گاندھی جی کی آپ بیتی


مہاتما گاندھی کی آپ بیتی ”تلاش حق“ پڑھی، گاندھی جی کے افکار و نظریات اور جہد حیات کے ساتھ بہت مقصود تھا کہ آزادی کے حوالے سے ان کی کاوشوں کو ان کی زبانی پڑھنے کاموقع ملے گا لیکن اس حوالے سے مایوسی ہوئی کہ اس میں آزادی ہندکی جدو جہد کے آغاز میں پہنچتے ہی یہ ختم ہوجاتی ہے۔ اس کی وجہ گاندھی جی کے نزدیک یہی تھی کہ بہت سی وہ شخصیات جن کے حوالے سے اس کے بعد کی زندگی کے واقعات ہیں وہ ابھی زندہ ہیں اور ان کے حوالے سے زیادہ چیزیں نہیں لکھنا چا ہ رہا۔

گاندھی جی کی دوسری کتابوں کی معلوم نہیں کیا صورتحال ہے لیکن اپنی آپ بیتی میں جوتشنگی وہ وقتی حالات کے پیش نظر چھوڑ گئے وہ صدیوں محسوس کی جاتی رہے گی۔ اس آپ بیتی کا اختتام تحریک خلافت کے زمانے پر جاکر ہوجاتاہے۔ تحریک عدم موالات پر گاندھی روشنی ٖڈالتے ہیں اور اس میں شامل ہونے کا ذکر کرتے ہیں، ہندوؤں کی جانب سے اس پر ان کی سخت مخالفت کی جاتی ہے، عدم موالات کے بارے ان کی سوچ یہ تھی کہ انگریز کا بالکلیہ بائیکاٹ نہ کیا جائے بلکہ صرف ان قوانین کا بائیکاٹ کیا جائے جو ہمیں متاثر کرتے ہیں۔

گاندھی جی کی آپ بیتی میں ان کے دور طالب علمی، زندگی کے اسفار، مختلف ملکوں کا مشاہدہ اور رہن سہن، مختلف شخصیات سے ملاقات اور سیکھنے سکھانے کا عمل، مذہبی اور روحانی تجربات، تحریکیں چلانے اور قومی خدمت کے کاموں میں دن رات ایک کردینے کے حالات و واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس کے ساتھ ان کے ذاتی روشن کردار سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتاہے۔ گاندھی جی نے اس آپ بیتی میں ہندوستانی سماج، اس کے افراد کے مزاج و عادات اور خامیوں و خوبیوں پر بھی کافی روشنی ڈالی ہے۔ ان کی آپ بیتی ایک بیدار مغز شخص کی آپ بیتی ہے جس کی زندگی تجربات سے بھرپور ہے، اور اس نے اپنے آپ کو بلا کم و کاست لوگوں کے سامنے رکھ دیا ہے۔

گاندھی جی ایک ایسے سماج کے فرد تھے جس میں شادی چھوٹی عمر میں ہی کردی جاتی تھی۔ گاندھی کے مطابق کم عمر ی کی شادی بہت سے لوگوں کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے اور خاص کر لڑکیوں کی تعلیم کا سلسلہ رک جاتاہے، بعد میں اگر شوہر پڑھ لکھ جائے تو اس کے ساتھ زندگی ہم آہنگ کرنا مشکل ہوجاتاہے اور دونوں ایک دوسرے سے ناآشنا رہتے ہیں۔ ہندو ستانی سماج میں شادی کو جس قدر مشکل بنادیاجاتاہے یا جتنے تکلفات کیے جاتے ہیں گاندھی ان پر تنقید کرتے ہیں ان کو اچھا نہیں سمجھتے ہیں۔

گاندھی جی ہندوستانی سماج کے مطابق ایک ایسے ہی شوہر تھے جو بیوی پر تحکم جماتا ہے اور اس پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کرتاہے، بیوی پر شک کرتا رہتاہے، بیوی کو بے جا پابندیوں کے حصار میں رکھنا چاہتاہے جس کی وجہ سے گھر کے حالات خراب ہوتے ہیں، جس کا بعد کی زندگی میں ان کو بہت احساس رہتاہے اور اس پر وہ افسوس کرتے ہیں، خود کو بدل لیتے ہیں اور بیوی کی مرضی کا خیال رکھتے ہیں۔ عورتوں کے حوالے سے ہندوستانی سماج کے اثرات کو ہم آج بھی اپنے معاشروں میں محسوس کرسکتے ہیں۔

وہ شادی کو خواہش کی تکمیل یا لذت کا ذریعہ نہیں سمجھتے ہیں بلکہ شادی صرف اس لیے کرنی چاہیے کہ ایک فطری نظام ہے جس میں شادی کے ذریعے اولاد ہوتی ہے، شادی کا مقصد صرف یہی ہونا چاہیے، گاندھی جی کو اس چیز کی بہت فکررہتی ہے کہ وہ نفس پرستی کی طرف مائل ہوجاتے ہیں اور شہوانی جذبات ان پر غلبہ پالیتے ہیں، زندگی کے بہت آخر میں نہیں بلکہ اپنے افریقہ کے قیام کے زمانہ میں ہی جس وقت ان کی عمر زیادہ نہیں تھی وہ بیوی کے پا س نہ جانے کا عزم کرلیتے ہیں، وہ بیوی کے پاس جانے کو نفس پرستی سمجھتے ہیں، اپنی روحانی بلندی کے خلاف سمجھتے ہیں، ان کو لگتا ہے کہ قومی خدمت اس طر ح ہی ٹھیک طرح ممکن ہے۔

خود کو شہوانی جذبات و خیالات سے دور رکھنے کے لئے وہ سادہ خوراکیں کھاتے ہیں اور محنت و ریاضت کرتے ہیں، غرض تکلف میں مبتلا ہوکر وہ خود کوروکتے ہیں جبکہ اسلام میں ایساتکلف، تجرد یا رہبانیت نہیں۔ روحانیت کے اعلی مراتب کو پانے کے لئے ایک صحابی کے ایسے ہی خیالات پر پاک پیغمبر نے فرمایا تھا کہ شادی میری سنت ہے اور جس نے اس کو چھوڑا وہ مجھ سے نہیں۔ اسلام حلال اور حرام میں فرق سکھاتاہے بیوی کے پاس جانے کو تکمیل ایمان کا ذریعہ بتاتاہے جبکہ حرام سے بچنے کی سخت تاکید کرتاہے۔

انگلستان میں تعلیم کے لئے جانے پر ان کی برادری کے لوگ ان کو برادری سے خار ج کردیتے ہیں، ان کے دھرم میں سمندر پار جانے کی ممانعت ہے، وہاں آدمی دھرم کے خلاف کام کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے، اسے انگریزوں کے ساتھ کھانا پڑتاہے، اکثر لوگ ادھر جاکر بے راہ روی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ دوسری اقوام کے حوالے سے بے بنیاد خیالات اور اپنے مذہب میں توہمات پر مبنی تعلیمات آج بھی ہمارے اندر پائی جاتی ہیں۔ آدمی میں آنے والی تبدیلیاں واقعی دھرم اور ملک کے خلاف ہوتی ہیں یا وہ ایک نئی دنیا کو دیکھ کر بعض چیزوں اپنانا ضروری سمجھتا ہے، گاندھی جی میں کس نوعیت کی تبدیلیاں آئیں اور کن چیزوں میں انہوں نے بالکل کمپرو مائز نہیں کیا اس کا وہ آپ بیتی میں ذکرکرتے ہیں۔

گاندھی جی عہد کرتے ہیں وہ کبھی گوشت نہ کھائیں گے، شراب نہ پییں گے، عورت کو ہاتھ نہ لگائیں گے۔ اپنی ماں کے ساتھ کیے ہوئے اس وعدے کی ان کے ہاں اس قدر اہمیت ہوتی ہے کہ وہ انگلستان کے سخت موسم میں اپنی طاقت کی بحالی کے لئے بھی گوشت نہیں کھاتے ہیں، ان کے دوست ان کو بہت مجبور کرتے ہیں، ابتداء میں مرضی کا کھانا ملنا بھی مشکل ہوتاہے لیکن اس دوران وہ تمام سخت حالات برداشت کرتے ہیں لیکن اپنا وعدہ نہیں توڑتے ہیں۔ صرف اس لئے کہ انہوں نے اپنی ماں سے وعدہ کر رکھا ہے۔ انگلستان کے ماحول میں شراب اور عورت سے بھی ان کو سابقہ پڑتاہے لیکن وہ ان سب چیزوں سے بچے رہتے ہیں۔ گناہوں سے بچنے اور اپنی ماں سے کیے وعدے کا پاس رکھنے کے حوالے سے ان کی جدوجہد قابل تعریف و تحسین اور لائق اتباع ہے۔

گاندھی جی انگلستان میں بیرسٹری کی تعلیم حاصل کرتے ہیں لیکن اس ڈگری کی حیثیت کے بارے میں حقائق کو بالکل بے جھجک لکھ دیتے ہیں۔ بیرسٹری کا نصاب تعلیم بہت آسان تھا اور بیرسٹروں کو لوگ مذاق میں دو ڈنر بیرسٹر کہتے تھے۔ ہر شخص جانتا تھا کہ امتحان کی کوئی وقعت نہیں، کتابوں کا امتحان کئی بار کرکے دیا جاسکتا تھا، شاید ہی کوئی شخص ان کتابوں کو پڑھتا تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ بہت سے لوگوں نے محض خلاصہ اور شرح پڑھ کر رومی قانون کا امتحان دو ہفتے میں اور عام قانون کا دو تین مہینے میں پاس کرلیا۔

سوالات کے پرچے سہل ہوتے تھے، اور ممتحن دل کھول کر نمبر دیتے تھے۔ رومی قانون کے امتحان میں پچانوے سے ننانوے فیصد اور آخری امتحان میں ستر فیصد بلکہ اس سے زیادہ امیدوار پاس کیے جاتے تھے اس لیے فیل ہونے کا خوف بہت کم تھا اور امتحان سال میں ایک بار نہیں بلکہ چار بار ہوتا تھا۔ جن ہندوستانی لیڈروں کی انگلستان سے وکالت کی اعلی تعلیم پانے کے حوالے سے شہرت ہے اوراس کو ان کی قابلیت گردانا جاتاہے اس کا پردہ بھی چاک ہوتاہے۔

وکالت کی ڈگر ی حاصل کرکے روزگار کمانے کے حوالے سے گاندھی جی کو کافی مشکلات اٹھانی پڑتی ہیں کیونکہ وکالت ان کے ذہن اور طبیعت سے میل نہیں کھاتی اوردھوکہ وجھوٹ کا وہ کبھی سہارا نہیں لینا چاہتے تھے، لیکن قانون کے فہم کو وہ لوگوں کی خدمت کے لئے وقف کردیتے ہیں۔

انگلستان کے قیام میں گاندھی جی نباتاتی منہج والوں کے ساتھ مل جاتے ہیں اور کبھی گوشت نہیں کھاتے ہیں۔ گاندھی نباتاتی منہج والوں میں سے بھی ان لوگوں میں سے تھے جو آخری درجے پر تھے، جو نہ صرف گوشت نہیں کھاتے بلکہ دودھ، انڈا اور ایسی تمام چیزوں کو چھوڑ دیتے ہیں جو جانوروں سے حاصل شدہ ہوتی ہیں۔ صرف سبزیوں پر اکتفاء کرنے اور مرغ مسلم وبکرا شریف سے محروم رہنے کے لئے مذہب جیسی مضبوط چیز کاسہارا چاہیے۔ انسان اپنے ذہن میں جن چیزوں کے بارے نفرت بٹھالیتاہے وہ جس قدر بھی فائدہ مند اور مزیدار ہوں ان کو استعمال نہیں کرسکتا۔

انسان کے ذہن میں بیٹھے مفروضات اس کی باہر کی دنیا کو اس طرح ڈھالتے ہیں کہ وہ سبزیوں کے فوائد کو اس قدر اہم سمجھتا ہے کہ ان کے مقابلے میں گوشت وغیرہ کو چھوڑ دیتاہے، لیکن یہ ذہن میں طے کسی چیز کے فوائد و نقصان تلاشنے والی بات ہے، اگر فوائد و نقصان معیار ہے تو اس کو اول درجے پر رکھ کر اپنے عقائد کو ثانوی اہمیت دی جائے تو شاید بہت کچھ بدلنا پڑے۔

افریقہ میں ہندوؤں کو قلی کہا جاتا تھا اور ان کو بہت حقیر سمجھا جاتا تھا، ان کے ساتھ انتہائی برا سلوک کیا جاتا تھا، ٹرین میں ان کے لئے تھرڈ کلاس مخصوص تھی، ہوٹلوں میں جہاں کہیں گورے ٹھہرتے تھے ان کو نہیں ٹھہرایا جاتا تھا۔ گاندھی جی ان حالات میں افریقہ کے لوگوں کے لیے قانونی اور سماجی خدمات سر انجام دیتے ہیں۔ افریقہ میں لمبے عرصے تک مقیم رہے اور قانونی معاملات اور لوگوں کے حقوق کی جنگ کے علاوہ بہت سے فلاحی کاموں کی بنیاد رکھتے ہیں جن میں لوگوں کے لیے صحت، تعلیم اور روزگار کی فراہمی کی کوششیں بنیادی ہیں۔

گاندھی ایک خدا کو مانتے ہیں، ہندو مختلف بتوں کو پوجتے ہیں لیکن اس میں بھی مظاہر قدرت جن میں خدا نظر آتاہے کی عبادت کرتے ہیں۔ اصل میں ان کے ہاں ساری کائنات کی اصل ایک ہی ذات ہے۔ خدا کے حوالے سے گاندھی جی اپنے عقیدے کو واضح کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ سمندر میں سفر کرتے ہوئے طوفان آجاتا ہے، اس کیفیت کونقل کرتے ہیں کہ ہندو، مسلمان، عیسائی سب کے سب آپس کے اختلافات بھول گئے تھے اور اس خدائے واحد کو جو سب کا معبو د ہے یاد کررہے تھے۔

حق وہ روح کلی ہے جو ساری کائنات میں جاوی و ساری ہے انسان اس کے جلوے کی تاب تبھی لاسکتا ہے جب وہ ادنی مخلوق کو اپنی جان کے برابر عزیز رکھتا ہو۔ ہندو چونکہ مظاہر میں ذات حق کو دیکھتے ہیں، کسانوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے کہتے ہیں مجھے ان کے ساتھ خدا کا نور، اہمسا اور حق کا جلوہ نظر آیا۔ گاندھی جی کے مذہبی خیالات میں انسانیت کی خدمت کو سب سے بنیادی اہمیت حاصل ہے۔

ان کو عیسائیت متاثر کرتی ہے وہ یہودیت سے بالکل متاثر نہیں ہوتے ہیں بلکہ اس کو اپنے مذہب سے متضاد سمجھتے ہیں، یہودیت میں اسلام کی مانند ہی خالص توحید پائی جاتی ہے اس لئے ان کے مذہبی خیالات اس مذہب کے ساتھ مطابقت نہیں پیدا کرسکتے ہیں۔

گاندھی جی کا زمانہ وہ ہے جس میں ہندوستان میں عیسائیت کے مشنز کام کرتے تھے، اور وہ تعصب اور تشدد سے کام لیتے ہیں اس لئے یہ ان کو دل وجان سے برا سمجھتے ہیں۔ لیکن انگلستان میں عیسائیت کے مطالعہ اور مختلف عیسائی پادریوں اور مذہبی لوگوں کے ساتھ میل جول سے یہ عیسائیت سے آشناہوتے ہیں، ان کوعیسائیت کی اخلاقیات اور رہبانیت پسندی وسادگی بہت بھاتی ہے۔ دراصل عیسائیت میں یہ چیزیں ان کے اپنے فلسفہ زندگی اور ہندو ازم سے قریب نظر آتی ہیں تو اس طرح وہ عیسائیت کو اس لحاظ سے اچھا جاننے لگتے ہیں۔

لیکن عیسائیت کا عقیدہ کفارہ ان کو حیرت میں ڈالتا ہے جس میں ماننے والے اپنے نبی پر اپنے گناہوں کا بوجھ ڈال دیتے ہیں، اسی طرح خدا کا بیٹا ایک خاص قوم میں ہونا اور انہی کی بخشش کا ذریعہ ہونا ان کے لئے قابل قبول نہیں۔ جب خدا سب کا ہے تو بخشش صرف ایک قوم کے لئے کیوں؟ ساری انسانیت کے لئے یہ رحمت کیوں نہیں۔

گاندھی جی کہتے ہیں کہ میں گناہ کے عذاب سے نجات نہیں چاہتا بلکہ مجھے تو خود گناہ سے بلکہ اس کے خیال سے نجات کی جستجو ہے۔ آریائی مذاہب ہندو مت، جین مت، بدھ مت ان تمام میں یہ خیالات مشترک ہیں، یہ روح کے چھٹکارے کے لئے محنت کرتے ہیں اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک گناہوں سے بالکل پیچھا نہ چھڑا لیا جائے، کیونکہ گناہ سے روح ملوث ہوجاتی ہے اور چھٹکارہ نہیں حاصل کرپاتی۔

ہندو مذہب کے بارے گاندھی جی کہتے ہیں، ہندو دھر میں جتنی دقت نظر، نزاکت خیال، روحانی بلندپروازی اور کشادہ دلی ہے کسی مذہب میں نہیں۔ ہندو مذہب ایک فلسفی مذہب رہا ہے، ہندوستان کی فلاسفی قدیم شہرت رکھتی ہے انہی فلسفیانہ خیالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے وہ ہندومذہب کے بارے یہ کہتے ہیں۔ ہندو مذہب اس حوالے سے یقینا بہت کشادہ دل ہے کہ اس سے بہت سے مذاہب نے جنم لیا لیکن اس نے کسی کو بھی اپنے سے باہر نہیں کیا بلکہ سب کو ہندو ازم کا حصہ ہی سمجھا۔ بدھ مت، جین مت، یا سکھوں کے جس قدر بڑے گزرے ہیں ان کو ہندو بھی بڑ ا سمجھتے ہیں۔ اصل میں تو حیدی مذاہب سے قبل دنیا میں موجود مذاہب خود کو حق کہنے کے ساتھ دیگر کو باطل کہنا ضروری نہیں سمجھتے تھے، اور ہندوا زم بھی انہی مذاہب میں سے ہے۔

گاندھی مسلمانوں کے ترجمہ قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں، تورات کے مطالعے سے ان کو نیند آنے لگتی ہے، انجیل ان کو متاثر کرتی ہے، اس میں اخلاقیات اور رحمدلی کا ذکر ملتاہے حضرت عیسی کا پہاڑی کا وعظ وہ بہت پسند کرتے ہیں۔

حضرت عیسی اور گوتم بدھ کا تقابل کرتے ہوئے کہتے ہیں، گوتم بدھ کے دل میں اوروں کا کتنا دردر تھا ان کی ہمدردی انسانوں تک محدود نہ تھی بلکہ ساری مخلوق کو محیط تھی۔ یعنی جانورو ں اور دیگر مخلوقات کے حوالے سے ہندو تصورات کا تقابل کرتے ہیں کہ ہندوؤں کے ہاں ان کو کھانے کی اجازت نہیں۔

گاندھی جی کے مطابق مذہب اور اخلاقیات دو الگ چیزیں نہیں ہیں، بلکہ جو مذہب اخلاقیات نہ سکھائے وہ مذہب نہیں ہے مذہب کا وظیفہ ہی اخلاقیات سکھانا ہے۔ حسن اخلاق ستیا گری کی جان ہے۔ حسن اخلاق سے مراد محض ظاہری شیریں کلامی نہیں بلکہ باطنی شیریں مزاجی اور اپنے مخالفوں کی دلی خیر خواہی ہے۔ مذہب سے ہٹ کر بھی اخلاقیات ہوسکتی ہیں کہ نہیں یہ آج کی دنیا کی بڑی بحثوں میں سے ہے، یورپ آج مذہب کومعاشرتی زندگی سے جد ا بھی کردے لیکن اس کی اخلاقیات مذہب سے ہی پھوٹی ہیں، یہ عیسائیت سے اخذکردہ اخلاقیات ہیں۔ یہ بات تو طے شدہ ہے کہ آج کی دنیا میں اخلاقیات کی مسلمہ اقدار وہی ہیں جو مذہب نے متعارف کروائی تھیں، اچھائی اور برائی کے حوالے سے مذہبی اقدار میں تبدیلی کی بہت بات کی جاتی ہے اور انسانی معاشروں میں کافی تبدیلی آچکی ہے لیکن اخلاقیات کا سوطہ مذہب ہی ہے جس کی بنیادوں سے انسانیت آج بھی ہٹ نہیں سکی۔

گاندھی مذہب اور سیاست میں تفریق کے قائل نہیں بلکہ کہتے ہیں کہ حق کی جستجو ہی مجھے سیاست میں کھینچ لائی۔ میری ناچیز رائے میں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مذہب کو سیاست سے کوئی تعلق نہیں وہ مذہب کے مفہوم کو ناآشنا ہیں۔ لیکن یہاں پر گاندھی کے ذہن میں مذہب کا خاص مفہوم انسانیت کی خدمت ہے اور سیاست بھی اسی کو کہتے ہیں۔ میرے خیال میں سیکولر حکومت ہونی چاہیے یا مذہبی اور ہندو سٹیٹ؟ گاندھی اس مقام پر اس سوال کو ایڈریس نہیں کررہے۔

ہمارے صوفیاء کی مانندہندوؤں میں ضبط نفس، خواہش کو دبانا اور روحانیت کو حاصل کرنا، ذات حق سے جا ملنا ایسی چیزیں ہی اصل مذہب ہیں۔ گاندھی جی کی تمام مذہبی زندگی انہی چیزوں کے گرد گھومتی ہے۔ وہ سادہ خوراک کھاتے ہیں اور خواہشوں کو دباتے ہیں، آسائش نہیں اختیار کرتے ہیں، بیوی سے دور رہتے ہیں ا ن کا مقصود ضبط نفس اور روح کا جسم پر غلبہ اور روح کی صفائی ہے تا کہ وہ نجات پاسکے۔

خدا براہ راست اس کائنات میں دخل دیتاہے یا اس نے قوانین بنادیے اور انہی کے مطابق یہ کائنات چل رہی ہے۔ مسلم علم کلام میں یہ بہت اہم بحث رہی ہے۔ مسلمانوں میں بھی اس حوالے سے مختلف مکاتب رہے ہیں جو کائنات کو چلانے کے حوالے سے مختلف نظریات کے قائل ہیں۔ بعض نے تویہاں تک تشدد اور تعمق اختیار کیا کہ چھوٹی سے چھوٹی جزئیات میں بھی خدا کو لے آئے جبکہ بعض کے ہاں خدا اصول بناتاہے اور جزئیات انہی کے مطابق تشکیل پاتی ہیں۔

گاندھی جی اپنے ملک کے مندروں کے مشاہدے پر کہتے ہیں کہ اگر کسی کو خدا کے بے حساب عفو اور رحم کی شان دیکھنا ہو تو ان مقدس مقامات کو دیکھے۔ یہ جوگیوں کا داتا لوگوں کو اپنے نام سے کیسی کیسی ریاکاری اور بے دینی کرتے دیکھتا ہے اور درگزر کرتاہے۔ اس نے مدت ہوئی ہمیں بتا دیا ہے کہ جیسا کرنا ویسا بھرنا۔ ”کرم“ کے اٹل قانون سے کسی کو مضر نہیں۔ پھر خدا کو دخل دینے کی کیا ضرورت ہے۔ اس نے تو قانون بنا کر گویا دنیا کو اس کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔

کائنات میں جاری و ساری قوانین پر کسی کی حکومت ہے کہ نہیں؟ موجودہ دور کا انسان سمجھتا ہے کہ ہمارے پاس اس چیز کے شواہد نہیں کہ وہ قوانین کسی خاص ذات کے تخلیق کردہ ہیں اس لئے وہ اس کے انکاریا اثبات میں سے کسی پوزیشن پر نہیں ہے۔ مذاہب کے پیر و کار موجودہ دور کے انسان کی اس پوزیشن سے فائدہ اٹھا کر اس کو مذہب کے سایہ میں لا سکتے ہیں جس کا ذہن بالکل کورا ہے۔

گاندھی جی سانپوں اور زہریلی چیزوں کو بھی مارنے کے حق میں نہیں تھے۔ کئی مواقع پر بے آباد جگہوں کی آباد کاری میں وہ ایسی چیزوں کو نہیں مارتے تھے اس کو توہم کہیں یا کچھ بھی لیکن ان کے مطابق ان چیزوں نے ہمیں کبھی نقصان نہیں پہنچایا۔ میری چشم عقیدت کوا س میں رحمن رحیم کی کارسازی نظرآ تی ہے۔ کوئی اس کو ضعیف الاعتقادی سمجھتا ہے تو سمجھتا رہے، کوئی اگر کہتاہے کہ خدا کو دخل دینے کی کیا ضرورت ہے تو کہتارہے لیکن میرا تجربہ تو یہی کہتاہے۔ گاندھی جی جس دور میں رہ رہے ہیں اس میں ایسی سو چ اور فکر عام ہونے جارہی ہے جو ان چیزوں کو توہم اور فضول سمجھتی ہے وہ ان خیالات سے واقف ہیں اور اسی کے مطابق گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرے تجربات تو میرے عقائد و نظریات کی تائید کرتے ہیں۔

گاندھی کو کئی مرتبہ اپنے ذاتی، اپنی بیوی یا بچے کے علاج میں ایسی صورت پیش آجاتی ہے کہ دودھ، یخنی یا گوشت کے استعمال کی ڈاکٹر کی طرف سے سخت تاکید کی جاتی ہے لیکن گاندھی جی اس سے اتفاق نہیں کرتے ہیں۔ موت کو ترجیح دیتے ہیں لیکن ان چیزوں نہیں اپناتے ہیں۔

پانی کا علاج، مٹی کا علاج اور گھریلو ٹوٹکوں پر پختہ یقین رکھتے ہیں اور ان کے ذریعے خود ہی علاج کرتے ہیں۔ باوجودیکہ مذہبی رہنما گوشت کے استعمال کی بوقت ضرورت یا بیماری اجازت دیتے ہیں لیکن گاندھی ان کی نہیں مانتے ہیں۔ گاندھی ڈاکٹری علاج پر یقین نہیں رکھتے ہیں۔ میرا عقید ہ ہے کہ انسان کو دواؤں کے استعما ل کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہزار میں سے نو سو ننانوے محض غذا میں احتیاط کرنے، مٹی پانی کے علاج اوراسی قسم کے گھریلو چٹکلوں سے اچھے ہوسکتے ہیں۔

گاندھی جی کی یہ سوچ اس لحاظ سے یقینا اہم ہے کہ روایتی علاجوں سے جس قدر فائدہ ہوسکتا اسے ہمیں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اسی طرح ہر معاملے میں ڈاکٹروں پر انحصار کرنے کی بجائے گھر میں معمولی علاج اور دواد ارو ہوناچاہیے۔ لیکن جدید علاج کو اس قدر نظر انداز کردینا اور خالصتا توہم کے انداز میں ان کے بارے سوچناعجیب سا بھی لگتاہے۔ شاید کچھ چیزوں کے بارے تہذیب بھی آڑے آجاتی ہے کہ گاندھی جی اپنے تہذیبی ورثے کو شدت سے محفوظ رکھنا چاہتے ہوں۔

اکثر اوقات تو انگریزوں کو دل سے خوش آمدید کہتے ہیں لیکن بعض جگہ وطن اور دھرم کی محبت ان کے آڑے آجاتی ہے۔ میرے خیال میں اس میں بھی اصل دخل میلان طبع کو ہے۔ جدید طرز علاج نے اب تو اپنی افادیت کو ہر ایک کے ہاں تسلیم کروالیا ہے لیکن ہر نئی چیز کو شک اور توہم کے انداز میں دیکھنے کی عادت یقینا قابل غور ہے۔

گیانی مذاہب دنیا اور اس کی خواہشات کے ترک پر بہت زور صرف کرتے ہیں ان کی نظر میں اس دنیا میں حقیقی خوشی نصیب نہیں ہوسکتی۔ یہ سارے کھیل جو اس دنیا کے پردے پر نظر آتے ہیں چلتی پھرتی تصویریں ہیں۔ کسی کا بھروسا نہیں، کسی کو ثبات نہیں، ہاں اس پردے کے اندر ایک بلند اور برتر ذات ہے اور وہ سراپا حقیقت ہے۔ خوش حال اس کے جو حقیقت کی جھلک دیکھ لے، جو حق کا دامن تھام لے اور حق کی تلاش ہی زندگی کی معراج ہے۔

ان مذاہب کے ترک دنیا کے فلسفوں کے مطابق جب یہ دنیا دھوکہ اور سراب ہے تو اس میں ترقی کیا معنی رکھتی ہے؟ لیکن ان مذاہب اور ان کے ماننے والوں نے ہمیشہ دور کے ساتھ خود کو آہنگ کیا ہے ا ورایسی چیزوں کو تصوراتی حد تک یا زندگی کے بعض حصوں کی حد تک ہی قبول کیا ہے۔

گاندھی آزادی کے بہت بڑے سپاہی رہے، ان کی آپ بیتی سے انگریزوں کے حوالے سے ان کے خیالات میں تنوع نظر آتا ہے۔

برطانوی آئین کا جتنا وفادار میں تھا اتنا میں نے کسی کو نہ دیکھا۔ اب میں سمجھتا ہوں کہ اس وفاداری کی تہہ میں حق کی محبت تھی۔ یہ معنی نہیں کہ مجھے برطانوی حکومت کی خرابیوں کا علم نہ تھا مگر اس کے باوجود میں اسے مجموعی حیثیت سے قابل قبول سمجھتا تھا۔ یعنی برطانوی سلطنت اور اس کے طرز حکومت میں ایسی خوبیاں تھیں جو دنیا کے لئے بہتر ہے۔

رنگ اور نسل کا جو تعصب مجھے جنوبی افریقہ میں نظرآیا اسے میں برطانوی روایات کے منافی سمجھتا تھا اور مجھے یقین تھا کہ یہ محض مقامی اور عارضی چیز ہے۔ اس لیے میں تاج برطانیہ کی وفاداری میں انگریزوں سے بازی لے جانے کی کوشش کرتا تھا۔ میں نے ساری عمر اس وفاداری سے کوئی ذاتی فائدہ نہیں اٹھایا۔ یہ میرے لیے ایک فرض تھا اور میں بغیر کسی معاوضے کے اسے انجام دیتا تھا۔ نو آبادیاتی علاقوں میں برٹش کے انتہائی برے سلوک اور طرز عمل کے باوجود یہ چونکہ برطانیہ میں رہ کر آئے تھے اس لئے ان چیزوں کو اس ملک کی روایات کے خلاف سمجھتے تھے، لیکن یہ شاید بھول چکے تھے کہ ان کے اپنے ملک اور دنیا کے لئے قانون ایک نہیں، الگ الگ ہیں۔ اپنے ملک میں انصاف اور مساوات کا قانون اور دنیا میں ظلم و تشدد، تعصب اور امتیاز پر مبنی قانون۔

اس زمانے میں میرا یہ عقیدہ تھا کہ دولت برطانیہ دنیا کی بہبود کے لئے قائم ہے۔ میں برطانیہ کا اتنا سچا وفادار تھا کہ دل میں بھی اس دولت عظمیٰ کو ضرر پہنچنے کی خواہش نہیں رکھتا تھا۔ اس سے بھی لگتاہے کہ ایک زمانے تک تو ان کے یہ خیالات تھے بعد میں بدل گئے۔ ایک جگہ اور لکھتے ہیں کہ مجھے انگریز قوم سے محبت ہے اور میں ہر ہندوستانی کو انگریزوں کا وفادار بنانا چاہتاہوں۔

افریقہ اور ہندوستان میں مختلف مواقع پر پیش آنے والے مشکل حالات میں گاندھی جی انگریزوں کا ساتھ دیتے ہیں، ان کی فوج میں رضاکارانہ کام کرتے ہیں، اس کام کے لئے لوگوں کا تیار کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں سلطنت سے اگر حقوق طلب کرتے ہیں تو کچھ فرائض بھی سر انجام دینے چاہیے۔ گاندھی کی زندگی صحیح معنوں میں ایک عملی زندگی کہلاتی ہے کہ جس میں وہ سلطنت کے ساتھ ہر دم صرف مخاصمت نہیں مول لیتے بلکہ تعاون کرتے ہیں ساتھ دیتے ہیں، مشکل وقت میں ان کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ کوئی پریشانی آجاتی ہے، آفت، مصیبت کا وقت آجاتاہے تو وہ عوام کی خدمت کرتے ہیں اور گورنمنٹ کا ساتھ دیتے ہیں۔

لیکن ہندوستان کی آزادی بھی ان کے پیش نظر تھی، وہ ہندوستان کی آزادی کی یہ صورت زیادہ بہتر سمجھتے تھے کہ انگریز کے ساتھ مل کر کام کیا جائے۔ میرا ان دنو ں یہ خیال تھا کہ ہندوستان کو کامل آزادی صرف برطانیہ کی مدد سے اور اس کے ماتحت رہ کر حاصل ہوسکتی ہے۔

ہمیں اس نازک موقع پر برطانیہ کا ساتھ دینا چاہیے، جس کے زیر سایہ عنقریب نو آبادی کا درجہ حاصل کرنے کی ہمیں آرزو ہے۔ مگر سچی بات یہ ہے کہ ہم سلطنت کا ساتھ اسی توقع کی بناء پر دے رہے ہیں کہ اس کے ذریعے ہم اپنا مقصد زیادہ جلد حاصل کرلیں گے۔ غرض انگریزوں کا ساتھ دینے سے مقصود ہندوستانی مفادات بھی تھے۔ لیکن وہ کس نوع کی آزادی چاہتے تھے یہ ایک اہم سوال ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم ہندوستان کو نوآبادی کا درجہ دلانا چاہتے ہیں؟ جس کا مطلب ہے ہندوستان پر انگریزوں کی عملداری باقی رہے گی۔

ان دنوں میرا عقید ہ تھا کہ ہم لوگوں کو اپنے لباس اور آداب معاشرت میں جہاں تک ہوسکے یورپیوں کی تقلید کرنا چاہیے۔ تاکہ ہم مہذب معلوم ہوں۔ میں سمجھتا تھا کہ صرف اسی طریقے سے ہم تھوڑا بہت اثر پیدا کرسکتے ہیں اور بغیر اثر کے قوم کی خدمت ناممکن ہے۔ اسے نظر میں رکھ کر میں نے اپنی بیوی اور بچوں کے لباس کی ایک وضع معین کی۔ اس زمانے میں پارسی ہندوستانیوں میں سب سے زیادہ مہذب سمجھے جاتے تھے۔ اس لیے جب بالکل یورپی وضع اختیار کرنا مناسب معلوم ہوا تو ہم نے پارسیوں کی وضع اختیار کی۔

جب میرا جوش ان تہذیب کی نشانیوں کے بارے میں ٹھنڈا ہوگیا تو بیوی بچوں نے چھری کانٹے کو خیر آباد کہی۔ غالبا نئی وضع کا عادی ہوجانے کے بعد انہیں چھوڑنے میں بھی اتنی ہی دقت ہوئی ہوگی۔ مگر اب میں یہ دیکھتا ہوں کہ ”تہذیب“ کا زرق برق لبادہ اتارنے سے ہماری طبعیت بہت ہلکی ہوجاتی ہے۔

مغربی زیادہ تر تشدد پر مبنی تہذیب ہے مگر مشرقی تہذیب میں یہ بات نہیں ہے۔ مطلب دنیا کو اپنے رنگ میں رنگنے کے لئے جس قدر تعصب اور تشدد سے مغربی تہذیب نے کام لیا مشرقی تہذیب میں یہ بات نظر نہیں آتی ہے۔ ان باتوں سے اندازہ ہوتاہے کہ غالب قوم کی مطابقت کرناکس قدر ضروری تقاضا بن جاتاہے اور مہذب ہونے میں بھی اس چیز کو کتنا بنیادی کردا ر حاصل ہے۔

گاندھی کو انگریزوں کی نو آبادیاتیوں میں جگہ جگہ تعصب نظر آتا ہے، امتیازی رویہ اور غیر مساویانہ قانون نظر آتاہے۔ یورپی حجام ان کے بال نہیں کاٹتا تو یہ اپنے بالوں کو خود ہی کاٹ لیتے ہیں جس سے وہ خراب ہوجاتے ہیں اور ان کا مذاق بنتاہے۔ اسی طرح ان کے کپڑوں کو دھوبی دھوتا اور استری نہیں کرتا، یہ اس کام کو بھی خود کرلیتے ہیں اور گھوکھلے کی ٹائی کوٹ کالر وغیرہ کو خود ہی جماتے ہیں۔ گاندھی کہتے ہیں کہ ہم ہندوستان میں جو سلوک اچھوتوں کے ساتھ کرتے ہیں اس کا بدلہ بیسیوں مرتبہ مجھے جنوبی افریقہ میں ملا۔ میرا عقیدہ تھا کہ کہ یہ ہمارے گناہوں کی سزا ہے اس لیے مجھے اس پر غصہ نہیں آتا تھا۔

انگریزوں کے دربار میں بڑے بڑے راجوں کو عورتوں کی طرح بن ٹھن کر آنا پڑ تا تھا، بہت سے وہ زیورات جو عورتیں پہنتی ہیں وہ پہنا کرتے تھے، ریشمی پاجامے اور ریشمی اچکنیں پہنتے تھے۔ گلے میں موتیوں کے مالے اور ہاتھوں میں کنگن ہوتے تھے۔ دولت، قوت اور عزت کی خاطر انسان کو کن کن ذلتوں اور گناہوں کا بوجھ اٹھانا پڑتاہے۔

گاندھی جی کی ساری زندگی تحریکات اور تنظیموں میں گزری، قومی اداروں میں مستقل سرمایہ ہونا چاہیے یاعارضی؟ قومی اداروں کے حوالے سے انہوں نے افریقہ کے زمانے میں کچھ جائیدادیں خریں جو نزاع کا شکار ہوگئیں اس پر لکھتے ہیں۔ لیکن میرا خیال قومی اداروں کے لیے مستقل سرمایہ رکھنے کے بارے میں اس نزاع سے بہت پہلے بدل چکا تھا اور اب متعدد قومی اداروں کا وسیع تجربہ حاصل کرنے کے بعد میرا عقیدہ ہوگیا ہے کہ ان اداروں کو مستقل سرمائے کی مدد سے چلانا اچھا نہیں ہے۔

قومی ادارہ وہ جو قوم کی مرضی اور اس کے روپے سے چلایا جائے۔ جب یہ ادارہ قوم کی مدد سے محروم ہوجائے تو اسے باقی رہنے کا کوئی حق نہیں۔ جو ادارے مستقل سرمائے سے چلتے ہیں ان کے کارکن اکثر رائے عامہ کو نظر انداز کردیتے ہیں بلکہ کبھی کبھی اس کے خلاف عمل کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے ملک میں روزمرہ اس کا تجربہ ہوتاہے۔ بعض نام نہاد مذہبی وقف ایسے ہیں جنہوں نے اپنے حسابا ت شائع کرنا موقوف کردیا ہے۔ ٹرسٹی مالک بن بیٹھے ہیں اور وہ اپنے آپ کو کسی کا ماتحت نہیں سمجھتے۔

مگر میں ایک غلط فہمی کو رفع کرنا چاہتا ہوں۔ میرا خطاب ان اداروں سے نہیں جن کے لیے مستقل عمارت ہونا لازمی ہے۔ میرے کہنے کا منشا صرف یہ ہے کہ معمولی خرچ ان چندوں سے چلنا چاہیے جو لوگ اپنی خوشی سے ہر سال دیا کریں۔ بانی دار العلوم دیوبند مولانا قاسم نانوتو ی نے اپنے آٹھ بنیادی اصولوں میں بھی یہ بات لکھی ہے کہ مدارس کو مستقل چندے، کسی ریاست یا فرد کے سہارے چلانے کی بجائے قومی چندے سے چلایا جائے۔

میرا راسخ عقیدہ یہ ہے کہ قومی کام کرنے والوں کو قیمتی تحفے قبول نہیں کرنا چاہیے۔ افریقہ میں ان کے خاندان کو جس قدر قیمتی تحفے ملتے ہیں سبھی وقف میں شامل کردیتے ہیں، ان کی بیوی بہت ناراض ہوتی ہے لیکن وہ اس کی پرواہ نہیں کرتے ہیں۔

قومی خدمت کے لئے دو چیزوں کو ضروری اور بنیادی سمجھتے ہیں، خلوص نیت اور تجربہ۔ گاندھی خود قومی خدمت میں نہ صرف خلوص نیت سے کام لیتے ہیں بلکہ اس کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ افریقہ سے جب ہندوستان واپس آتے ہیں تو کانگریس میں کارکنوں کے اندر ان دونوں چیزوں مفقود پاتے ہیں، خود ان کی رہنمائی کرتے ہیں اور آگے بڑھ کر خود کام کرتے ہیں۔

لوگوں کی نفسیات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ تحریکی معاملات میں ان چیزوں کے حوالے سے خاص کر محتاط رہنا چاہیے۔ میں جانتا ہوں کہ عوام شورش اور ہنگامے کو پسند کرتے ہیں اور خاموش تعمیری کاموں سے گھبراتے ہیں۔ اس کا تجربہ مجھے آج تک ہورہا ہے۔

گاندھی جی بچوں کوخود تعلیم دینے کے حق میں تھے۔ اقامتی اداروں یا ایسی جگہیں جہاں پر ان کو والدین سے دور کردیاجائے اس کے حق میں نہ تھے۔ ان کی نظر میں تعلیم سے زیادہ تربیت اہم تھی۔ تربیت میں وہ جسمانی کاموں پر زور دیا کرتے تھے، خدمت خلق کا جذبہ پیدا کرتے تھے، خود انحصاری کا سبق دیتے تھے اور ضبط نفس کی تربیت کرتے تھے۔ آزادی اور خود داری ان کی نظر میں بہت اہم تھی۔ کہتے ہیں کہ غلامی کے گھروں یعنی سکولوں اور کالجوں کے چھوڑنے کا مشورہ میں نے دیاتھا، آزادی کی طرح ان پڑھ رہ کر پتھر پھوڑنا اس سے اچھا ہے کہ آدمی زنجیروں میں جکڑا ہوا ادبی تعلیم پاتا ہو۔

میرا ہمیشہ یہ عقیدہ رہا ہے کہ جو ہندوستانی ماں باپ بچے کو بچپن سے انگریزی میں سوچنا اور انگریزی بولنا سکھاتے ہیں، وہ اپنے بچوں اور اپنے ملک دونوں کے ساتھ بے وفائی کرتے ہیں۔ وہ بچوں کو قوم کی روحانی اور سماجی آرٹ سے محروم کردیتے ہیں۔ اپنے بچوں کو ان اداروں میں بھیجنے کی بجائے وہ خود تعلیم دیتے تھے۔

گاندھی نے ہندوستان کی آزادی کی کوشش تو کی ہی، اس کی خود مختاری کے لئے بھی بہت کام کیا۔ وہ خود کھدر بن کر پہنا کرتے تھے اور اس کو بننے اور رواج دینے کے لئے ا نہوں نے بہت محنت کی۔ ملوں کے مقابلے میں کھڈی کی صنعت کو از سر نو زندہ کرتے ہیں اس پر بہت زیادہ محنت کرتے ہیں۔ کھڈی کی صنعت کو زندہ کرنا اگر چہ وقت کا پہیہ گمانے والی بات تھی لیکن انہوں نے اپنی لگن سے یہ کر دکھایا۔

گاندھی ورزش کیا کرتے تھے اور اس کی تاکید کرتے تھے کہ انسا ن کو کتنا ہی کام کرنا ہو اسے ورزش کے لئے بھی اسی طرح وقت نکالنا چاہیے جیسے کھانے کے لئے نکالتاہے، اس سے مجموعی کام کم نہیں بلکہ زیادہ ہوتاہے۔

گاندھی صفائی کا بہت زیادہ خیال رکھنے والے تھے۔ گھروں کی صفائی، کوڑا کرکٹ اٹھالینا، پاخانے تک خود اٹھالیتے تھے۔ گاندھی جی اپنی ذات کے حوالے سے بدلہ نہ لیتے تھے کوئی کتنی ہی زیادتی کرجاتا اس کا بدلہ نہ لیا کرتے تھے۔ گاندھی بالکل سادہ شخص تھے تیسرے درجے کا سفر کرتے، سادہ خوراکیں کھاتے اور عام کپڑے پہنتے تھے، راست گو، باحیاء، امانت دار اور قومی خدمت کو عبادت کا درجہ دینے والے فرد تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments