انور جلال پوری۔ شاعر اور مترجم


جنوری 2019 کے پہلے ہفتے میں اردو کے دو بڑے شاعر گزر گیے تھے۔ رسا چغتائی اور انور جلال پوری۔ گوکہ رسا چغتائی کے بارے میں کئی مضامین نظر سے گزرے، انور جلال پوری کو کم و بیش پاکستان میں نظر انداز کیا گیا۔ ان کا اصل نام انوار احمد تھا مگر انہوں نے اپنے قلمی نام انور جلال پوری سے شاعری اور تراجم کیے۔

انور جلال پوری دو جنوری 2019 کو لکھنو میں اکہتر سال کی عمر میں انتقال کر گئے اور ان کی موت سے برصغیر میں اردو زبان اور سیکولر روایات کا ایک عظیم علم بردار رخصت ہوگیا۔ وہ بین العقائد اور بین المذاہب ہم آہنگی کے ایک بڑے وکیل تھے اور مختلف ثقافتی پس منظر رکھنے والوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوششیں آخری وقت تک کرتے رہے۔

ان کی غزلوں کے دو مجموعے بہت مشہور ہوئے ایک ”کھارے پانیوں کا سلسلہ“ اور دوسرا ”خوشبو کی رشتے داری“ ان کے علاوہ انہوں نے کوئی درجن بھر کتابیں تحریر کیں۔ جو ان کے مضامین اور تراجم پر مشتمل ہیں اور اردو کے علاوہ دیوناگری رسم الخط میں بھی شائع ہوئی ہیں۔ ان کی تحریروں میں ہمیں بڑے وسیع موضوعات ملتے ہیں جو مذاہب سے لے کر ادبی و سماجی عنوانات کا احاطہ کرتی ہیں۔ خاص طور پر اسلام اور ہندو مت کے بارے میں ان کی تحریریں پڑھنے کے قابل ہیں۔ اردو میں ان کی شاعری خاصی متاثر کن ہے اور ان کے بعض مصرعے تو کہاوت بن چکے ہیں جنہیں اکثر لوگ جانے بغیر دہراتے ہیں کہ وہ لکھے کس نے ہیں۔ مثلاً

انور جلال پوری کا پورا شعر ہے۔

”ہر ایک شے کی بڑی دیکھ بھال کرتے ہیں

جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں ”

شاعری کے علاوہ انور جلال پوری کا بڑا کام وہ ترجمے ہیں جو انہوں نے ہندوؤں کی مذہبی کتاب ”بھگود گیتا“ اور رابندر ناتھ ٹیگور کی نظموں کی کتاب ”گیتانجلی“ کے اردو میں کیے ہیں۔ یہ سوال اٹھایاجاسکتا ہے کہ جب گیتا اور گیتا نجلی کے کئی اردو تراجم پہلے ہی موجود تھے تو پھر مزید ترجموں کو ایک بڑا کام کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟

لیکن اس موضوع پر مزید گفت گو کرنے سے قبل چند باتیں گیتا کے اردو تراجم کے بارے میں چینی ماہر لسانیات اور مترجم لن یوتانگ ( 1895۔ 1976 ) نے اپنی مشہور کتاب ”وزڈم آف انڈیا“ میں بھگود گیتا ”کا مکمل انگریزی ترجمہ دیا ہے جو انہوں نے اپنی کتاب میں رگِ وید اور اپنیشد کے تراجم کے بعد رکھا ہے۔

پاکستان میں جاوید اختر بھٹی نے ایک کتاب ”گیتا کے اردو تراجم“ تالیف کی جو 2015 میں قندیل ملتان نے شائع کی۔ اس کتاب میں انہوں نے گیتا کے کل پندرہ اردو تراجم کا ذکر کیا ہے جن میں دس تراجم ہندو لکھاریوں نے اور پانچ مسلم قلم کاروں نے کیے ہیں۔ ہندوؤں کے تحریر کردہ گیتا کے اردو تراجم میں انہوں نے مہاتما گاندھی کا 1930 میں تحریر کیا جانے والا گجراتی ترجمہ بھی شامل کرلیا جس کے اردو مترجم کا نام درج نہیں۔

اردو ترجمہ کرنے والوں میں انہوں نے جن مسلمانوں کا ذکر کیا ہے وہ ہیں حکیم اجمل خان، نواب جعفر لکھنوی، خواجہ دل محمد، ڈاکٹر شان الحق حقی، خلیفہ عبدالحکیم اور سرسری ذکر صلاح الدین صلو چودھری کا کیا گیاہے۔

دل چسپ بات یہ ہے اس کتاب میں دو اہم گیتا کے اردو تراجم کا ذکر نہیں ہے جو آہنگ سرمدی اور عرفان مختوم کے نام سے شائع ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ اس کتاب میں انور جلال پوری کے ترجمے کابھی ذکر نہیں ہے جو 2013 میں شائع ہواتھا۔

انور جلال پوری کے بقول ان کو گیتا کا یہ منظوم ترجمہ کرنے میں 2008 سے 2013 تک پورے پانچ سال لگ گئے تھے۔ اس ترجمے کا پورا عنوان ہے ”اردو شاعری میں گیتا“ اور اس کا ذیلی عنوان ہے ”نغمہ علم و عمل“۔ اس کتاب کی سافٹ کاپی یا ای بک ورژن ریختہ کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ چونکہ انور جلال پوری نے اردو اور انگریزی میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کررکھی تھی اس لیے انہیں گیتا کے پہلے کے موجود اور انگریزی تراجم سے استفادہ کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی اسی لیے ان کا ترجمہ پہلے سے موجود تراجم کے مقابلے میں کہیں زیادہ آسان اور عام فہم ہے۔

اپنے اس ترجمے کو انور جلال پوری نے دنیا کے امن پسند لوگوں سے منسوب کیا ہے۔ تمام قارئین کے لیے آسان بنانے کے مقصد سے انہوں نے گیتا کے سات سو اشلوک اردو کے سترہ سو اشعار میں ڈالے ہیں تاکہ کوئی تفصیل یا پیغام ترجمے میں گم نہ ہوجائے۔ انور جلال پوری کی پوری کوشش رہی کہ وہ گیتا کے بنیادی پیغام اور فلسفے کو قارئین تک پہنچائیں اور اس کوشش میں وہ پوری طرح کام یاب رہے ہیں۔

تقریباً تمام مذہبی کتابوں اور صحائف کی ایک خاص بات مشترک یہ ہوتی ہے کہ اگر ان کو اصلی زبان میں پڑھاجائے تو اس کی چاشنی تو برقرار رہتی ہے مگر اصل پیغام کہیں گم ہوجاتا ہے۔ انور جلال پوری نے اپنے ترجمے میں غنائیت اور چاشنی کے ساتھ اصل پیغام کو بھی برقرار رکھا ہے۔ ان سے پہلے کے تراجم زیادہ تر علامہ فیضی کے فارسی ترجمے سے اخذ کیے گئے تھے۔

سولہویں صدی میں شہنشاہ اکبر کے دور میں علامہ فیضی نے گیتا کا پہلا فارسی ترجمہ کیا تھا اور اس کے بعد اردو تراجم اسی فارسی ترجمے سے مدد لیتے رہے۔ مثلاً الم مظفر نگری کا ترجمہ فارسی کے اسی مثنوی نما ترجمے کا اردو ترجمہ ہے۔ علامہ فیضی نہ صرف عربی اور فارسی بلکہ سنسکرت کے بھی عالم مانے جاتے تھے۔

اگر آپ گیتا کے دیگر اردو تراجم کو دیکھیں مثلاً حکیم اجمل خان صاحب کا ترجمہ ”نغمہ خداوندی“ جو 1935 میں شائع ہوا یا پھر خواجہ دل محمد کی کتاب ”دل کی گیتا“ جو 1944 میں آئی یا 2006 میں شائع ہونے والا شان الحق حقی کا ترجمہ۔ یہ سب خاصی حد تک عربی اور فارسی زدہ ترجمے ہیں۔ جب کہ انور جلال پوری کا ترجمہ صاف اور شستہ اردو میں ہے جس میں اکا دکا ہندی کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ اسی لیے راقم کے خیال میں گیتا کا یہی اردو ترجمہ سب سے بہتر اور عام فہم ہے۔ جس میں اصل متن کی خوبصورتی اور توازن واضح جھلکتا ہے اور اس کی زبان اکیسویں صدی کی جدید زبان معلوم ہوتی ہے۔

اب ہم ایک نظر ڈالتے ہیں ”گیتا نجلی“ کے ترجمے پر۔ انور جلال پوری کی اس کتاب کا پورا عنوان ہے ”اردو شاعری میں گیتانجلی“ جو 2014 میں شائع ہوئی۔ اس میں انہوں نے لفظی ترجمے کا کوئی دعویٰ نہیں کیا ہے۔ ٹیگور کا اصل بنگالی متن تھا اور انور جلال پوری نے اپنے ترجمے کو گیتا نجلی کے مفہوم کا شاعرانہ ترجمہ قرار دیا ہے۔ جب انہوں نے 2013 میں گیتا کے منظوم ترجمے کو مکمل کیا تو اسی برس ٹیگور کے ادبی نوبیل انعام کو ایک سال پورے ہوئے تھے۔ جو انہیں 1913 میں دیا گیا تھا اور جو ہندوستان کو ملنے والا نوبیل انعام تھا۔ اس انعام کے بعد ٹیگور ہندوستان سے نکل کر عالمی ادب کے آسمان پر چمکنے لگے تھے۔

نوبیل انعام ملنے سے پہلے ٹیگور کو خود ہندوستان میں بھی وہ قدرومنزلت حاصل نہیں تھی جو اس انعام کے بعد ملی۔ گیتا نجلی ایک پتلی سی کتاب ہے۔ جس میں الوہی جذبات اور روحانی خیالات درج ہیں۔ اس میں سو کے قریب نظمیں ہیں جنہوں نے 1911 میں بنگال کے ادبی منظر نامے میں ایک تہلکہ سا مچا دیا تھا۔ ان نظموں کا بنگالی سے انگریزی میں پہلا ترجمہ خود ٹیگور نے کیا تھا جو ڈبلیو بی ییٹس (WB Yeats) کے تعارف کے ساتھ 1912 میں شائع ہوا۔

اردو میں غالباً گیتا نجلی کا پہلا ترجمہ علامہ نیاز فتح پوری نے کیا تھا مگر اس کا انداز بڑا عالمانہ تھا۔ پھر اگلی کوشش فراق گورکھپوری نے کی مگرو ہ شاعری کے بجائے نثر میں تھی اور اس میں رومانیت بہت زیادہ تھی۔ گوکہ ٹیگور نے ناول اور ڈرامہ نگار کے علاوہ ایک فنکار، استاد اور موسیقار کے طور پر بھی شہرت حاصل کی۔ مگر ان کی کتاب گیتا نجلی نے راقم کو بالکل متاثر نہیں کیا تھا۔ لیکن جب انور جلال پوری کا ترجمہ پڑھا تو اس کی عظمت واضح ہوئی۔

گیتا نجلی بنیادی طور پر ایک روحانی کتاب ہے لیکن اس میں کسی ایک عقیدے کی دوسرے پر فوقیت جتانے کی بالکل کوشش نہیں کی گئی ہے جیسا کہ پاکستان میں شائع ہونے والی اکثر روحانی کتابوں میں ہوتا ہے۔ انور جلال پوری کے ترجمے میں گیتا نجلی روحانیت سے زیادہ انسانیت کی پرچارک معلوم ہوتی ہے۔ اپنی تحریروں کے ذریعے انور جلال پوری نے لوگوں کو قریب لانے کا فریضہ خوب انجام دیا ہے۔ انہوں نے مختلف ثقافتوں اور عقیدوں میں رہنے والے لوگوں کے درمیان فاصلے کم کرنے کی کامیاب کوشش کی اور اس طرح وہ برصغیر میں سماجی ہم آہنگی کے ایک بڑے پیروکار بن کر ابھرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments