چیتے پالنے اور انھیں شکار سکھانے والے انڈیا کے ’چیتا وان‘


انڈیا میں چیتے صدیوں سے موجود تھے لیکن 20ویں صدی میں وہ مکمل طور پر ختم ہو گئے لیکن اب انڈین سپریم کورٹ کی اجازت کے بعد انڈین شہریوں کو ایک بار پھر اس تیز رفتار جانور کو دیکھنے کا موقع ملے گا۔

عہد وسطیٰ میں مغلوں کے زمانے سے ہی انڈین بادشاہ اور راجے مہاراجے چیتے پالنے کا شوق رکھتے تھے اور شکار کے دوران ان کا استعمال کیا کرتے تھے۔

کولھا پور، بڑودہ، بھاؤنگر جیسی شاہی ریاستیں چیتے پالنے میں سب سے آگے تھیں۔ تاریخی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ شہنشاہ اکبر کے پاس بہت سے چیتے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

’برفانی چیتے انسانی انتقام کا نشانہ‘

مادہ چیتے تنہا جبکہ نر چیتے غول میں رہنا پسند کرتے ہیں

چیتے کی بائیسکل کی سواری

’چیتے وان برادری‘

اس زمانے کی ایسی کئی پینٹگز آج بھی موجود ہیں جس میں شکار کی عکاسی کی گئی ہے۔ ان پینٹنگز میں واضح طور پر خوبصورت اور خوفناک جانور چیتے کو دیکھا جا سکتا ہے۔

کولھا پور ریاست میں چھترپتی ساہو مہاراج کے بعد راجا رام مہاراج نے شکار کے لیے چیتے کے استعمال کو فروغ دیا۔

بھاؤنگر کے راجہ بھاؤسنگھ جی مہاراج، ساھو مہاراج کے ساتھ تعلیم حاصل کرتے تھے۔

ایک بار ساھو مہاراج نے دیکھا کہ بھاؤنگر میں چیتے کو شکار کے لیے کس طرح استعمال کیا جاتا ہے اور پھر انھوں نے بھی اسی طرح کولھا پور سے چیتے لانے اور شکار کے لیے ان کا استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔

’آٹھونیتیل شکار‘ (ایک یادگار شکار) نامی کتاب کے مصنف اور تاریخ داں یشودھن جوشی بتاتے ہیں کہ کولھا پور سے واپسی کے بعد انھوں نے اپنے شکار خانے سے کئی لوگوں کو افریقہ بھیجا۔

اس زمانے میں کولھا پور میں ایک ایسی برادری رہتی تھی جو چیتے پالنے اور شکار کرنے کی تعلیم دینے میں مہارت رکھتی ہے۔ اس برادری کے لوگوں کو ’چیتے وان‘ کہا جاتا تھا۔

’کولھا پور میں 35 چیتے تھے‘

یشودھن جوشی کہتے ہیں کہ آزادی سے قبل یہاں کچھ مشہور چیتے وان ہوا کرتے تھے جیسے اسماعیل چیتیوان اور ڈھونڈی لمباجی پاٹل۔

سنہ 1936 میں کولھا پور آنے والے سیاح ٹیکسیڈرمسٹ بوتھا وین انجن نے لکھا ہے کہ اس وقت کولھا پور میں 35 چیتے تھے۔

اسماعیل چیتے وان کے پوتے سلیم جمعدار نے بی بی سی مراٹھی کو اپنے دادا کے بارے میں بتایا۔

انھوں نے کہا: ’ہمارے دادا اور پردادا یہ بتاتے تھے کہ چیتے کیسے پالے جاتے ہیں۔ ہم چیتے پکڑتے تھے اور انھیں پالتے تھے۔ اسی وجہ سے ہمیں چیتے پاردھی کہا جاتا تھا۔‘

’راجا رام مہاراج شکار کرنا پسند کرتے تھے۔ یہاں ’چیتا خانہ‘ نامی ایک جگہ ہوا کرتی تھی جہاں چیتوں کو رکھا اور ان کی افزائش کی جاتی تھی۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں اب کولھا پور بس سٹینڈ کے قریب وکرم ہائی سکول تعمیر ہے۔‘

چیتے کیسے پالے جاتے تھے؟

جب کسی چیتے کو پکڑا جاتا تھا وہ غصے میں بپھرا ہوا ہوتا تھا۔ وہ پنجرے سے فرار ہونے کی کوشش کرتا تھا اور چیتے پالنے والوں کا کام اسے پرسکون کرنا ہوتا تھا۔

اسی قسم کے کچھ شکاروں میں شرکت کرنے والی لیلاوتی جادھو نے اس وقت کی کچھ یادیں شیئر کی ہیں۔

انھوں نے چیتے کو پرسکون کرنے کا گر بتاتے ہوئے کہا کہ چیتے کی کمر میں کوئی پٹہ یا دھاگہ باندھ کر اسے پرسکون کیا جا سکتا ہے۔ لیلاوتی جادھو وہ آخری شخص ہیں جنھوں نے شکار میں شرکت کی اور انھیں قریب سے دیکھا۔

کتاب ’آٹھونیتیل شکار‘ میں لیلاوتی جادھو سے بات چیت پر مبنی یادداشتیں شامل ہیں۔

لیلاوتی جدھاو کے حوالے سے اس کتاب میں درج ہے کہ ’اس وقت چیتے کو ناریل کی رسی سے بنی ہوئی چارپائی پر سلایا جاتا تھا اور دو افراد مسلسل اس کی پیٹھ سہلایا کرتے تھے۔ وہ اسے لکڑی کے چمچ سے کھانا کھلایا کرتے تھے۔

اس کام کو مقامی زبان میں ’تنبا دینے‘ کہا جاتا ہے۔ جب چیتا پرسکون ہو جاتا تو اسے رسی کے ساتھ لکڑی کے کھمبے سے باندھ دیا جاتا تھا۔ اسے مقامی زبان میں ’ٹھوکلا دیے‘ کہا جاتا تھا۔‘

’چیتے کو کھانا دینے سے پہلے کچھ لوگ سیاہ کمبل اوڑھ کر اس کے سامنے سے بھاگتے تھے۔ ایسا اس لیے کیا جاتا تھا کہ چیتے کو سیاہ رنگ اور گوشت کے مابین تعلق کی سمجھ پیدا ہو۔ اس چال کا استعمال ہرن کو پکڑنے کےلیے کیا جاتا تھا۔

ایک بار جب چیتا سیاہ کمبل میں چھپے شخص کے پیچھے دوڑنا شروع کر دیتا تھا تو یہ سمجھا جاتا تھا کہ اب وہ شکار کے لیے تیار ہے۔‘

شکار کیسےہوتا تھا

کولھا پور ریاست میں چیتے کو گھوڑے گاڑیوں پر کھڑا کیا جاتا تھا۔ جب ہرنوں کا ریوڑ نظر آتا تو یہ گھوڑے گاڑی سے چھلانگ لگا کر اترتے اور جست لگا کر ہرن کا شکار کرتے۔

شکار ہونے تک گھوڑا گاڑی بھی ان تک پہنچ جاتی اور پھر چیتے وان انھیں شکار سے دور کر کے ان کی کمر میں رسی باندھ دیتے تھے۔

لیلاوتی جادھو کے مطابق چیتوں کو نام بھی دیے جاتے تھے۔ ان میں سے چند ناموں کا ذکر کتاب میں ملتا ہے، جیسے سٹار، بھوانیشنکر، ویرمتی، لکشمی، گنپیا وغیرہ۔

شکار زیادہ تر ریاست کولھاپور کے آس پاس پھیلی چراگاہوں میں کیا گیا تھا۔ اس طرح کے شکار کا انتظام خاص مواقع پر کیا جاتا۔ جیسے برطانوی یا شاہی مہمانوں کی آمد پر عام طور پر اس قسم کا شکار ہوتا ہے۔

جب چیتے شکار کے لیے نکلتے تو یہ مہمان انھیں اپنی دوربینوں سے دیکھا کرتے تھے۔

لیلاوتی جادھو کہتی ہیں کہ کولھاپور میں آخری چیتے کی موت سنہ 1960 میں ہوئی تھی۔

چیتے کی انڈیا آمد

انڈیا میں ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے چیتے لانے کی کوشش جاری ہے۔ سنہ 2010 میں وائلڈ لائف انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا اور وائلڈ لائف ٹرسٹ آف انڈیا نے تین ایسی جگہوں کے بارے میں بتایا تھا جہاں چیتے رکھے جا سکتے ہیں۔

ان میں وسطی ریاست مدھیہ پردیش کے کونو پال پور اور نورادیہی وائلڈ لائف پناہ گاہ کے ساتھ راجستھان کی شاہ گڑھ پناہ گاہ شامل ہیں۔ ان اداروں نے راجستھان، گجرات، مدھیہ پردیش، اترپردیش اور چھتیس گڑھ میں سروے کے بعد تین مقامات کا انتخاب کیا تھا۔

انھوں نے شکار کی دستیابی، جنگلی حیات کے بارے میں مقامی برادریوں کے جذبات اور ریموٹ سینسنگ کی بنیاد پر یہ رپورٹ تیار کی تھی۔

اگرچہ سپریم کورٹ نے چیتے انڈیا لانے کی اجازت دے دی ہے لیکن اس بارے میں کوئی مصدقہ اطلاع نہیں ہے کہ آیا انڈیا میں چیتے کے زندہ رہنے کے لیے ضروری ماحول اور رہائش گاہ ہے بھی یا نہیں۔

ماحولیات پر تحقیق کرے والے لکشمی کانت دیشپانڈے نے چیتے کو انڈیا لانے کے فیصلے کے بارے میں بات کی۔

انھوں نے کہا: ’چیتے پہلے انڈیا میں رہتے تھے۔ چراگاہوں کو بچانے کے لیے انھیں واپس انڈیا لایا جارہا ہے لیکن اس کے لیے پہلے بڑے گھاس کے علاقوں کی ضرورت ہے۔ شکار تلاش کرنا بھی ضروری ہے۔ چیتے کو زیادہ مقابلہ نہیں کرنا پڑتا ہے۔ اسی وجہ سے تیندوؤں کے لیے کسی بھی جگہ کا انتخاب کرنے سے پہلے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔‘

لکشمی کانت دیشپانڈے نے کہا: ’اگر ہم صرف ایک یا دو مقامات پر چیتے لائے تو یہ افریقہ کے قدرتی چڑیا گھر کی طرح ہو گا۔ یہ جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے ایک غلط مثال ہو سکتی ہے۔ صرف نمائش کے مقصد کے تحت چیتے کو انڈیا لانا غلط ہے۔ ہمیں ان کو پالنے اور ان کی افزائش نسل کی کوشش کرنے کی بھی ضرورت ہے۔‘

شکار

چیتے اور تیندوے میں فرق

چیتے اور تیندوے کے جسم پر سیاہ دھبوں کی وجہ سے لوگ ان دونوں کے بارے میں اکثر الجھن میں پڑ جاتے ہیں تاہم ان دونوں جانوروں کے مابین فرق کو بہ آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔

سب سے نمایاں فرق یہ ہے کہ چیتے کے جسم پر نظر آنے والے دھبے گول گول نقطے کی طرح ہوتے ہیں اورتیندوے کے جسم پر دھبے پھولوں کی پنکھڑیوں کی طرح ہوتے ہیں۔ چیتے کے چہرے پر بہتے آنسو جیسے کالے رنگ کی ایک لمبی سی لکیر ہوتی ہے جبکہ تیندوے کے چہرے پر اس قسم کا کوئی نشان نہیں ہوتا۔

چیتے گھاس کے کھلے اور کشادہ میدانوں میں رہنا پسند کرتے ہیں لیکن تیندوے گھنی جھاڑی اور بڑے بڑے دختوں والے علاقوں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔

ایک نر چیتے کا وزن تقریبا 54 کلو جبکہ مادہ چیتے کا وزن عام طور پر 43 کلو ہوا کرتا ہے۔ دوسری جانب نر تیندوے کا وزن 60 سے 70 کلو ہوتا ہے جبکہ مادہ تیندوے کا وزن 30 سے 40 کلو کے درمیان ہوتا ہے۔

۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32500 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp