’ججز پر الزام کے ثبوت دیں یا تحریری معافی مانگیں‘


سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل آف پاکستان کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی اس بات کے ثبوت فراہم کریں جس میں اُنھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں صدارتی ریفرنس کے خلاف درحواست دائر کرنے میں اس درخواست کی سماعت کرنے والے دس رکنی بینچ میں شامل کچھ ججز نے ان کی معاونت کی تھی۔

بدھ کے روز ریفرنس پر سماعت کے دوران عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ اگر اٹارنی جنرل آئندہ سماعت تک اپنے اس دعوے سے متعلق شواہد فراہم کرنے میں ناکام رہے تو پھر وہ عدالت سے تحریری طور پر معافی مانگیں گے۔

واضح رہے کہ اٹارنی جنرل کیپٹن ریٹائرڈ انور منصور نے منگل کہ روز اپنے دلائل شروع کرنے سے پہلے یہ الزام عائد کیا تھا کہ ان کے علم میں ہے کہ کچھ ججز نے صدارتی ریفرنس پر سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی رکوانے کے لیے درخواست کی تیاری میں درخواست گزار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی معاونت کی تھی۔

اٹارنی جنرل کے اس بیان کے بعد بینچ میں موجود کچھ ججز نے اعتراض اُٹھایا تو پھر اٹارنی جنرل نے اپنا یہ بیان واپس لے لیا اور اس دس رکنی بینچ میں موجود جسٹس مقبول باقر نے میڈیا کے نمائندوں سے کہا تھا کہ وہ اس کو رپورٹ نہ کریں۔

عدالت نے اٹارنی جنرل کو یہ بھی حکم دیا ہے کہ وہ ججز کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے بارے میں بنائے گئے قوانین سے متعلق بھی عدالت کو مطمئِن کریں۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس کی کاروائی روکنے سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی۔

بدھ کے روز سماعت کے دوران بینچ میں موجود تمام ججز کے چہرے پر سنجیدگی سے ایسا لگتا تھا کہ ججز اٹارنی جنرل کے گذشتہ روز لگائے گئے الزامات سے خوش نہیں ہیں۔ بدھ کو ان درخواستوں کی سماعت بھی تاخیر سے شروع ہوئی۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بیرون ملک اپنے بیوی بچوں کے نام جائیدادوں کو تسلیم کیا ہے اور اُنھوں نے ان جائیدادوں کو اپنے اثاثوں میں ظاہر نہ کرکے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی ہے۔

بینچ میں موجود جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ اگر فرض کریں کہ جسٹس قاضی فائز عسیٰ نے اپنے اثاثوں میں ان جائیدادوں کو ظاہر کردیا ہوتا تو کیا پھر بھی سپریم کورٹ کے جج کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کردیا جاتا، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اگر ایسا ہوتا تو پھر ریفرنس دائر نہیں ہو سکتا تھا۔

جسٹس فیصل عرب نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا وہ درخواست گزار کی طرف سے انکم ٹیکس کے محکمے کی طرف سے جاری کیے گئے نوٹس کا جواب دیے بغیر ہی ان کے خلاف ریفرنس دائر کردیا، جس کا اٹارنی جنرل نے کوئی جواب نہ دیا۔

تاہم اٹارنی جنرل نے بینچ میں موجود ججز کا دھیان اس نکتے سے ہٹانے کے لیے اپنے دلائل میں کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس صرف گوشواروں میں ان جائیدادوں کا زکر کرنا نہیں بلکہ یہ معاملہ تو اس سے بھی آگے ہے کیونکہ ان جائیدادوں کو خریدنے کے لیے منی لانڈرنگ کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔

بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ وہ عدالت کو ان قوانین کے بارے میں بتائیں کہ ایک شوہر اپنے بیوی بچوں کے اثاثوں کو کیسے اپنے گوشواروں میں ظاہر کرسکتا ہے۔

انور منصور کے پاس جب اس سوال کا جواب بھی نہیں تھا تو اُنھوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 211 کے تحت جب کسی جج کے خلاف معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں ہو تو کوئی بھی عدالت اس کے خلاف درحواست نہیں سن سکتی۔

جب بینچ میں موجود ججز نے اس معاملے پر بھی اٹارنی جنرل کو عدالت کو مطمئِن کرنے کے بارے میں کہا تو وہ اس نکتے پر بھی عدالت کو مطمئِن نہ کرسکے۔

بینچ کے سربراہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت گذشتہ کئی ماہ سے ان درخواست کو سن رہی ہے اور اس بینچ میں شامل ججز پوری تیاری کرکے کے آتے ہیں لیکن اپ نے کوئی تیاری ہی نہیں کی۔

اُنھوں نے کہا کہ کبھی سپریم کورٹ کے جج کی طرف سے انکم ٹیکس کے گوشوارے جمع نہ کروانے کا زکر کرتے ہیں اور کبھی ججز کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی بات کرتے ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے جج کے خلاف یا کوئی ایف آئی آر ہے یا صدارتی ریفرنس ہے اور ریفرنس میں شواہد بھی موجود ہونے چاہیں۔

اُنھوں نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا وہ ’گذشتہ دو روز سے اِدھر اُدھر کی ہانک رہے ہیں اور بڑی خوبصورتی کے ساتھ وقت ضائع کررہے ہیں۔‘

بینچ کے سربراہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اثاثوں کی ریکوری کرنے والے محکمے کو ان جائیدادوں کے بارے میں تمام شواہد پیش کرنے چاہیے تھے۔ اُنھوں نے کہا کہ بجائے اٹارنی جنرل کے اس محکمے سے ان شواہد کے بارے میں پوچھے اس محکمے کو شواہد خود بخود پیش کرنے چاہیے تھے۔

دس رکنی بینچ میں شامل جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ک اپنے دلائل میں مختلف ملکوں کی عدالتوں کے فیصلوں کے حوالے دیے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ مختلف مفکروں کے بیانات بھی سنائے ہیں لیکن ابھی تک آپ عدالت کو اس بات پر قائل نہیں کرسکے کہ ان کے دلائل کی بنیاد کیا ہے۔

جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وہ عدالت کی طرف سے پوچھے گئے تمام سوالوں کے جواب دیں گے، جس پر منصور علی شاہ نے مسکرا کر کہا ’آپ کے جواب کا انتظار رہے گا۔‘ ان درخواستوں پر سماعت اب 24 فروری کو ہوگی۔

یاد رہے کہ منگل کو عدالتی کارروائی کے دوران جب اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کچھ الزامات لگائے تو بینچ میں شامل تمام ججز غصے میں آ گئے اور بعد ازاں انور منصور کو اپنے الفاظ واپس لینا پڑے۔

ان الزامات کی تفصیلات اس لیے نہیں بتائی جا سکتیں کیونکہ عدالت نے ان کو کارروائی سے حذف کروا دیا تھا۔

کمرہ عدالت میں موجود دیگر وکلا جو اس کارروائی کو دیکھنے کے لیے آئے تھے، ان کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل کی طرف سے ایسا عمل دراصل ججز کو دباؤ میں لانے کے مترادف ہے جس میں وہ کامیاب نہیں ہوئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp