فوزیہ کوفی: وہ افغان عورت جس نے طالبان سے مذاکرات کیے


فوزیہ کوفی

AFP/Getty images
طالبان نے فوزیہ کوفی کو قتل کرنے کی کوشش بھی کی

فوزیہ کوفی کو بچپن سے ڈاکٹر بننے کا خواب تھا لیکن وہ خواب تب ٹوٹ گیا جب افغانستان میں طالبان نے قبضہ کر لیا۔

انھوں نے فوزیہ کے شوہر کو جیل میں ڈال دیا۔ وہاں فوزیہ کے شوہر تپِ دق میں مبتلا ہو گئے، پھر رہائی کے بعد ان کی وفات ہو گئی۔ بعد میں فوزیہ سیاست میں آ گئیں اور طالبان نے انھیں قتل کرنے کی کوشش بھی کی مگر اس سب کے باوجود فوزیہ نے طالبان سے مذاکرات کرنے کی ہمت کی۔ بی بی سی سے گفتگو میں انھوں نے اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے ملک کی ترجمانی کر رہی تھی، میں افغانستان کی عورتوں کی ترجمانی کر رہی تھی۔

خوفزدہ نہیں تھی

فروری سنہ 2019 میں فوزیہ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کارکنان کے ہمراہ ماسکو کے ایک ہوٹل کے کمرے میں داخل ہوئیں جو 70 مردوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

افغان امن عمل: خواتین واپس پیچھے نہیں جانا چاہتیں

امریکہ کی افغان طالبان سے بات چیت کی خواہش کیوں؟

افغانستان کی نامور صحافی مینا مانگل قتل

لیلیٰ جعفری اور فوزیہ کوفی

لیلیٰ جعفری اور فوزیہ کوفی ان افغان خواتین میں شامل تھیں جنھیں طالبان سے بات کرنے کا موقع ملا

کمرے کے ایک جانب طالبان کا وفد تھا۔ انھوں نے اپنی مخصوص پگڑیاں پہن رکھی تھیں اور ان کی لمبی داڑھیاں تھیں۔

دوسری جانب دو خواتین نے باقی سیاست دانوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے درمیان اپنی نشستیں سنبھالیں، جو سبھی مرد تھے۔

وہ کہتی ہیں کہ میں خودفزدہ نہیں تھی، میرے لیے ہمت اور اختصار سے کام لینا اہم تھا۔

کوفی ان چند خواتین میں شامل ہیں جنھوں نے طالبان کے ساتھ بہت سے مذاکرات کے ادوار میں حصہ لیا ہے۔

امن کے لیے مذاکرات کے طویل عمل کے دوران طالبان نے افغان حکومت سے براہ راست بات کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ وہ کابل کی کٹھ پتلی حکومت کو نہیں مانتے۔

لیکن پھر روس اور امریکہ کی جانب سے مسلسل بنیادوں پر دباؤ کی وجہ سے مفاہمت پیدا ہوئی اور طالبان نے ایک غیر سرکاری وفد سے بات چیت پر آمادگی کا اظہار کی۔

ماسکو اور دوحہ مذاکرات

کوفی اس وفد کا حصہ تھیں جس نے دو مرتبہ ماسکو اور ایک بار دوحہ میں طالبان سے مذاکرات کیے۔

فوزیہ کوفی

فوزیہ کوفی کہتی ہیں کہ وہ طالبان سے بات کرنے میں خوفزدہ نہیں تھیں

وہ کہتی ہیں ’میں دوسری طرف کا بہت احترام کرتی تھی۔ میں نے انھیں بتایا کہ اب افغانستان مختلف رائے کا حامل ایک ملک ہے اور ایک نظریے کا پابند نہیں۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ وہ ایک میز کے گرد ہونے والی بات چیت نہیں تھی۔ نہ ہی وہاں اجتماعی طور پر اپنے خیالات کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ ہر ایک کو ایک مخصوص وقت میں بات کرنے کی اجازت تھی۔

طالبان کے وفد کے کچھ ممبران میری جانب دیکھ رہے تھے۔ کچھ نوٹس لکھ رہے تھے اور کچھ کہیں اور دیکھ رہے تھے۔ مجھے کچھ بھی غیر معمولی نہیں لگا۔

طالبان ہنسنے لگے

بحیثیت اس شخص کے، جس کی زندگی طالبان کی وجہ سے ڈرامائی انداز میں بدل چکی ہو، فوزیہ نے براہ راست خواتین کے حقوق کے بارے میں طالبان سے بات کی۔ فوزیہ نے امن کے عمل میں خواتین کی نمائندگی کی ضرورت پر زور دیا۔

’چونکہ ہماری طرف نمائندہ خواتین بھی تھیں تو میں نے انھیں (طالبان) کو تجویز دی کہ خواتین کو بھی مذاکرات کی میز تک لانا چاہیے لیکن یہ سن کر وہ فوری طور پر ہنسنے لگے۔‘

طالبان نے اپنی حکومت یعنی سنہ 1996 سے لے کر سنہ 2001 تک کے عرصے میں عورتوں کو عوامی مقامات پر جانے، تعلیم حاصل کرنے اور روزگار سے روک دیا۔

طالبان نے اسلامی قوانین میں اپنے خیالات اور نظریات کو بھی لاگو کروایا اور سنگسار کرنے اور کوڑے مارنے جیسی سزائیں نافذ کیں۔

’خاتون صدر نہیں بن سکتی‘

اپنی ساری زندگی افغانستان میں رہنے والی کوفی ایسے لوگوں کو جانتی تھیں جنھوں نے یہ سزائیں جھیلیں اور وہ مستقبل کی کسی بھی حکومت کو ایسے ظالمانہ طریقے دوبارہ متعارف کرانے سے روکنا چاہتی تھیں۔

فوزیہ کوفی

مذاکرات کے دوران جب طالبان کی باری آئی تو طالبان کے ایک مذاکرات کار نے کوفی کے خواتین اور مردوں میں برابری کے مطالبات کا جواب دیا۔

’انھوں نے کہا ایک خاتون وزیراعظم بن سکتی ہے لیکن صدر نہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ خواتین جج بھی نہیں بن سکتیں۔‘

طالبان کا مؤقف تھا کہ اسلامی قانون میں صرف مرد ہی جج یا کسی ریاست کے سربراہ بن سکتے ہیں۔ کوفی اس بات سے متاثر نہیں ہوئیں۔

’مذاکرات کو کچھ ایسے ترتیب دیا گیا تھا کہ دو طرفہ بحث نہیں کی جا سکتی تھی۔ میں ان کی اس بات سے متفق نہیں تھی لیکن میں نے رائے نہیں دی۔‘

اسلام کی حدود

ایک ماہ بعد طالبان کے قطر دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے بی بی سی پشتو کے صحافی عنایت الحق یاسینی کو بتایا: ’ہم خواتین کو وہ حقوق دینے کے لیے پرعزم ہیں جو اسلام نے دیے ہیں۔ ہم تعلیم پر ان کے حق کو تسلیم کرتے ہیں۔ یہ اسلام میں موجود ہے۔‘

سہیل شاہین

Inayatulhaq Yasini
طالبان کے قطر دفتر کے ترجمان سہیل شاہین

لیکن یہ یقین دہانی ایک انتباہ کے ساتھ آئی۔

سہیل شاہین نے مزید کہا ’خواتین کام کر سکتی ہیں اور تعلیم حاصل کر سکتی ہیں لیکن یہ اسلامی قانون اور افغان ثقافت کی حدود میں ہونا چاہیے۔‘

پہلا سامنا

کوفی جیسے لوگوں کے لیے مسئلے کی اصل وجہ یہ ہے۔ اسلام کی ایک مقدس کتاب ہے لیکن اس میں کئی مسلک ہیں۔

فوزیہ کوفی

Media team of Fawzia Koofi

’میں نے اسلامی تعلیمات سے متعلق مختلف علما کے مختلف خیالات سن رکھے ہیں۔ طالبان قرآن کی انتہا پسندانہ تشریحات کی پیروی کرتے ہیں۔‘

کوفی دیکھ چکی ہیں کہ ماضی میں طالبان کی پالیسیاں کیسے عملی شکل میں آتی ہیں۔ انھوں نے ستمبر 1996 میں پہلے طالبان جنگجو کو دیکھا۔

’میں کابل میں میڈیکل پڑھ رہی تھی جب طالبان نے شہر پر قبضہ کیا۔ میں انھیں پانچویں منزل پر موجود اپنے فلیٹ سے دیکھ سکتی تھی۔ نیچے سڑک میں عسکریت پسندوں کی لڑائی جاری تھی۔‘

خواب تباہ ہو گئے

طالبان کے قبضے کے بعد ان کے بچپن کی خواہش تباہ ہو چکی تھی اور انھیں میڈکل کالج کی جانب سے وہ دروازہ دکھایا گیا جو عکسریت پسندوں کی جانب سے عائد حکم کی جانب جاتا تھا۔

وہ کابل میں رہیں اور ان لڑکیوں کو انگریزی پڑھانا شروع کی جنھیں سکول سے نکال دیا گیا تھا۔

’وہ ایک مایوس کن دور تھا۔ اگر کوئی آپ کو کمزور کرنا چاہے اور آپ کے لیے مواقع کو روکنا چاہے۔۔۔ یہ بہت تکلف دہ تھا۔‘

طالبان نے خواتین کے لیے خود کو مکمل ڈھانپنے کا حکم جاری کیا۔ جس کے نتیجے میں خواتین کے لیے چادر اوڑھنا یا برقعہ پہننا ضروری ہو گیا۔

خواتین

طالبان نے خواتین کے لیے خود کو مکمل ڈھانپنے کا حکم جاری کیا، جس کے نتیجے میں خواتین کے لیے چادر اوڑھنا یا برقعہ پہننا ضروری ہو گیا

حکم عدولی

’میں نے کبھی برقعہ نہیں خریدا کیونکہ میں کسی ایسی چیز پر پیسے خرچ کرنا نہیں چاہتی تھی جو میرے خیال میں ہماری ثقافت کا حصہ نہیں۔‘

اس حکم عدولی کی انھیں ذاتی قیمت چکانا پڑی۔ کوفی کو محفوظ رہنے کے لیے اپنی نقل و حرکت محدود کرنا پڑی۔

’وہ گلیوں میں گشت کیا کرتے اور برقعہ نہ پہننے والی خواتین کو مارا کرتے تھے۔‘

یہ کوئی حیرت کی بات نہیں لیکن جب امریکہ نے مداخلت کی اور طالبان کو باہر نکال دیا گیا تو لوگوں نے سکون محسوس کیا۔

’ہم گلیوں میں چل پھر سکتے تھے اور طالبان سے مار کھانے کے خوف کے بغیر شاپنگ کر سکتے تھے۔‘

سنہ 2001 میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد انھوں نے اقوام متحدہ کے لیے کام کیا اور سابق کمسن سپاہیوں کی بحالی کے لیے کام کیا۔

شوہر کی موت

کوفی کے لیے طالبان حکومت کے بعد بھی زندگی آسان نہیں تھی۔ اس دور کے دوران ان کے شوہر کی تپ دق سے موت ہو گئی، جس میں وہ افغان ملیشیا کی قید کے دوران مبتلا ہوئے تھے۔

فوزیہ کوفی

Media team of Fawzia Koofi
طالبان کی شکست کے بعد افغانستان میں ٹی وی اور ریڈیو سٹیشنز کی تعداد غیر معمولی طور پر بڑھی ہے

تاہم جب سنہ 2005 میں پارلیمانی انتخابات کا اعلان کیا گیا تو کوفی نے اس میں حصہ لینے کا اعلان کیا۔

ان کے والد عبدالرحمان کوفی مذہبی ملیشیا کے دور سے پہلے سے پارلیمان کے رکن رہ چکے تھے۔ مجاہدین کے ہاتھوں موت سے پہلے، والد کی حمایت نے کوفی کی خاصی مدد کی۔

’والد کی میراث نے مجھے ووٹ حاصل کرنے میں مدد تو کی لیکن میرے لیے اہم چیلنج اپنی علحیدہ شناخت قائم کرنا تھا۔‘

وہ بحیثیت رکن پارلیمان دو ادوار میں پارلیمنٹ کی ڈپٹی سپیکر بنیں۔ بحیثیت رکن پارلیمان ملک کے جنوبی حصے کے دورے کے دوران وہ طالبان کی، انھیں مارنے کی کوشش سے بچ نکلیں۔

طالبان کے حملے سے بچنا

’مارچ 2010 میں، میں صوبہ ننگراہر میں خواتین کا بین الاقوامی دن منانے پہنچی۔ واپسی پر میرے قافلے پر حملہ کیا گیا۔‘

فوزیہ کوفی

کوفی کہتی ہیں کہ طالبان کے مقاصد جاننے کے لیے مزید مذاکرات کی ضرورت ہے

’دریا کی دوسری جانب اور پہاڑ کی چوٹی سے گولیاں برسائی گئیں۔‘

سکیورٹی اہلکاروں نے کوفی اور ان کی دو بیٹیوں کو بچا لیا اور ان کو ایک پہاڑ کی سرنگ میں لے گئے، جہاں سے ان تینوں خواتین کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے کابل پہنچایا گیا۔

طالبان کا بڑھتا کنٹرول

کوفی نے دیکھا ہے کہ کیسے طالبان کا تختہ الٹنے کے بعد بھی امن نہیں آیا۔ درحقیقت عسکریت پسندوں کو دوبارہ جمع ہونے اور زیادہ شدت سے لڑنے میں صرف چند ہی برس لگے۔

سنہ 2018 میں بی بی سی کی ایک تحقیقاتی رپورٹ سے پتہ چلا کہ 70 فیصد افغانیوں کو طالبان سے دھمکیاں موصول ہوئیں۔

افغانستان

AFP/ Getty images

فوجی طاقت استعمال کرنے کے باوجود طالبان کو خاموش کرانے سے قاصر امریکہ اب مذاکرات کے ذریعہ راستہ تلاش کر رہا ہے۔

افغانستان میں جنگ نے امریکہ اور اس کے ساتھیوں کو بھاری نقصان پہنچایا ہے۔

سنہ 2001 سے لیکر اب تک تقریباً 2400 سے زیادہ امریکی اہلکار افغانستان میں مارے جا چکے ہیں جبکہ دوسرے ممالک کے گیارہ سو سے زیادہ فوجی مارے جا چکے ہیں۔

امریکی محکمہ دفاع کے مطابق اکتوبر 2001 سے مارچ 2019 کے عرصے میں امریکی فوج پر 760 ارب ڈالر خرچ کیا جا چکا ہے۔

امن معاہدہ

امریکہ اور طالبان امن معاہدے کے بالکل قریب پہنچ رہے ہیں۔

فوزیہ کوفی کہتی ہیں ’ہر کوئی امن چاہتا ہے، ہم جنگ کے دوران پیدا ہوئے اور پلے بڑھے۔ امن کا مطلب کیا ہے نہ تو یہ میری عمر کے لوگ جانتے ہیں اور نہ ہی ہمارے بچوں کو اس کا کچھ پتا ہے۔‘

ستم ظریفی یہ ہے کہ امن کے امکان نے بھی طالبان کے بارے میں خدشات کو بڑھا دیا ہے۔ سابق رکن پارلیمان نے کسی بھی قیمت پر معاہدے میں جلد بازی کرنے پر متنبہ کیا ہے۔

فوزیہ کوفی

Media team of Fawzia Koofi
کوفی کہتی ہیں کہ چہرے کو ڈھانپنا ان کے کلچر کا حصہ نہیں

وہ کہتی ہیں ’اگر امن کا عمل ساری طاقت طالبان کو دینے جا رہا ہے تو یہ ایک بہت بڑی غلطی ہو گی۔‘

اگر سب کچھ منصوبے کے مطابق ہوا تو امریکہ اور طالبان کے درمیان رواں ماہ کے آخر میں معاہدہ ہو جائے گا۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ واشنگٹن کی اس طویل جنگ کو ختم کرنے کے خواہاں ہیں اور اس سال کے آخر میں دوبارہ انتخابات سے پہلے وہ 13 ہزار سپاہیوں کو افغانستان سے نکالنا چاہتے ہیں۔

کوفی کہتی ہیں ’لڑائی اب بھی جاری ہے، ہمیں افغانستان کی حقیقتوں کو مدنظر رکھنا ہو گا۔ سب سے بڑا چیلینج یہ ہے کہ ہم اس جنگ کو کیسے ختم کریں۔ کیا ہم اسے ایک پروقار معاہدے کے بعد ختم کریں یا پھر ایک اور جنگ کے لیے؟‘

وہ کہتی ہیں ’امن کا مطلب ہے وقار، انصاف اور آزادی کے ساتھ رہنے کی صلاحیت ہونا۔‘

بیرونی فوجی دستے

اب جنگ میں زیادہ حصہ افغان فوجی لیتے ہیں۔ لیکن نظریاتی اعتبار سے یہ فورس طالبان جنگجوؤں کے خیالات کا مقابلہ کرنے کی جدوجہد کر رہی ہے۔

ہیلی کاپٹر

اتحادی افواج نے افغان فوج کو ہر حد تک فضائی معاونت فراہم کی

وہ کہتی ہیں ’افغانستان میں غیر ملکی دستوں کی موجودگی افغان فوجیوں کے لیے ایک بڑی اخلاقی مدد ہے۔ اس سے واضح سفارتی پیغام بھی جاتا ہے۔ ہمیں ان کی اگلے کچھ سال بھی ضرورت ہو گی۔‘

کوفی کہتی ہیں کہ اس سے پہلے کہ ہم امن معاہدے کی توثیق کر لیں، بہت سے اہم معاملات مثلاً مستقبل کی حکومت کی شکل کیا ہو گی، پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔

انھوں نے جمہوریت کی بقا اور خواتین کے حقوق کو واضح کیا۔

وہ کہتی ہیں ’جمہوریت کا کچھ بھی متبادل نہیں، فقط جمہوریت میں ہی ہر ایک کو کہنے کا حق ہوتا ہے۔‘

ترقی میں رکاوٹ

افعانستان دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی ترقی سے متعلق انڈیکس کے مطابق دنیا کے 189 ملکوں میں اس کا نمبر 170 ہے۔

مقامی نیوز رپورٹس کے مطابق یہاں خواتین میں شرح تعلیم 16 فیصد تک ہے۔

افغان لڑکیاں

AFP/Getty images
حصول تعلیم کے لیے رسائی اب بھی افغانستان میں ایک چیلنج ہے

اس طویل جنگ کی انسانوں نے ایک بڑی قیمت ادا کی۔ سوویت یونین کے قبضے کے دوران یہاں دس لاکھ سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے۔

آج 25 لاکھ افغان ایسے ہیں جو مہاجرین کے طور پر بیرون ملکوں میں رجسٹرڈ ہیں۔ اس کے علاوہ بیس لاکھ نے اپنے ملک کے اندر اپنے گھر چھوڑا۔

ایک اندازے کے مطابق 20 لاکھ خواتین اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

سنہ 2016 اور سنہ 2017 میں آمدن سے متعلق ایک تحقیق میں یہ سامنے آیا تھا کہ 50 فیصد سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔

آگے کے چیلینجز

جنگ نے سیاسی حلقوں کو بھی پروان چڑھنے سے روکا۔ ایسا ایک بھی سیاسی رہنما موجود نہیں جسے اس قسم کی سیاسی مقبولیت حاصل ہو جو کہ امن معائدے کے لیے ضروری ہے۔

امریکہ کے افغانستان میں حملے کے بعد حالیہ انتخابات میں ووٹرز کا ٹرن آؤٹ کم ترین رہا۔ انتخابات کے پانچ ماہ بعد یہ اعلان ہوا کہ صدر اشرف غنی نے الیکشن میں کامیابی حاصل کی ہے۔

دوسری جانب طالبان انتہا پسندوں نے ابھی اپنے مستقبل کے منصوبوں کو سامنے لانا ہے۔

طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے بی بی سی کو بتایا کہ جو لوگ امن کے خلاف ہیں، وہ عورتوں کے حقوق کو استعمال کر کے بات چیت کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔

طالبان کتنے تبدیل ہوئے ہیں اور وہ امن معاہدے سے کیا چاہتے ہیں کہ ابھی تک واضح نہیں ہے۔

کیا بدلا ہے؟

کوفی کہتی ہیں ’خواتین نے بہت کچھ کھویا ہے۔ اس سے زیادہ اور ہم کیا کھو سکتی ہیں؟ وہ ہم سے اور کیا چاہتے ہیں۔‘

فوزیہ کوفی اور ان کی بیٹیاں

AFP/Getty images
کوفی کہتی ہیں کہ ان کی بیٹیاں سخت نظریات والوں کی جانب سے لاگو کیے جانے والے قوانین کی پیروی نہیں کرتیں

طالبان کے عروج کے بعد سے اب افغانستان بہت بدل چکا ہے۔

کوفی کہتی ہیں کہ ان کی دونوں بیٹیاں کابل یونیورسٹی میں پڑھتی ہیں۔ میڈیا سے معلومات حاصل کرنے کے لیے انٹرنیٹ تک بغیر رکاوٹ کے رسائی نے ان کی شخصیات کو ایک سانچے میں ڈھالا ہے اور رویوں پر اثر ڈالا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ کوئی بھی جو اس ملک پر حکومت کرنا چاہتا ہے، اسے اس بات کو مدنظر رکھنا ہو گا کہ ان کی بیٹیوں کو اور ان کی ہم عمر لڑکیوں کو کوئی بھی طاقت گھر تک محدود نہیں کر سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32495 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp