مولوی کیوں نہیں ڈرتا؟


\"image\"مجاہد حسین

مشہور زمانہ لال مسجدسے ہر کوئی خوفزدہ کیوں ہے؟ بہت سیدھا اور خاصا سادہ سوال ہے لیکن اس کا جواب دینا بہت مشکل اور پیچیدہ موضوعات کو چھیڑنے کے مترادف ہے۔ دو تین دہائیاں قبل قومی سطح پر تیار کئے گئے بیرونی جہاد کے منجن کی نمائشی فروخت کے لیے شوروم تلاش کرتے وقت فیصلہ کیا گیا تھا کہ لال مسجد سے بہتر ایسی کوئی جگہ نہیں ۔ لال مسجد کے پہلے سرکاری مدارالمہام مولوی عبداللہ فوری طور پر جنرل ضیا الحق کے دوست کے طور پر دریافت ہوئے اور دکانداری شروع کردی گئی۔ حاکم وقت سے اس قدر قربت نے رنگ دکھایا اور مال ہاتھوں ہاتھ بکنے لگا۔ رفتہ رفتہ شوروم ایک شاپنگ مال کی شکل اختیار کرگیااور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کی فرنچائزوں کا جال بچھ گیا۔ کئی سابق سول اور فوجی عہدیدار آج بھی دستیاب ہیں جو لال مسجد اور اس کے ذمہ داروں کے ساتھ ریاستی اداروں اور سول و فوجی حکومتوں کے بے مثال تعاون اور روابط کی حیران کن کہانیاں سناتے ہیں کہ کس طرح جدید ترین اسلحہ تک مسجد اور مدرسے کے تہہ خانوں میں لے جانے کی اجازت تھی۔ کیسے ملک بھر میں فرقہ وارانہ قتل وغارت کے بعد خطرناک قرار دئیے گئے جنونی قاتل مسجد اور ملحقہ مدرسے میں پناہیں حاصل کرتے تھے اور کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔

اب لوگ آسانی سے سوال کرنا شروع کردیتے ہیں کہ لال مسجد کے خطیب کو حکومتیں کیوں نہیں روک سکتیں۔ وہ جب چاہے پوری ریاست کو کافر قرار دے دیتا ہے، ریاستی اداروں کے سامنے طاقت کی ناقابل بیان مثال کچھ اداروں کو شرمندہ کردیتی ہے۔ لیکن سوال کرنے والوں کی یادداشت کا کیا کیا جائے کہ بھائیو ابھی چند سال ہوئے جب لال مسجد کے خلاف ایک’ منتخب ‘آپریشن کا اہتمام کیا گیا تھا تو لال مسجد سے ملحق غیر قانونی طور پر تعمیر کیے گئے جامعہ فریدیہ کا ملبہ بھی نہیں اُٹھایا جاسکا تھا کہ پاکستان کا مایہ ناز تعمیراتی جِن’خصوصی اشارے‘ کے بعد فوری طور پر غازی عبدالرشید کی بیوہ اور مولانا عبدالعزیز کی خدمت میں پیش ہوا۔ اپنے لگژری رہائشی ٹاﺅن کے دو عدد کروڑوں روپے مالیت کے مکانات اور ایک جدید ترین مدرسہ متبادل کے طور تعمیر کرکے،لال مسجد میںپناہ گزین مسلح افراد پرہوئی سہواً فائرنگ اور نقصانات کے ازالے کے طور پر پیش کر دیئے۔ یاد رہے کہ یہ ایک نہایت احمقانہ کوشش ہوگی اگر ہم مذکوہ لگژری ٹاﺅن کے حقیقی مالکان کی کھوج میں نکل کھڑے ہوئے، اس طرح ہم اصل موضوع سے ہٹ جائیں گے لہذا یہی کافی ہے کہ جیسے لال مسجد سے خوفزدگی کے سیدھے سادے سوال تک ہی محدود رہیں۔

کچھ عرصہ پہلے پوری ریاست مع سول و فوجی عہدیدارجمع ہوئے۔ تمام معاشی وسائل، بشمول قومی اسمبلی واعلی عدلیہ، ملک میں ایک نیشنل ایکشن پلان کا اعلان کیا گیا ۔ پیدل فوجی دستے اورائرفورس حرکت میں آتی ہے جبکہ ٹویٹرز کے ذریعے پوری قوم کو نیشنل ایکشن پلان کی جزیات سے مسلسل آگاہ رکھاجارہا ہے۔ قومی ذرائع ابلاغ کے خبرناموں (خیر ناموں) میں دہشت گردوں کے خلاف ملک کے کونے کونے میں جاری کارروائیوں سے باخبر رکھا جارہا تھا کہ دارلخلافہ میں اچانک ایک مولوی اس تمام تر تگ و دو مین اپنے محض دو منٹ کے ویڈیو کلپ سے کھنڈت ڈال دیتا ہے۔ جتھے گئیاں بیڑیاں اوتھے گئے ملاح۔

اب یہاں پوچھنا تو یہ چاہیے کہ ایسا کیوں ہے؟ لیکن پوچھنے سے زیادہ اہم ہے کہ جو کچھ ہم جانتے ہیں وہی بتایا جائے۔ تو صاحبان ،جواب یہ ہے کہ پاکستان میں طاقت ریاست کے ہاتھوں سے نکل کر کہیں اور منتقل ہوچکی ہے۔ طاقت کی مکمل منتقلی کا یہ کام اگرچہ شروع میں عارضی و رضاکارانہ سمجھا گیا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ مستقل نوعیت اختیار کرچکا ہے اور اب ریاست اور اس کے وقتی عہدیدارکبھی کبھی کھوئی ہوئی اس طاقت کی واپسی کا تقاضہ کرتے ہیں تو منہ کی کھاتے ہیں۔ اسلام آباد سے دور بیٹھی ہوئی کافر حکومتیں مسلم دشمن اقوام متحدہ میں اکٹھے ہوکرجب ہماری مجاہد تنظیموں پر پابندی کا فیصلہ کرتی ہیں تو فوری طور پر حفظ ماتقدم کے طور پر پابندی کی زد میں آنے والی مجاہد تنظیموں کی سہولت کے لیے راتوں رات قومی بینک کھول کر اِن سے گزارش کی جاتی ہے کہ وہ اپنے اثاثے نکال لیں کیوں کہ اگلی صبح تمام قومی بینک ان کے اثاثے منجمد کردیں گے۔ ایسا دوہزار دو سے دوہزار پندرہ تک تین بار ہوا ہے اور ہر بار اثاثے ’منجمد‘ کروانے والی تنظیوں کے اثاثے کئی گنا بڑھے ہیں۔ بیرونی پابندی کے نفاذ سے پہلے نئے نام اور کام تجویز کردئیے جاتے ہیں تاکہ مزید کسی پریشانی کا سامنا نہ ہو۔ ریاست کے فوجی مرکز پر جب اِنہی تنظیموں کے منہ زور جہادی حملہ کرتے ہیں تو طاقت ور عہدیدار ملک بھر سے ’ثالث‘ تلاش کرنا شروع کردیتے ہیں تاکہ اس حملے اور گھس بیٹھ کو ختم کروایا جاسکے۔ جن چار عدد ثالثوں کو اس کڑے وقت میں مدد کے لیے ہیلی کاپٹروں پر لایا گیا وہ نجی محفلوں میں اس ریاستی نقاہت کے قصے مزے لے لے کر سناتے رہے اور ریاستی بالادستی دھاڑیں مار مار کرروتی رہی۔ پھر بھی دریافت کیا جاتا ہے کہ لال مسجد کا مولوی ڈرتا کیوں نہیں؟

اس میں کوئی شک باقی نہیں کہ ڈر اب ریاست اور اس کے اداروں کی طرف منتقل ہوچکا ہے۔ سینکڑوں بکتر بند گاڑیوں اور لاتعداد مسلح محافظوں کی صف بندی میں سفر کرتے ہوئے ریاستی و حکومتی عہدیداراس بات کا واضح اشارہ ہیں کہ ڈر کا سفر کس طرف ہے۔ ڈر کے اس عفریت نے تعلیمی اداروں کو مورچوں میں بدل دیا ہے، مساجد کے صدیوں سے کھلے دروازوں کو مقفل کردیا ہے، درگاہیں ویران کردی ہیں، بلٹ پروف گاڑیاں اور شیشے بنانے والے دھڑا دھڑ نئی دکانیں کھول رہے ہیں۔ اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان سینکڑوں افراد کے قاتلوں کے مقدمات کی سماعت کے تصور سے خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔ ایک فرقہ پرست تنظیم کے ایک سربراہ کو چودہ سال تک ’سہولیاتی حفاظت‘ میں رکھا گیا کیوں کہ ملزم کے ساتھیوں نے کسی گواہ کو زندہ نہیں چھوڑا تھا اور عدالتیں اُن کے مقدمات کی سماعت سے لرزاں تھیں، جب کہ دوسری طرف اس دوران ایک منصف اعلیٰ گلی گلی پھر کر آزاد عدلیہ اور اُس کی طاقت کے گن گاتا رہا۔

ایک بارپھر پوچھا جاتا ہے کہ مولوی ڈرتا کیوں نہیں۔ مولوی نہیں ڈرے گا کیوں کہ ریاست ڈر گئی ہے۔ ریاست کے عوام سہم گئے ہیں،ریاستی ادارے اپنی حفاظت میں جتے ہوئے ہیں،اِن کا ذاتی ڈر ختم ہوگا تو یہ دوسروں کے ڈر کا تدارک کرنے کے قابل ہوں گے۔ اس کے باوجود امکانات موجود ہیں کہ اگرحقیقی جمہوریت کے ایک لازمی جزو یعنی کھلے مکالمے کو قدیمی قید سے آزاد کردیا جائے تو اس ڈر کا کھلا مقابلہ ہوسکتا ہے۔ جب تک ہمارے سماج میں مکالمہ قید ہے، پابند ہے ڈر کی پیداوار بدستور بڑھے گی۔ ہمارے ذرائع ابلاغ اگر انتہا پسندوں کے خوف سے نکل کر صرف عوام کو اِن کے نام اور مالیاتی و تحفظاتی روابط بتانا شروع کردیں،اِن کے خیالات سے مکمل آگہی کا بندوبست کرنا شروع کر دیں،ڈر عنقا اور یہ بالکل بے نقاب ہوجائیں گے۔ انتہا پسندوں کے نمائشی جبے جب تک اِن کے ابدان سے نہیں کھینچے جاتے اِن کی طاقت اورریاست میں خوف کا اضافہ ہوتا رہے گا۔ کھلے اور بے لاگ مکالمے کے ثمرات کبھی تاخیر کا شکار نہیں ہوتے شرط یہ ہے کہ اِن کا انعقاد کسی پانچ سالہ منصوبے جیسا نہ ہو کہ ادھر حکومت بدلی ادھر تعمیراتی کاموں کی تختیاں بھی بدل گئیں۔ اس کے لیے ایک غیر معینہ مدت تک قائم رہنے والا مستحکم ارادہ درکار ہے۔ دیکھنا پھر کبھی یہ سوال پوچھنے کی نوبت نہیں آئے گی کہ مولوی ڈرتا کیوں نہیں؟ ریاست اتنی کمزور کیوں ہے؟ عوام اتنے سہمے ہوئے کیوں ہیں؟ تعلیمی ادارے مورچہ بند کیوں ہیں؟ مساجد مقفل کیوں ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments