ڈونلڈ ٹرمپ کا دورہ انڈیا: ٹرمپ انتظامیہ کے مطابق امریکی صدر مذہبی آزادی پر بات کریں گے


امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے انڈیا دورے کے ساتھ یہ توقعات وابسطہ کی جا رہی ہیں کہ انڈیا میں ان کا بڑے پیمانے پر عوامی سطح پر استقبال کیا جائے گا۔

امریکی عہدیداروں کا خیال ہے کہ حالیہ برسوں میں انڈیا میں کسی بھی غیر ملکی رہنما کو دیے جانے والے اعزاز سے کہیں بڑے پیمانے پر صدر ٹرمپ کا استقبال ہو گا۔

ٹرمپ انتظامیہ سے وابستہ افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ پیر سے شروع ہونے والا ٹرمپ کا دورہ انڈیا دونوں ممالک کے مابین بڑھتے ہوئے تجارتی اختلافات کو کم کرنے میں معاون ثابت ہو گا۔

لیکن جمعے کے روز دونوں ممالک کے مجوزہ مذاکرات کے ایجنڈے کے تعلق سے ٹرمپ انتظامیہ کے بیان نے اچانک سب کو حیرت میں ڈال دیا۔

یہ بھی پڑھیے

صدر ٹرمپ انڈیا کے دورے سے کیا حاصل کریں گے؟

’اگر انڈیا، پاکستان چاہیں تو ثالثی کر سکتا ہوں‘

ٹرمپ اور انڈیا: تھوڑی خوشی، تھوڑا غم

ٹرمپ انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے کہا: ’میرے خیال سے صدر ٹرمپ جمہوریت اور مذہبی آزادی کے بارے میں ہماری مشترکہ روایت کے بارے میں نجی گفتگو اور عوامی طور پر بھی یقیناً بات کریں گے۔ وہ بطور خاص مذہبی آزادی جیسے امور کو اٹھائیں گے۔ اس معاملے پر بات کی جائے گی۔ ٹرمپ انتظامیہ کے لیے یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔‘

تجزیہ کار اس بیان کو انڈیا میں شہریت کے متنازع ترمیمی قانون اور نیشنل سٹیزن شپ رجسٹر پر مسلمانوں کی مخالفت کے تعلق سے دیکھ رہے ہیں۔

ٹرمپ انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے مزید کہا: ’وزیر اعظم نریندر مودی سے اپنی ملاقات میں صدر ٹرمپ اس حقیقت کی طرف توجہ مبذول کرائيں گے کہ دنیا جمہوری روایات کو برقرار رکھنے اور مذہبی اقلیتوں کے احترام کے لیے انڈیا کی طرف دیکھ رہی ہے۔ یقینا انڈیا کے آئین میں بھی مذہبی آزادی، مذہبی اقلیتوں کا احترام، اور تمام مذاہب کو مساوی حیثیت حاصل ہے۔‘

اختلافات کے معاملات

سیاسی اور سٹریٹیجک معاملات میں قریبی شراکت دار امریکہ اور انڈیا نے حالیہ برسوں میں ایک دوسرے کے خلاف تجارتی محصولات میں اضافہ کیا ہے۔

گذشتہ ایک ماہ سے دونوں ممالک کے عہدیداران اس کے متعلق بات چیت کر رہے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان ایک ورکنگ معاہدہ طے پا جائے لیکن اس پر ابھی تک کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی ہے۔

مظاہرے

انڈیا میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف ملک گیر سطح پر مظاہرے ہو رہے ہیں

امریکہ انڈیا کی بڑی پولٹری اور ڈیری منڈیوں میں داخلے کی اجازت چاہتا ہے۔ انڈیا اپنے یہاں فروخت ہونے والے طبی سامان کی قیمتوں کو کنٹرول کرتا ہے۔

امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں سے کہا جارہا ہے کہ وہ انڈیا میں اپنی ڈیٹا سٹوریج یونٹ لگائیں لیکن ان کمپنیوں کا کہنا ہے کہ اس سے ان کے کاروباری اخراجات میں اضافہ ہو گا۔

وزیراعظم مودی انڈیا کو دی جانے والی کاروباری چھوٹ کو دوبارہ شروع کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں جسے ٹرمپ انتظامیہ نے سنہ 2019 میں بند کر دیا تھا۔

اس کے ساتھ انڈیا اپنی ادویات اور زرعی مصنوعات امریکی منڈیوں میں بنا روک ٹوک فروخت کرنا چاہتا ہے۔

یہ وہ معاملات ہیں جن پر دونوں ممالک کے مابین اختلافات ہیں۔ انڈیا کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کو چین کے ساتھ اس کا موازنہ نہیں کرنا چاہیے، جس کی معیشت انڈیا سے پانچ گنا بڑی ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ کیا کہتی ہے؟

جمعے کے روز ٹرمپ انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے کہا کہ امریکی صدر کے انڈیا کے دورے کے دوران کوئی قابل قدر کاروباری معاہدہ نہیں ہونے والا ہے۔

’واشنگٹن کو اب بھی انڈیا میں بڑھتی ہوئی کاروباری رکاوٹوں کے بارے میں بہت سارے خدشات ہیں۔ ہم ان خدشات کا حل چاہتے ہیں جو ہم ابھی تک ہمیں نہیں ملے ہیں۔‘

’ان خدشات نے انڈیا کو دی جانے والی کاروباری مراعات کو ختم کردیا ہے۔ انڈیا ہمیں اپنی منڈی تک منصفانہ اور مساوی رسائی دینے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔‘

اس کے علاوہ ایوان صدر کے ترجمان نے جمعے کو انڈیا اور پاکستان کے مابین جاری کشیدگی اور صدر ٹرمپ کی کشمیر سے متعلق ثالثی کی پیشکش کے بارے میں بھی بات کی۔

انھوں نے کہا: ’صدر ٹرمپ انڈیا اور پاکستان کے مابین کشیدگی کو کم کرنے کے لیے بہت پرجوش ہیں۔ وہ دونوں ممالک کو باہمی بات چیت کے ذریعے اختلافات حل کرنے کی ترغیب دیں گے۔‘

انھوں نے مزید کہا: ’ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ اپنی سرزمین پر شدت پسندوں کو قابو کرنے کی پاکستانی کوششوں کی بنیاد پر ہی دونوں ممالک ایک معنی خیز بات چیت کر سکتے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp