈیا نے ریاست پنجاب میں اٹاری سرحد پر جو انٹیگریٹڈ چیک پوسٹ (آئی سی پی) قائم کی تھی وہاں انڈیا پاکستان کے درمیان تجارت بالکل نہ ہونے کے برابر ہے۔

اس نے نہ صرف دونوں ممالک کے کسٹم محصول کے حصول کو تقریباً ختم کر دیا ہے بلکہ اس سے براہ راست یا بالواسطہ طور پر جڑے انڈیا اور پاکستان کے ہزاروں باشندوں کی معیشت پر بھی کاری ضرب لگی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا سے زندگی بچانے والی ادویات کی درآمد پر پابندی ختم

ٹماٹر لاہور میں تین سو روپے امرتسر میں بیس روپے فی کلو

’کشمیر کی تحریک پہلی ترجیح، تجارت دوسرے نمبر پر‘

تاجروں کے پاس اپنے کاروبار کو چلانے کے دوسرے راستے ہیں لیکن ہزاروں قلیوں، ڈھابوں کے مالکان اور ڈارئیوروں کے روزگار چھن گئے ہیں۔

اٹاری گاؤں کے ایک قلی گردیپ نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی زندگی دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات ختم ہونے کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ گردیپ کام کے دوران زخمی ہو گئے تھے لیکن ان کے بھائی کو ان کے پرمٹ پر کام کرنے کی اجازت مل گئی جو کہ تجارتی تعلقات منقطع ہونے کے بعد گھر چلانے کے لیے چھوٹے موٹے کام کرتے ہیں۔

ان کے بھائی سنی کو سرحد پر آنے والے سیاحوں کے جسم پر رنگین ٹیٹو بناتے ہیں۔

رمیش آئی سی پی کے پاس ایک چھوٹا سا ڈھابہ چلاتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ‘جب انڈیا پاکستان کے درمیان تجارتی تعلقات تھے تو میں ایک دن میں تقریباً 2700 کی فروخت کر لیا کرتا تھا لیکن جب سے تجارتی تعلقات ختم ہوئے ہیں میں دن بھر میں مشکل سے 200 روپے کا بھی کاروبار نہیں کر پاتا اور آئی سی پی کے پاس سڑک کے کنارے بھی ڈھابہ چلانا مشکل ہو رہا ہے۔’

انڈین کسٹمز کے سنہ 19-2018 کے اعداد و شمار کے مطابق آئی سی پی سے 41266 ٹرکوں کے ذریعے 2120754 میٹرک ٹن مال پاکستان سے درآمد کیا گیا جس کی مالیت 32۔262 کروڑ روپے تھی جبکہ 2268 ٹرکوں پر 34134 ٹن سامان پاکستان بھیجا گیا جس کی مالیت 29۔612 کروڑ روپے تھی۔

جبکہ سنہ 20-2019 میں پاکستان سے صرف 510 ٹرکوں پر 18208 میٹرک ٹن سامان آیا جس کی مالیت چھ کروڑ 13 لاکھ تھی۔ دوسری جانب آئی سی پی کے ذریعے انڈیا سے 77۔222 کروڑ کا سامان 837 ٹرکوں پر بھیجا گیا جس کا وزن 14019 میٹرک ٹن تھا۔

ٹرک یونین کے صدر کلویندر سنگھ نے کہا ’تجارت بند کرنے کا حکم کسی زلزلے کی طرح آیا جس سے انڈیا اور پاکستان کی تجارت سے جڑے چھوٹے بڑے ہر سطح کے افراد متاثر ہوئے۔‘

کلویندر سنگھ نے بتایا کہ ‘سرحد پر صرف ہماری یونین 60 کروڑ کی تجارت کرتی تھی اور بہت سے لوگوں نے اپنی گاڑیوں کے لیے بینکوں سے قرض لے رکھے تھے۔ لیکن تجارت کے بند ہونے کے بعد اس کی قسط جمع کرنا مشکل ہو گیا ہے۔’

انھوں نے کہا کہ ‘انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی ایک مستقل چیز ہے لیکن اس سے تجارت متاثر نہیں ہونی چاہیے لیکن کوئی بھی سیاستدان جہاں پاکستان کا نام آتا ہے ہمارے مسائل کو اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔’

پاکستان سے آئی سی پی کے ذریعے جو چیزیں درآمد ہو رہی ہیں ان میں خشک میوہ جات، سیمنٹ، جپسم یا پلاسٹر آف پیرس، شیشے، سوڈا، چونا پتھر جیسا سامان شامل ہیں۔

امرتسر میں انڈو پاک ایکسپورٹرز تنظیم کے صدر راجدیپ اپل نے بی بی سی کو بتایا کہ تمام تنظیمیں پلوامہ حملے کے بعد حکومت کی جانب سے کیے جانے والے فیصلے کی حمایت کرتی ہیں لیکن اب وقت آ گيا ہے کہ حکومت ان کے بارے میں سوچے جن کی ملازمت ختم ہو گئی ہے اور اب ان کے لیے گزارہ کرنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔

انڈین کسٹمز اور سینٹرل اکسائز کے جوائنٹ کمشنر دیپک کمار گپتا نے آئی سی پی اٹاری پر ہونے والی درآمدات اور برآمدات میں کمی کو قبول کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی ہدایات کو نافذ کرنا ضروری ہے لیکن انھوں نے اس سے زیادہ مزید کچھ کہنے سے گریز کيا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp