رونا روتے رہو


رونا ایک فطری عمل ہے۔ انسان روتا ہوا اس دنیا میں آتا ہے لیکن جب اس دنیا سے جاتا ہے تو سب کو رُلا کر جاتا ہے۔ بچوں کا رونا ان کا معمول ہے جبکہ بڑوں کا رونا حالات کا مرہون  منت ہے، مثلاً مہنگائی کا رونا، حالات کا رونا، بچوں کی نافرمانی کا رونا، حکمرانوں کا رونا۔ گریہ حضرت یعقوب علیہ السلام کا ذکر تو قرآن پاک میں ہے کس طرح انھوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کی جدائی میں رو رو کر اپنی بینائی کھو دی تھی۔

رونا بھی ایک فن ہے۔ رونے کے لیے حساس آدمی کو کچھ نہیں چاہیے ہوتا ادھر دل پر چوٹ لگی ادھر آنکھیں بھر آئیں، کچھ لوگ مصنوعی رونا بھی روتے ہیں شاید اسے ہی مگرمچھ کے آنسو بہانا کہتے ہیں۔ بچے تو روتے ہی توجہ حاصل کرنے کے لیے ہیں، حسینوں کی آنکھیں محبوب کی جدائی میں بھر آتی ہیں جبکہ بیوی کا رونا تو شوہر کو ہلا کر رکھ دیتا ہے، کہتے ہیں روتے ہوئے محبوبہ خوبصورت نظر آتی ہے جبکہ میڈیکل سائنس کہتی ہے رونے سے آنکھوں کی صفائی ہوجاتی ہے۔

سیاستدان اپنا رونا روتے رہتے ہیں، الیکشن میں ووٹ کے لیے رونا، جیت جانے کے بعد اسمبلی حکومتی پارٹی میں ہوئے تو وزارت کا رونا، وزارت مل جائے تو وسائل نہ ہونے کا بہانہ کرکے رونا، اپوزیشن میں ہوں تو اقتدار کے لیے رونا، ان کا رونا کبھی ختم نہ ہوگا عوام ہی رو پیٹ کر خاموش بیٹھ جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی شکل ہی روتی صورت ہوتی ہے شاید یہ محاورہ ان کے لیے ہی ہے کہ روتے کیوں ہو صورت ہی ایسی ہے۔ اب کیا کہیں صورت تو اللہ کی بنائی ہوئی ہے لیکن اس صورت پہ بارہ حالات نے بجائے ہوتے ہیں ہائے بے چارے اپنی رونی صورت لے کر کہاں جائیں بقول شاعر

کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا

بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا

شاعر ادیب بہت حساس دل رکھتے ہیں، زمانے کی ناقدری، محبوب کی بے وفائی، حالات کے ستم، ہجر و وصال کے قصے، حالات کے ستم انھیں رونے پر مجبور کردیتے ہیں اور یہ رونا ان کی تحریر، ان کے اشعار میں ڈھل جاتا ہے مثال کے طور پر

مری داستان ِ حسرت وہ سنا سنا کے روئے

مرے آزمانے والے مجھے آزما کے روئے

میر تقی میر کو رونے میں بھی احساس ہے کہ ان کے رونے سے کسی کو تکلیف بھی ہوگی وہ فرماتے ہیں

جو اس زور سے میر روتا رہے گا

تو ہمسایہ کاہے کو روتا رہے گا

پیسوں والوں کو روتے کسی نے نہیں دیکھا ہوگا کیونکہ ان کے رونے میں آنسو نہیں الفاظ ہوتے ہیں، بیگمات ہیں تو ڈزائینر سوٹ کا رونا روتی رہتی ہیں ہائے یہ مجھے پہلے بنانا تھا فلاں نے پہن لیا، میری جیسی جیولری فلاں کی بیگم نے بنوالی بھلا یہ بھی کوئی رونا ہوا بے بات کا رونا، اولادیں الگ کار کے ماڈل کا رونا روتی رہیں گی یا پھر سیل فون کے پرانے ہونے کا رونا۔ غریب کا رونا تو سدا کا ہے کبھی پیٹ بھر کر کھانا نہ ملنے کا رونا، بیماری میں علاج معالجے کا رونا، بچے کو اسکول نہیں بھیج سکتے مہنگی تعلیم کا رونا، اللہ کے بندو چادر دیکھ کر پیر پھیلاؤ روتے کیوں ہو شکر ادا کرو اللہ کا اور یہ سچ بھی ہے ہر ایک غریب کو ہی شکر ادا کرنے کا سبق یاد دلاتا ہے کہ اللہ کا شکر ادا کرو ہر وقت حالات کا رونا مت رویا کرو۔

اب بے چارہ غریب خود تھوڑی روتا ہے اسے تو حالات و واقعات رلاتے ہیں۔ ہم بھی حالات کا رونا روتے ہوئے کہاں تک آگئے کہ تبدیلی کا رونا بھی رونا شروع کردیا صبر نہیں ہے، گھبرانا نہیں ہے پھر بھی ہم گھبرا کر رو پڑتے ہیں۔ آخر بندہ بشر ہے پتھر کا بت تو نہیں۔ اوپر سے حکومتی وزراء کے ایسے ایسے بیان جنھیں پڑھ کر ہنسی کے ساتھ ساتھ رونا بھی آتا ہے کہ اے اللہ تو نے کن لوگوں کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور تھما دی۔

رونے کو تو ڈیم فنڈ پر بھی رونا آتا ہے ڈیم تو نہ بنا ڈیم فول بنا گیا اب اپنے ڈیم فول بننے پر بھی نہ روئیں تو کیا کریں۔ یہ عوام ہیں ہی ایسے کتنا کچھ کرلو ان کے لیے، روتے ہی رہیں گے۔ سب سے زیادہ مہنگائی کا رونا روتے ہیں اتنے دنوں سے مہنگائی ہے اب تو عادت ہوجانی چاہیے تھی نہیں جناب رونا روئے جارہے ہیں بجلی کی قیمت، گیس کی قیمت، پٹرول کی قیمت بڑھ گئی، ڈالر بڑھ گیا، سونے کے دام بڑھ گئے شکر کرو کہیں سے تو بڑھنے کی نوید مل رہی ہیے چاہے وہ مہنگائی ہو مگر ناشکرے اس کا بھی رونا روتے ہیں۔ مریض ہے تو دوا کے لیے، پڑھا لکھا ہے تو نوکری کے لیے، جاہل ہے تو تعلیم کے لیے، بھوکا ہے تو کھانے کے لیے رونا رو رہے ہیں آخر حکومت کیا کرے وہ پچھلے حکمرانوں کا رونا رو رہی ہے کہ یہ سب ان کا کیا دھرا ہے۔ اب خود فیصلہ کریں رونا جائز ہے یا ناجائز۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments