#PSL5: پی سی بی کا ‘بچہ’ کماؤ پُوت بن گیا
کرکٹ پیسہ کمانے والا کھیل ہے خواہ وہ ٹکٹوں کی فروخت کی مد میں ہو یا اشتہارات کے ریونیو سے۔ اٹھارہویں صدی کے اوائل سے ہی برطانوی امرا کرکٹ ٹورنامنٹس کے دلدادہ ہو چکے تھے۔
تقریباتی کرکٹ میچز ایک تو امرا کو خود نمائی کے لیے بہترین پلیٹ فارم مہیا کیا کرتے تھے، ساتھ ہی مختلف چنیدہ کھلاڑیوں پہ سٹے بازی کے ذریعے یکمشت ڈھیر سارے پیسے کمانے کا موقع بھی فراہم کرتے۔
تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو کرکٹ میں پیسے کی سب سے زیادہ ریل پیل جوئے اور میچ فکسنگ کی صنعت کے ذریعے ہی آئی۔ لیکن فی زمانہ کرکٹ میں جائز پیسے کی بھی بہتات ہے۔ انڈین پلئیرز ماہانہ کروڑوں میں تنخواہیں وصول کرتے ہیں، آئی پی ایل کے ایک سیزن سے ہی کروڑوں کما لیتے ہیں۔
آسٹریلوی اور برطانوی کھلاڑی بھی اگر اس دوڑ میں انڈین کے قریب نہیں ہیں تو بہت پیچھے بھی نہیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
پاکستان سپر لیگ 5 کا شیڈول اور ٹکٹوں کا حصول
پاکستان سپر لیگ میں ’پُگن پُگائی‘ کا کیا کام؟
’ڈانس پر زیادہ توجہ ہے اور شاعری پر کم‘
سنہ 2017 میں سٹیون سمتھ نے صرف اپنے انٹرنیشنل میچز کی فیس اور بورڈ کنٹریکٹ سے ہی ڈیڑھ ملین ڈالر کمائے۔ آج کے فوریکس ریٹ کے مطابق یہ رقم لگ بھگ پونے گیارہ کروڑ پاکستانی روپے بنتی ہے۔ یاد رہے کہ اس آمدن میں سمتھ کے کمرشلز اور ٹی ٹونٹی لیگز کی کمائی شامل نہیں ہے۔
جس سال سٹیو سمتھ نے پونے پندرہ لاکھ ڈالر کمائے، روٹ نے پونے چودہ لاکھ ڈالر اور کوہلی نے دس لاکھ ڈالر کمائے، اسی سال پاکستانی کپتان سرفراز احمد نے صرف تین لاکھ ڈالر کمائے۔
پلئیرز کی آمدن کے اس تقابل کے تناظر میں متعلقہ بورڈز کی آمدن کو ماپا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ بگ تھری کے مقابلے میں پی سی بی کی مالی حیثیت محض ایک بونے کی سی رہ جاتی ہے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ پی سی بی اپنے انہی ‘محدود’ وسائل میں بھارت اور آسٹریلیا کے برابر کی کرکٹ ٹیم تیار کرنا چاہتا ہے۔
ٹی ٹونٹی لیگز کے آغاز کے بعد کرکٹ بورڈز اپنے اپنے ملکوں کے امیر ترین اداروں میں شامل ہوتے جا رہے ہیں۔
پی سی بی نے بھی پی ایس ایل کا آغاز اسی سوچ کے ساتھ کیا تھا کہ بورڈ کی وہ مالی حیثیت مستحکم ہو سکے جو ہوم کرکٹ کے خاتمے اور پاک بھارت کرکٹ کے تعطل سے زبوں حالی کا شکار تھی۔
جب تک پاکستان اپنی ہوم کرکٹ عرب امارات میں کھیلتا رہا، تب تک تو کسی کو پتا ہی نہ تھا کہ پاکستان کے گراؤنڈز اور سٹیڈیمز کس حال میں ہیں۔ جوں جوں بحالی شروع ہوئی، توں توں اندازہ ہوا کہ لاہور اور کراچی کے سوا سبھی وینیوز کا حال خاصا پتلا ہو چکا ہے۔
ملتان چونکہ جدید ترین سٹیڈیم ہے، سو اسے ہم اس موازنے سے پرے رکھتے ہیں لیکن راولپنڈی کے سٹینڈز کو ہی دیکھ لیجیے تو پی سی بی کی مالی حالت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ بد انتظامی بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے مگر اس بد انتظامی میں بھی کلید مالی وسائل کی کمیابی رہی ہے۔
اسی سوچ نے پی ایس ایل کی بنیاد ڈالی اور پہلے ہی سیزن میں یہ لیگ بہت سنجیدہ اور میچور نظر آئی۔ میچز کی تعداد کم تھی مگر مقابلے خوب ہوئے، براڈ کاسٹنگ کا معیار ورلڈ کلاس تھا اور لیگ آنکھوں اور دلوں میں ‘ کُھب’ گئی۔
مگر جس ارادے سے یہ قضیہ شروع ہوا تھا، اس ارادے کو منزل نہ ملی اور پہلا سیزن شدید خسارے کا شکار ہوا۔ دوسرا سیزن قدرے بہتر ہوا مگر کمائی کچھ نہ ہوئی۔ نجم سیٹھی کے دعوے اپنی جگہ مگر ان کی تردید میں شواہد کی تعداد زیادہ ہے۔
پی ایس ایل کے پاس واحد ذریعہ آمدن براڈ کاسٹ ڈیل تھا۔
فی زمانہ براڈ کاسٹ ڈیلز بھی کوئی ہلکی پھلکی نہیں ہوتیں مگر جب ٹکٹوں کی قیمت بھی براڈ کاسٹ ڈیل سے بھرنا پڑے، لاجسٹکس کا خرچہ بھی اسی سے اٹھانا پڑے اور سٹیڈیمز کا کرایہ بھی اسی سے نکالا جائے تو پیچھے کیا پلے رہ جاتا ہے۔
پی ایس ایل کا المیہ یہ تھا کہ یہ پاکستان کرکٹ کو سب کچھ دے کر بھی پیسے نہیں دے پا رہی تھی۔ اسی لیگ نے پاکستان کو نئے ٹی ٹونٹی سٹارز دیے جن کے بل پہ دو سال کی نمبر ون رینکنگ چلی آ رہی ہے۔ اسی سے ابھرے ٹیلنٹ نے چیمپئینز ٹرافی جتوائی۔ اسی کا احسان کہ غیر ملکی کھلاڑی پاکستان آنے کو تیار ہوئے اور گراؤنڈز آباد ہونا شروع ہوئے۔
اس بار مگر صورت حال بہت مختلف ہے۔
اب اگلے ایک ماہ میں کھیلے جانے والے چونتیس میچز میں سے ایک بھی ایسا ممکن نہیں کہ ہاؤس فُل نہ ہو۔ اس پہ طُرہ یہ کہ یہ سارے کے سارے ہاؤس فُل اب براہِ راست پی سی بی کی ہی جیب ‘فُل’ کریں گے، کسی اماراتی شیخ کے خزانے میں نہیں جائیں گے۔
یہ پی ایس ایل اب تک کا سب سے کانٹے دار سیزن ہو گا، ہوم کراؤڈز اور علاقائی مخاصمتیں بے شمار سنسنی خیز لمحات کو جنم دیں گی جو ہائی کوالٹی پریشر کرکٹ کی شکل میں نظر آئے گی۔ غالباً یہی وہ ماحول ہے جو نو آموز مقامی کھلاڑیوں کو دوبئی، شارجہ میں میسر نہیں آ رہا تھا۔ سو اب جو بھی کھلاڑی آئندہ برسوں میں پاکستان کی نمائندگی کے لیے اس پریشر کی بھٹی سے نکل کر آئیں گے، وہ بہت پختہ اور نڈر ثابت ہوں گے۔
پی سی بی کے لیے آج کا دن بہت خوشی کا دن ہے۔ یوں سمجھیے کہ جس بچے کو جنم دے کر دکھوں، تکلیفوں، آہوں اور سسکیوں سے پالا تھا، آج وہ بچہ نہ صرف جوان ہو چکا ہے بلکہ کماؤ پوت بن چکا ہے۔
- مختار انصاری کی موت: انڈیا میں انڈر ورلڈ کا بڑا نام جنھیں جیل میں ’زہر دیے جانے‘ کا ڈر تھا - 29/03/2024
- ماں بیٹی کے ملاپ کی کہانی: ’میں 17 سال بعد بیٹی کو دیکھ کر دوبارہ زندہ ہو گئی‘ - 29/03/2024
- شیاؤمی: چینی سمارٹ فون کمپنی نے الیکٹرک کار متعارف کروا کر کیسے ٹیسلا اور ایپل دونوں کو ٹکر دی - 29/03/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).